• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے
اپوزیشن اتحاد، وزیر اعظم سمیت ہر عہدے پر امیدوار لانے اور ایوان کے اندر باہر احتجاج کا اعلان تحریک انصاف کا خیر مقدم، جمہوریت کے حسن وجمال کا ایسا جلال کبھی نہیں دیکھاکہ سارے دشمن مشترکہ مفادات کے دوست ہو گئے، ہر ایک کو اپنی بکری چوری ہونے کا خطرہ ،ہر ایک کو اپنی لوٹ کی کھسوٹ کا اندیشہ، حکمرانی کے اندر باہر کے مزے لٹ جانے کا اندیشہ، الغرض ؎
دل کا کھلونا ہائے ٹوٹ گیا
کوئی کھلاڑی آکے لوٹ گیا
ہم نے اب تک کتنی ہی اے پی سی دیکھیں، متاثرین نے سردرد کیلئے کھائیں،واقعی ریاست مدینہ قائم کرنے کا دعویدار دردسر بن سکتا ہے یہ جو حالیہ اے پی سی لہر آئی ہے یہ فضل الرحمن کے گھر سے اٹھی ہے یہ اور بات ہے کہ غیرت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھرسے، خطرہ تو بڑا ہے جھوٹ سچ جو بھی کہہ رہا ہے خان کے خواب میں اس کی تعبیر میں نہ مزے ہیں نہ چرچے، وہ پروٹوکول لے گا نہ لینے دے گا، احتساب کا جھکڑ بھی چلنے والا ہے گویا یہاں رہے نام اللہ کا، ایک طویل عرصہ دوبڑی جماعتیں پے درپے اسی طرح ہی جیتتی آئی ہیں جیسے تحریک انصاف مگر اے پی سی کا اتنا بے تحاشا استعمال نہیں ہوا جو آج ہے ۔عمران کو سزا ملنی چاہئے کہ اس نے دو کے بعد تیسری بڑی جماعت کی حیثیت سے جیتنے کا گناہ کیا ہے،وہ کہتا ہے وزیر اعظم ہائوس میں نہیں رہنا ،یہ کہتے ہیںظالما!وزیر اعظم ہائوس میں ہی رہو، ان تمام متحدہ خیر سگالیوں کا تحریک انصاف نے خیر مقدم کیا ہے اور خیر مقدم ہی کرتی رہے گی، یہ جس زور شور سے ہر حکومت سے باہر کی بوٹی چڑھ چڑھ کے یک آواز بول رہی ہے انہیں اس قوم کے غریب عوام سے بہت پیار ہے یہ انہیں ثریاسے اتار کر ریسکیو کرکے خط غربت سے نیچے لا چکے ہیں، ذات اور ملک میں کوئی فرق نہیں رہا یہ ایک گرینڈ بپھری ہوئی اپوزیشن ملکی قسم کے ذاتی مفادات کیلئے تیار کی جا رہی ہے کس قدر اعلیٰ مقصد ہے کہ عمران کو چلنے نہیں دینا حالانکہ ابھی تو وہ چلا ہی نہیں ۔
٭٭ ٭ ٭ ٭
گرینڈ اپوزیشن ہماری ضرورت
وہ چہرہ کتنا حسین ہو گا جس پر شکست بھی تکبر و فرعونیت بن کر نظر آئے، بلوچستان کے ایک سردار نے عمران کو بلوچستان ہائوس طلب کیا ہے یہاں سردار، وڈیرے، جاگیردار، سرمایہ دار اور عظیم الشان چودھری ہی پیدا ہوتے رہے ہیں، مگر ہم نے مذہبی رئوسا نہیں دیکھے تھے وہ بھی اب باافراطملتے ہیں اور اول الذکر طبقے کے حق میں فتوے رقم کرتے ہیں، ہمیں تو سارا غصہ عمران خان پر ہے کہ ہر جمہوری ترقی یافتہ ملک میں دو ہی بڑی سیاسی جماعتیں ہوا کرتی ہیں ،انہوں نے کیوں ہماری اس فضیلت کو قائم نہیں رہنے دیا اور تیسری بڑی سیاسی پارٹی بن کے ہمارے اعصاب پر سوار ہو گئے؟دو جماعتیں کتنی اچھی تھیں ایک حکومت حکومت، دوسری اپوزیشن اپوزیشن کھیلتی رہتی اور عوام سکھ کا سانس روک کر پرسکون جی رہےتھے، اپوزیشن جتنی مضبوط ہو گی حکومت اتنی شفاف اور فعال ہو گی ٹھیک چلے گی تو چلتی رہے گی ورنہ چلتی نظر آئے گی، ہمیں اس کی بھی بڑی خوشی ہے کہ اس ملک کو ترقی دینے والی اور لوٹ کے مال کو واپس لانے والی دونوں بڑی جماعتیں ہر مشکل گھڑی میں ایک ہو کر کسی تیسری قوت کو یہاں کا نظام برباد کرنے کا موقع نہیں دیتیں ،پرسوں کی اے پی سی میں ہارے ہوئے چہروں پر نادیدہ جیت کی جو چمک نظر آ رہی تھی اس نے واقعی اے پی سی کی گولی کا کام دیا، اگر اس نئی اٹھتی سیاسی قوت کے آگے حلف سے پہلے ہی یہ بند نہ باندھا جاتا تو اس ملک کا کیا بنتا ؟