• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا کے سب سے گنجان آباد ملک چین میں’ 'ون چائلڈ پالیسی‘ ختم کرکے دو بچوں کی اجازت دینے کے باوجود آبادی میں کمی دیکھی جا رہی ہے اور اب یہ قومی مسئلہ بھی بنتا جا رہا ہے۔چینی سرکار نے نوجوانوں سےجلدی شادی کر کے خاندان شروع کرنے کا مطالبہ کر دیا۔

گزشتہ دنوں چین کے ایک سرکاری اخبار میں سرخی لگائی گئی کہ’بچے کیپیدائش خاندانی معاملہ ہے اور قومی مسئلہ بھی۔‘حکومت عوام کو زیادہ بچے پیدا کرنے کے لئے حوصلہ افزائی کرتی نظر آرہی ہے۔

ایک اور چینی اخبار میں ایک صفحے کا کالم چھاپا گیا جس میں انتباہ جاری کیا گیا ہے چین میں پیدائش کی کم شرح معیشت اور معاشرے پر اثرات انداز ہونا شروع ہو گئی ہے۔کالم کے اس ٹکڑے نے لاکھوں مبصرین کی توجہ اپنی طرف مرکوز کی۔

چین کی مقامی سماجی رابطہ ویب سائٹ ویبو پر بھی اس عنوان سے بے شمار پوسٹ اور ان پر کمنٹس دیکھے جارہے ہیں۔ایسے کمنٹس یا ہیش ٹیگ جو حکومت کے خلاف جاتے ہیں وہ فورً غائب کر دیئے جاتے ہیں تاکہ ان سے عوام کی حوصلہ شکنی نہ ہو ۔

علاوہ ازیں چین میں ایک سر کاری ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا گیا ہے جس میں بچوں کی تعداد میں اضافے کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ایسا ہی ایک ڈاک ٹکٹ 2016میں جاری کیا گیا تھا جس میں آرٹ ورک کے ذریعے والدین کو ایک بچے کے بجائے دو بچے پیدا کرنے کی حوصلہ افزائی کی گئی تھی۔

چین کے قومی ادارۂ شماریات کے مطابق 2017ء میں چین میں ایک کروڑ 72 لاکھ سے زائد بچے پیدا ہوئے جو کہ 2016ء کے مقابلے میں کم ہیں۔ادارے کے مطابق 2016ء میں ملک میں ایک کروڑ 78 لاکھ بچوں کی پیدائش ہوئی تھی۔

چین کی آبادی ایک ارب 40 کروڑ کے لگ بھگ ہے اور وہ آبادی کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ آبادی پر قابو پانے کے لیے چین کی حکومت کئی دہائیوں سے 'ون چائلڈ پالیسی کا سختی سے نفاذ کرتی چلی آرہی تھی جسے 2015ء میں مرحلہ وار ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

چین کی کمیونسٹ حکومت نے 1970ء کی دہائی کے آخری برسوں میں بڑھتی ہوئی آبادی پر قابو پانے کے لیے 'ون چائلڈ پالیسی نافذ کی تھی جس کی خلاف ورزی کرنے والے والدین کو بھاری جرمانوں اور بعض اوقات متوقع ماؤں کو زبرستی اسقاطِ حمل کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔

چینی حکام کے مطابق 'ون چائلڈ پالیسی کے خاتمے کا فیصلہ ملک میں عمر رسیدہ افراد کی تعداد میں اضافے اور قابلِ کار آبادی کی تعداد میں کمی کے خطرے کے پیشِ نظر کیا گیا تھا۔

'ایک بچہ پالیسی کے خاتمے کے آغاز کے اگلے ہی برس 2016ء میں چین میں شرحِ پیدائش میں نمایاں اضافہ ریکارڈ کیا گیا تھا لیکن نئے اعداد و شمار کے مطابق 2017ء میں یہ شرح دوبارہ کم ہوئی ہےتاہم محکمۂ شماریات کے اعداد و شمار کے باوجود چین کے صحت اور خاندانی منصوبہ بندی کے قومی کمیشن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ گزشتہ سال بھی چین میں شرحِ پیدائش’معمول سے خاصی بلند‘ رہی ہے۔

تازہ ترین