• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریک انصاف کے متوقع وزیر خزانہ نے پچھلے دنوں اپنے آنیوالے پانچ سالہ دور کے اقتصادی پروگرام کے بارے میں آگاہ کیا۔انہوں نے بتایا کہ پہلے سو دنوں کے اندر وہ ایک کروڑ نئی نوکریاں پاکستان کے نوجوانوں کو مہیا کرینگے اسکے علاوہ بے گھر لوگوں کیلئے پچاس لاکھ نئے گھر وزیر اعظم اسکیم کے تحت تعمیر کرینگے۔ انہوں نے بتایا کہ ہر سال بیس لاکھ نئے نوجوان نوکریاں لینے کیلئے تیار ہوتے ہیں جس کیلئے کوئی لائحہ عمل تیار نہیں ہے حالانکہ ان نوجوانوں کی تعداد ایک آزاد رائے کے مطابق تقریباََ تیس لاکھ ہے۔ انہوں نے چھوٹی اور درمیانی درجے کی صنعتوں کو فروغ دینے کے منصوبے کا اعلان کیا اوریہ بھی بتایا کہ کس طرح آج منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے چھوٹی صنعتوں کو کوڑیوں کے بھائو بیچا جا رہا ہے۔انہوں نے بینکنگ سسٹم میں ریفارمز کا بھی عندیہ دیا جو ا ن چھوٹی اور درمیانی درجے کی صنعتوں کو سرمایہ مہیا کریں گے لیکن یہ نہیں بتایا کہ ان چھوٹی اور درمیانی درجے کی صنعتوں کا بنایا ہوا مال کون خریدے گا ،یا ان صنعتوں کا انفراسٹرکچر بنانے کیلئے ٹیکنیکل ادارے کون میسر کرے گا۔انہوں نے نئی ٹیکس پالیسی کا ذکر ضرور کیا جو کہ انصاف ،سرمایہ کاری اور کاروبار کو فروغ دے گی۔انہوں نے صنعتکاروں اور عام شہریوں پر پڑنے والے مختلف ٹیکسوں کے بوجھ کا ذکر کیا لیکن یہ نہیں بتایا کہ کیا جاگیرداروں،جائیداد رکھنے والوں اورا سٹاک ایکسچینج کے ذریعے اربوں روپے کمانے والوں پر کوئی نیا ٹیکس لگایا جائے گا ؟،نہ ہی انہوں نے نئے ٹیکسوں کے اہداف کے بارے میں کوئی معلومات فراہم کیں۔آج پاکستان کا اصل مسئلہ ہی براہ راست ٹیکس کا نفاذ ہے۔ انہوں نے دولت مندوں ،ٹیکس چوروں، جائیداد رکھنے والوںیا اکانومی چلانے والوں پر ٹیکس لگانے کا کوئی عندیہ نہیں دیا۔انہوں نے بجا طور پر کہا کہ ایف بی آر میں وسیع پیمانے پر ریفارم کے بغیر دورس اقتصادی تبدیلی کا خواب پورا نہیں ہو سکتا ۔انہوں نے بتایا کہ پاکستان کی پچھلی پچاس سالہ تاریخ میں سب سے کم سرمایہ کاری نواز شریف کے پانچ سالہ دور میں ہوئی ہے جس کی وجہ سے ورلڈ بینک نے پاکستان میں کاروبار کرنے کی رینکنگ کو 107سے 147تک کم کردیا ہے۔ایسے ماحول میں ضروری ہے سرمایہ کاری لانے کیلئے ایک صاف ستھرے کاروباری افراد کا ایک بورڈ بنایا جائے گا جس کی قیادت عمران خان کریں گے جو ان کے بقول ورلڈ بینک کی رینکنگ کو واپس نوے ،بیانوے تک لے آئے گی۔
اسد عمر نے وزیر اعظم ہائوسنگ اسکیم کے تحت پچاس لاکھ نئے گھروں کی تعمیر کا اعلان کیا ہے اور بتایا ہے کہ کس طرح اسلام آباد کے لوگ کچی آبادیوں میں رہتے ہیںیاد رہے کہ اسلام آباد میں بیالیس کے قریب کچی آبادیاں جو کہ ناگفتہ بہ اور خطرناک حالت میں گندے نالوں کے قریب واقع ہیںاور اسد عمر صاحب انہی آبادیوں سے دوبار ووٹ لے کے اسمبلی میں پہنچے ہیں۔اندازہ تو یہ کیا جا رہا تھا کہ وہ اس سلسلے میں کسی انقلابی منصو بے کا اعلان کریں گے جوکہ اسلام آباد کی تیس سے پینتیس فیصد کچی آبادیوں کو مکانات فراہم کرے گی لیکن لگتا یہ ہے کہ وہ پرائم منسٹر ہائوسنگ اسکیم میں پرائیویٹ بلڈرز کے ذریعے ریفارمز کریں گے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کچی آبادی کے مکین جو کہ زیادہ تر پندرہ ہزار روپے پر گزارہ کرتے ہیںاس پچاس لاکھ کے مکانوں کی اسکیم سے کس طرح فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔اسلام آباد کی کچی آبادیوں کے یہ تیس سے پینتیس فیصد مکین یا تو سرکاری افسروں کے ہاں کام کرتے ہیں یا بڑے بڑے بنگلوں پر چوکیداری، خانساموں اور صفائی کا کام کرتے ہیں۔