• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سب سے پہلے تو میں پاکستان تحریک انصاف کے قائد عمران خان کو حالیہ قومی انتخابات میں شاندار کامیابی کی مبارکباد پیش کرنا چاہوں گا، ایک ایسے وقت جب ملک کی بڑی روایتی سیاسی جماعتیں سکڑ کر علاقائی سیاست تک محدود ہوتی جارہی ہیں، خان صاحب کی زیر قیادت تحریکِ انصاف نے کراچی تا پشاور کامیابی کے جھنڈے گاڑ کر اپنے آپ کو واحد قومی سیاسی جماعت ثابت کردیا ہے، الیکشن نتائج کے بعد کی صورت حال سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پی ٹی آئی وفاق اور صوبہ خیبرپختونخوا میں اکثریت حاصل کرلینے کے بعد پنجاب اور بلوچستان میں بھی حکومت سازی کی کوششوں میں کامیاب ہوتی نظر آرہی ہے۔ بچپن سے بڑے بوڑھوں سے سنتے آرہے ہیں کہ مشکل حالات سے گھبرا کر ہار مان لینا بہادر افراد کا شیوہ نہیں ہوا کرتا اور نیک نیتی سے جدوجہد کرنے والوں کو کٹھن مشکلات کا سامنا تو کرنا پڑسکتا ہے لیکن آخرکار فتح انکے قدم چھوتی ہے۔ ہماری موجودہ تاریخ میں اسکی جیتی جاگتی مثال پاکستان کے مایہ ناز سپوت عمران خان کی صورت میں ہمارے سامنے ہے جنہوں نے کرکٹ کو بطور پیشہ اختیار کیا تو بلندیوں کو چھو کر ورلڈ کپ قوم کے نام کیا، ناقابلِ علاج سمجھے جانے والے کینسر جیسے موذی مرض کا مقابلہ کرنے کی ٹھانی تو مختصر عرصے میں شوکت خانم میموریل اسپتال قائم کرڈالا، معاشرے میں انصاف کا بول بالا کرنے کی خاطر سیاست کی پرخار وادیوں میں قدم رکھا توقومی اسمبلی کی پانچ نشستیں جیت کر ایک ناقابلِ تسخیر ریکارڈ قائم کیا، آج عمران خان وزیراعظم پاکستان جیسے بلند ترین منصب پر فائز ہونے جارہے ہیں لیکن کیا کوئی تصور کرسکتا تھا کہ فقط بائیس برس قبل انصاف کے نام پر قائم ہونے والی جماعت جسکا سربراہ 2002ء کے قومی انتخابات میں صرف اپنی سیٹ بچا سکا،ایک دن قومی اسمبلی کی سب سے بڑی اکثریت جماعت کا روپ دھارنے میں کامیاب ہوجائے گی؟ اس بے مثال کامیابی کے پیچھے بلاشبہ عمران خان کی انتھک محنت، خدا پر یقین محکم، عوام کا اعتماد اور سب سے بڑھ کر پاکستان تحریک انصاف کے چھتری تلے ایک کثیر الجہتی ٹیم کی موجودگی ہے۔ میں ہمیشہ سے کہتا آیا ہوں کہ زندگی میں کامیابی کے حصول کیلئے ضروری ہے کہ دنیا میں کامیاب ہونے والے افراد سے سیکھا جائے، بطور رول ماڈل انکی جدوجہد سے سبق حاصل کیا جائے، کامیاب افراد کے نقش قدم پر چلنے والے زندگی کے سفر میں ناکام نہیں ہوا کرتے۔ میں سمجھتا ہوں کہ معاشرے میں سدھار لانے کا بہترین ذریعہ قلم ہے اور اگر قلم کے ساتھ سیاسی تجربہ بھی شامل ہوجائے تو کامیابی کا سفر مزید بامقصد بنایا جاسکتا ہے، مجھے یاد پڑتا ہے کہ خان صاحب نے بھی اپنی سیاسی جدوجہد کا آغاز اخبارات میں کالم لکھنے سے کیا تھا اور گاہے بگاہے انکے کالم قومی اخبارات کی زینت بنا کرتے تھے، بالخصوص انکی روزنامہ جنگ میں شائع کردہ ایک تحریر بعنوان ’’دُکھی انسانیت کی خدمت اصل عبادت ہے‘‘ تو آج بھی میرے ذہن میں تازہ ہے جس میں انہوں نے شوکت خانم کینسر میموریل اسپتال کے بارے میں معلومات فراہم کی تھی۔ عمران خان کا شمار ملک کی ان گنی چنی نامور شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے بطور مصنف اپنی سوانح عمری اور جدوجہد زندگی ایک کھلی کتاب کی مانند عوام کے سامنے پیش کر رکھی ہے۔ پاکستان کو قائم ہوئے سات دہائیاں بیت چکی ہیں لیکن آج بھی ہمیں عالمی برادری کے سامنے بطور قوم اپنی آئیڈیالوجی کے حوالے سے مختلف غلط فہمیوں کا سامنا کرنا پڑتا آرہا ہے، ان حالات میں عمران خان کی تحریر کردہ کتاب بعنوان ’’پاکستان، اے پرسنل ہسٹری‘‘ کا مطالعہ ہماری خارجہ پالیسی متعین کرنے میں نہایت معاون ثابت ہوسکتا ہے، کتاب میں ایک جگہ عمران خان شاعرِ مشرق علامہ اقبال کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ علامہ اقبال نے صرف انگریز سامراج کی غلامی سے آزاد ہوکر خودمختار حکومت کا تصور پیش نہیں کیا تھا بلکہ وہ سماجی ہم آہنگی، مساوات، خودداری، انصاف کی بلاامتیاز فراہمی اور عزت واحترام کی بنیاد پر ایک ایسے قابلِ تقلید معاشرے کا قیام چاہتے تھے جہاں پِسے ہوئے طبقات اپنے حقوق کی بازیابی کیلئے اٹھ کھڑے ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ خان صاحب کی زیرقیادت پاکستان تحریک انصاف نے اپنی سیاسی جدوجہد کا محور’’انصاف، انسانیت اور خودداری‘‘ کے نعرے کو بنایا۔ ذاتی طور پر میں خود سمجھتا ہوں کہ قائداعظم کی وفات کے بعد ہم حصولِ پاکستان کی اصل منزل سے دور ہوتے چلے گئے، آج جب عمران خان مدینہ کی فلاحی ریاست اور قائداعظم کے وژن کے مطابق دو نہیں ایک پاکستان کی بات کرتے ہیں تو میرے ذہن میں قائداعظم کے اس پاکستان کا تصور آجاتا ہے جسکی خاطر ہمارے بڑوں نے عظیم قربانیاں پیش کیں۔ سیاست میری نظر میں ایک عبادت کا درجہ صرف اسی صورت رکھتی ہے جب مقصد عوام کی خدمت کرنا ہو، یہ نظریہ موجودہ انتخابات میں ذاتی مفادات کی سیاست کرنے والوں کی شکست نے صحیح ثابت کر دکھایا، صوبہ خیبر پختونخواکے بارے میں بالعموم کہا جاتا ہے کہ یہاں ایک مرتبہ حکومت کرنے والی جماعت دوبارہ حکومت بنانے میں کامیاب نہیں ہوتی لیکن پی ٹی آئی کی کارکردگی نے ثابت کردیا کہ نیک نیتی سے کی جانے والی عوامی سیاست نہ صرف سیاسی استحکام کا باعث بنتی ہے بلکہ دوسرے صوبوں کے عوام کے دل بھی جیتے جاسکتے ہیں۔ بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر اصولوں پر سمجھوتہ نہ کرتے ہوئے اپنے ہر معاملہ زندگی بالخصوص امورِ سیاست میں لچک دکھانا ضروری ہے، عمران خان کی حالیہ انتخابات میں فتح کے بعد قوم سے تقریر وسیع پیمانے پر سراہی گئی ہے، پاکستان کے قومی لباس میں ملبوس مستقبل کے سربراہ مملکت کے قومی زبان میں خطاب کا دنیا بھرکے ٹی وی چینلز پر لائیو نشر ہونا اور عالمی اخبارات میں صفحہ اول پر نمایاں شائع ہونا عالمی برادری کی نگاہ میں ایک بدلتے ہوئے نئے پاکستان کیلئے قبولیت کی سند ہے۔ خان صاحب نے اپنے خطاب میںمحتاط الفاظ کا چناؤ کرتے ہوئے مبینہ دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات پر آمادگی ظاہر کرتے ہوئے سب سے پہلے اپنے آپ کو احتساب کیلئے پیش کیا،عمران خان نے قوم کے دیرینہ مسائل کے حل کی یقین دہانی کراتے ہوئے قانون کی بالادستی کے عزم کا بھی اظہار کیا۔ خان صاحب کے خطاب کے چیدہ چیدہ نکات کے مطابق آئندہ حکومت میں کسی کو سیاسی انتقام کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا، قومی اداروں کو مضبوط بنایا جائے گا، تمام باشندوں کیلئے یکساں قانون ہوگا، احتساب صرف اپوزیشن تک محدود نہیں ہوگا بلکہ اپنوں کو بھی قانون کی گرفت میں لاکر مثال قائم کی جائے گی، بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو ملک میں سرمایہ کاری کرنے کی دعوت دی جائے گی، نوجوانوں کو ہنرمند بنایا جائے گا، وزیراعظم ہائوس کو تعلیمی مقاصد کے لئے استعمال کیاجائے گا، چین کے ساتھ دوطرفہ دوستی کو مزید مستحکم کیا جائے گا، ہمسایہ ممالک اور عالمی برادری کے ساتھ خوشگوار تعلقات استوار کئے جائیں گے، وغیرہ وغیرہ۔ عمران خان کی تقریر کے جواب میں مختلف عالمی ممالک بشمول سعودی عرب، ترکی، چین اور بھارت کی جانب سے مبارکبادی کا سلسلہ جاری ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ خان صاحب کیلئے بائیس سالہ سیاسی جدوجہد کے بعد موجودہ کامیابی قدرت کی طرف سے ایک انعام بھی ہے اور ایک آزمائش بھی۔ عمران خان کو عدل و انصاف کا گہوارہ نیا پاکستان یقینی بنانے کیلئے وفاقی و صوبائی کابینہ کے انتخاب سمیت تمام معاملات میں اہلیت، معیار اور قابلیت کو فوقیت دینا ہوگی، پوری قوم دعاگو ہے کہ خداوند تعالیٰ ان کی زیر قیادت پی ٹی آئی کو کامیاب کرے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین