کیا فرق پڑتا ہے کہہ کرعبداللہ نے میری دکھتی رگ چھیڑ دی تھی۔میرے ان دوست کا استدلال یہ تھا کہ لفظ کے غلط املا یا استعمال سے کچھ فرق نہیں پڑتا، بات سمجھ میں آگئی تو بس ٹھیک ہے۔بحث جو کمرے سے شروع ہوئی تھی سڑک تک آن پہنچی تھی۔مجھے کہیں جانا تھا ،سو رکشا کے لئے ہاتھ ہلانا شروع کردیا۔اتنے میں ایک رکشا تھمتا تھمتا چل دیا،نہ جانے کیوں؟۔مگراس کا نہ رکنا میرے لئے مفید ثابت ہوا۔اس کے پیچھے دیگر چھوٹے لفظوں میں سفید رنگ سے لکھے دو بڑے لفظ نمایاں تھے، بلبلے پاکستان۔لکھنے یا لکھوانے والے کی منشا یقیناً اپنے تئیں خوش گلو ہونے کی رعایت سے بلبل ہی کا خطاب تھا سو اس غلط املا سے مجھے ایسی دلیل مل چکی تھی جس سے کیا فرق پڑتا ہے کی بحث سمٹ سکتی تھی۔وہ تو عبداللہ بھلے شخص تھے مان گئے ورنہ میں نے تو ایسی بحث کو چپقلش میں بھی بدلتے دیکھا ہے، بحث کرنے والوں کی آنکھوں میں خون اترتے بھی دیکھا ہے۔ شاید غلطی تسلیم کرنے میں انا آڑے آجاتی ہے۔اس لفظ خون ہی کو لے لیجئے۔اس کی ایک شکل خونی ہے اور دوسری خونیں۔پہلے لفظ کا معنی قاتل ہے جب کہ دوسرے لفظ سے مراد خون آلودہ، سرخ اورخون سے نسبت رکھنے والا ہے۔ذرا مدد کیجئے یہ جاننے میں کہ یہ الفاظ درست استعمال ہوتے ہیں کیا۔خیردرست تو درست ہی کے گھرانے کا لفظ درستی بھی نہیں لکھاجاتا۔نہ جانے اس میں اور لفظ ناراضی میں حرف گ کیسے دخل درمعقولات کا مرتکب ہوتا ہے۔درستگی کو اصلاح ، صحت، مرمت، ترمیم کی ضرورت ہے اور ناراضگی سے زبان کے طالب علموں کی ناخوشی کاخدشہ ہے۔درشتی بھی اسی قبیل کا لفظ ہے، گ حرف کا داخلہ منع ہے اگرمقصد سختی اور بدخلقی کا اظہار ہوتو۔
میری ان گزارشات سے کسی بدخلقی کا شائبہ ہو تومعافی چاہتا ہوں مگر اس کا کیا کیجئے کہ ذرائع ابلاغ پر اچھا بھلا لفظ توجہ (ج پر پیش) کی بجائے توجہ(ج پر زبر) بولا جارہا ہے، واضح اور جامع کے تیسرے حرف کو زیر سے محروم کر کے اس پر زبر ڈال دی گئی ہے۔واضح تو غیر واضح ہوا مگرجامہ تو الگ سے ایک لفظ ہے، کیا مسجد کے ساتھ اس کی ترکیب درست ہوگی؟ترکیب تو ایک اور بھی غلط استعمال ہورہی ہے، خط کتابت۔مفہوم ہے خط لکھنا جس کے لئے انگریزی میں لفظ کارسپانڈینس ہے۔اس میں حرف واؤ کہاں سے گھسا، نہیں معلوم۔اسی طرح عربی کے لفظ وتیرہ کا حرف ت ط میں کیسے بدلا کاتب ہی جانے۔آپ سب جانتے ہی ہیں کہ وتیرہ سے مراد شیوہ، دستور اور عادت ہے۔
وتیرہ یہ بھی ہوچلا ہے کہ ہم لفظوں کا اختتام حرف ہ سے کرتے ہیں۔چاہے لفظ گوجراں والا، ڈاکا، بھروسا ، معما ، کمرا، گملا، پتا، تانگا ، ناشتا، استعفا، انڈا، ٹھیکا، جھرنا، جھروکا، چکما، دوپٹا، دھماکا، دھوکا، ڈبا، ڈنڈا، ہی کیوں نہ ہو۔فرق تب زیادہ پڑتا ہے جب چارا کا مطلب جانوروں کی خوراک ہو اور چارہ کا مفہوم تدبیر۔
پھر ہم شکر یا شکریہ ادا کرتے ہیں مگر خود کو مشکور قرار دیتے ہیں اور خود کوتابع کہنا چاہتے ہیں مگر تابع دار گردانتے ہیں۔یعنی جو ہم کہنا چاہتے ہیں اس سے الٹ مفہوم کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔بولنے میں ایسا اکثر ریڈیو اور ٹیلی وژن پرسننے کو ملتا ہے کہ وقت کے ق پر تو زبر ڈال دیتے ہیں مگر مرض اور غرض کا تلفظ فرض کی طرح ادا کرتے ہیں۔یعنی ر پر زبر کو بھلاتے ہوئے جزم کوترجیح دیتے ہیں۔نہ جانے وزن کیسے پورا ہوتا ہے جب شعروں میں ان الفاظ کا استعمال ہوتا ہے۔ ذرا ،مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی، ر پرجزم کے ساتھ پڑھئے۔ یا حسن تاثیر کو صورت سے نہ معنی سے غرض ،میں غرض کی ر پر زبرکو بھول کر دیکھئے۔سر دھننے کی بجائے سر نوچتے رہئے گا۔اردوزبان کے ایک ماہرڈاکٹرعبدالستار صدیقی کا کہنا ہے کہ ترقی کرنے والی قومیں اس زمانے میں بھی اپنی زبان کے لفظوں کی لکھاوٹ میں ضروری ترمیم اور مناسب اصلاح کرتی رہتی ہیں۔عام طورپراصلاح کی ضرورت اس لئے پڑتی ہے کہ ایک لکھنے والا، اپنی رائے کودخل دے کر، ایک غلط راہ اختیار کرتا ہے، اور دوسرے، بغیرتحقیق کئے ہوئے، اس غلطی کی پیروی کرنے لگتے ہیں۔جہاں کسی غلطی کی تکرار ہوئی، یا وہ کتابوں اور اخباروں میں راہ پاگئی، عوام کے لئے یہ ایک بہت بڑی سند ہوگئی کہ فلاں لفظ ایک کتاب میں یا کسی اخبار میں یوں لکھاہوا دیکھا ہے۔(ہم اس میں ریڈیو اور ٹیلی وژن کو بھی شامل کر سکتے ہیں )۔ڈاکٹر صاحب (مرحوم) کے بقول بڑی مشکل یہ ہوتی ہے کہ ان لوگوں کی تعداد بہت کم ہوتی ہے جو صحت اوراصول پر نظر رکھتے ہیں۔
نگراں حکومت کے قیام سے ذرا پہلے کی بات ہے کہ ایک جید قلم کار نے اپنی پاک دامنی کا اشارہ دیتے ایک مضمون میں کسی ایسے مہمان کا تذکرہ کیا جو ان کے بقول انہیں راشی سمجھ رہا تھا۔اصل میں یہاں ان کا مقصود مرتشی تھا۔راشی، رشوت دینے والا اور مرتشی، رشوت لینے والا۔مگر ان صاحب کا خیال ہوگا کہ جانا تو دونوں کو جہنم ہی میں ہے، کیا فرق پڑتاہے؟