چاہیے تو یہ تھا کہ ان مکینوں کیلئے الگ سیکٹر مختص کیے جاتے اور آسان اقساط پر ان سے پیسے لے کر ’’خدا کی بستی‘‘کی طرزپر اپنی مدد آپ کے تحت بقیہ مکانوں کی تعمیر کرائی جاتی اور میٹرو بس کے نظام کو ان علاقوں تک وسعت دی جاتی تاکہ وہ بھی پاکستانی شہری کہلائے جاتے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام دوست منصوبوں کا اجرا کیا جائے جس سے شہریوں کی حالت بہتر ہو ،اسلام آباد میں ایک طرف توطبقہ امرا کی گاڑیوں کی برق رفتار ی کے مظاہرے کیلئے اربوں روپے کے خرچ سے ایکسپریس وے بنائے جا رہے ہیںتو دوسری طرف عام شہریوں کیلئے نہ صاف پانی،نہ سرکاری اسپتا ل،نہ اسکول میں تعلیم اور نہ ہی گلیوں میں صفائی کا کوئی انتظام موجود ہے۔یہ پچاس لاکھ مکان تو شاید بن جائیں گے لیکن یہ اسلام آباد کی پینتیس فیصد کچی آبادی کو متبادل مکانات مہیا نہیں کرسکیں گے۔انہوں نے حکومتی کنٹرول میں چلنے والے بڑے اداروں پی آئی اے او راسٹیل مل کی زبوں حالی کا تفصیل سے ذکر کیااور بتایا کہ 2012ء میں ان اداروں کا خسارہ چار سو ارب روپے تھا جو کہ آج بڑھ کر گیارہ سوارب روپے ہو گیا ہے۔نئے منصوبے کے تحت ان اداروں کا کنٹرول منسٹریز اور بیوروکریسی سے نکال کر ایسے کاروباری لوگوں کے حوالے کیا جائے گا جو ان صنعتوں کو چلانے کا تجربہ رکھتے ہوں گے اور اچھی شہرت کے حامل ہونگے۔ان کا مزید کہنا تھاکہ کوئی بھی ادارہ مزدوروں کی وجہ سے خسارے میں نہیں جاتا ۔اس منصوبے کے ذریعے یہ صنعتیں بھی منافع میں جائیں گی اور ان کے مزدور بھی خوشحا ل ہوں گے۔سی پیک کو انہوںنے پاکستان کی ترقی کیلئے ایک اہم منصوبہ قرار دیا لیکن یہ اس وقت ہی ممکن ہے جب اس منصوبے کو چائنہ کے سرمایہ داروں اور تجارت کرنے والے اداروں کے ساتھ جوڑا جائے تاکہ پاکستان کی صنعتوں میں سرمایہ کاری بھی ہو اور ان کا مال چائنہ میں بیچا بھی جاسکے۔انہوں نے پاکستان میں سیاحت کے فروغ کیلئے چار نئے سیاحتی مقامات قائم کرنے کا اعلان کیا۔انہوںنے اپنے اقتصادی پروگرام میں مزدوروں اور کسانوں کیلئے کسی حکمت عملی کا اعلان نہیں کیا۔چاہیے تو یہ تھا کہ وہ ای او بی آئی کی کم ازکم پنشن پندرہ ہزار مقرر کرنے کا اعلان کرتے او ر اس کا اطلاق تمام صنعتوں کے ساتھ ساتھ کھیت مزدوروں تک بھی کرواتے اور سرکاری ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن کی طرز پر ای و بی آئی کی پنشن میں بھی اضافے کا اعلان کرتے۔آج پاکستان میں پینتالیس لاکھ سے اسی لاکھ بانڈڈ لیبر جو کہ بھٹہ مزدوروں کی شکل میں کام کر رہے ہیں جن کا شمار قانونی طور پر ایک سو پانچ صنعتوں میں کیا جاتا ہے۔لیکن نہ انہیں مردم شماری میں گنا جاتاہے اور نہ ہی انہیں کسی قسم کے سوشل سیکورٹی کارڈز کا اجرا کیا جاتا ہے۔انہوں نے اپنے اقتصا دی پروگرام میں مظلوم طبقات اور خاص طور پر عورتوں ،مزدوروں،کسانوں اور نوجوانوں کے حقوق اور صنعتوں میںان کے انجمن سازی کے بنیادی حق کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔
تحریک انصاف کی بننے والی حکومت بہت ساری امیدیں ساتھ لے کر آئی ہے اور خاص طور پر نوجوانوں کی بڑی تعداد عمران خان کی فین ہے۔ایسے میں نیا پاکستان بنانے کے اہداف زبانی تو بنائے جاسکتے ہیں لیکن اس کی عملی شکل پاکستان جیسے سماج میں جہاں جگہ جگہ بیوروکریسی ،ادارے اور قانونی موشگافیاں کسی بھی سماجی تبدیلی کی راہ میںبڑی رکاوٹ ہیں اور ان رکاوٹوں کو دور کرنا تحریک انصاف کی قیادت کیلئے سب سے بڑا چیلنج ہو گا۔پاکستان اکنامک فورم کی رپورٹ کے مطابق ہمیں اگلی چار دہائیوں میں دس فیصد کی شرح سے اقتصادی ترقی کرنا ہوگی تاکہ ہر دس سال میں جی ڈی پی کم از کم دگنا ہو سکے۔صاف ظاہر ہے ان حالات میں علاقائی تعاون کے بغیر ان اہداف کا حاصل کرنا ناممکن ہے ۔تحریک انصاف کی خوش قسمتی ہے کہ پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع اور لیبر فورس کا ساٹھ فیصد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے جو کہ عمران خان کے اقتصادی پروگرام میں ریڑھ کی ہڈی بن سکتا ہے۔امید کی جارہی ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نئے منصوبوں کے ذریعے غریب عوام کو بالآخر اقتصادی ثمرات دینے میں کامیاب ہو جائے گی۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور وٹس ایپ رائے دیں۔00923004647998)

تازہ ترین