سب سے خطرناک امر تو یہ ہے کہ پوری دنیا اس نئی قوت کی تعریف کر رہی ہے ؟کیا اس کے خطرناک ہونے کیلئے یہی کافی نہیں ،شیروانی کا بڑا شور برپا تھا سنا ہے انہوں نے شیروانی بالائے طاق ٹانک دی ہے اور وہ دو سفید کپڑوں اور چپلی میں حلف اٹھائیں گے ایک بات کی سمجھ نہیں آئی کہ کیا کبھی اس قدر جوق در جوق پہلے بھی کبھی سیاسی لوگ کسی بڑی جماعت میں اس انداز سے لگاتار شامل ہوئے ؟
٭٭ ٭ ٭ ٭
بزبان شاعر
مسلم معاشروں کو صرف فقیری ہی زوال سے بچا سکتی ہے اقبالؒ اس بات کو سمجھ گئے تھے کہ حکمرانی میں اگر فقر شامل ہو جائے تو قیصری پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے وہ فرماتے ہیں ؎
اب ترا دور بھی آنے کو ہے اے فقیر غیور
کھا گئی روح فرنگی کو ہوائے زر وسیم
کیا زمانہ تھا اسلام کی سیاسی قوت نے ساری دنیا روند ڈالی تھی وہ بھی گھوڑوں اور ٹوٹی ہوئی تلواروں سے ، آج امت مسلمہ کے پاس کیا نہیں مگر اس کی حیثیت عالم میں جھاگ ہے، مثل جھاگ اٹھتی ہے مثل جھاگ بیٹھ جاتی ہے گیا عروج واپس آ سکتا ہے مگر بقول غالب ہم مہربان تو نہیں
مہرباں ہوکے بلالو مجھے چاہو جس وقت
میں گیا وقت نہیں ہوں کہ پھر آ بھی نہ سکوں
بندہ مفلس، کا آج وہ حال کر دیا ہے کہ اس کے حصے کی ساری خوشیاں ہمارے دامن میں نظر آتی ہیں اور ہم جو ان کی کمائیوں پر راج کرتے ہیں عیش وآرام کرتے ہیں ہماری تعداد کتنی کم ہے اور وزن کتنا زیادہ، کبھی کسی نے محروم سے پوچھا کہ تیرا حال کیا ہے وہ جواب دیتا ؎
پُر ہوں میں شکوے سے یوں راگ سے جیسے باجا
اک ذرا چھیڑیئے پھر دیکھئے کیا ہوتا ہے
جس کا دل خوش نہیں اسے بہار بھی خزاں لگتی ہے ہم شاید وہ بہار ہیں کہ عطار کے لونڈے کے سوا کسی کے پاس ہمارا علاج نہیں، ہم ایک ہی سوراخ میں بار بار انگلی ڈالتے ہیں کہ صاحب رزق نہ تھے صاحب ایماں بھی نہیں اور اس پر طرہ یہ کہ ؎
محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کا فر پہ دم نکلے
کچھ کہنا پر کہہ نہ سکے، سوچا کیوں نہ کسی شاعر کے شانے پر بندوق رکھ کر چلائی جائے ۔
٭٭ ٭ ٭ ٭
شیر کی دھاڑ
٭...نواز شریف :دھونس، دھاندلی اور دبائو کیخلاف احتجاج جاری رکھا جائے ۔
شیر کچھار سے دھاڑا ہے۔
٭...خورشید شاہ :عمران خان وزیر اعظم بننے کے بعد اسپیکر ہائوس میں نہیں رہ سکتے ۔
اسلام آباد میں کرائے کے مکان بھی ملتے ہیں وہاں تو رہ سکتے ہیں ۔
٭...منی لانڈرنگ اسکینڈل فریال تالپور کے خلاف ثبوت مل گئے ۔
اب احتجاج میں اور بھی زور آئے گا۔
٭...نگران وزیر خزانہ :ن لیگ کا آخری بجٹ غیر حقیقت پسندانہ اور تشویشناک ہے ۔
اب وہ بھی گزر گئی، بجٹ بھی گزر گیا نگران تو کرائے کے نوحہ خواں ہیں ۔
٭...سردار اختر مینگل نے بنی گالہ جاکر عمران خان سے ملاقات سے انکار کر دیا،
اچھا کیا انکار کر دیا
انکار بھی سر دار کر دیا
٭...شیخ رشید :اپوزیشن گرینڈ الائنس جلد ٹوٹ جائے گا۔
یہ ٹوٹتا ،بنتا رہے گا ،کسی کا کچھ نہیں بنےگا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین