• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صدر زرداری نے چوہدریوں کو یقین دہانی کرائی ہے کہ مونس الٰہی بلاول جیسا ہے جسے کہے گا ٹکٹ دوں گا۔
پیپلز پارٹی نے اپنی پنج رکنی ٹیم کا اعلان کر دیا ہے، جو زرداری، شجاعت حسین، پرویز الٰہی، مونس الٰہی اور بلاول زرداری پر مشتمل ہے، وہ محرم کا اس سے بڑھ کر کیا احترام کر سکتے ہیں۔ اسی طرح تو جمہوریت پھیلے گی پھولے گی کیونکہ اس کی جڑوں کو موروثیت کا پانی جو ملے گا۔ اس قوم کی قسمت دو لڑکوں کے ہاتھ میں دے کر بزرگوں کی بزرگی میں جو اضافہ ہو گا اس کے نتائج انتخابات میں سامنے آ جائیں گے، انتخابات کے لئے ٹکٹ دینا تو ایک قومی امانت اس کے اہل کے حوالے کرنے سے عبارت ہے، یہ تو نہیں کہ شہزادے جنہیں ابھی سیاسی دشت میں ایک چکر لگانے کا بھی تجربہ نہیں، وہ اپنے من پسند امیدواروں میں ریوڑیاں بانٹیں گے، اور مجوزہ فاتح پنجاب منظور وٹو مونس الٰہی کے اشارہٴ ابرو کے بغیر ایک قدم بھی نہیں اٹھائیں گے، دیکھئے کہ وٹو صاحب کا ستارہ کتنے عروج پر ہے، کیا تاریخ اپنے آپ کو نہایت شاعرانہ انداز میں نہیں دہرا رہی کہ امرؤ القیس کی محبوبہ عنیزہ نیا نیکلس پہن کر اپنے عاشق کے سامنے آئی اور کہنے لگی کیسا لگتا ہے؟ امرؤ القیس نے کہا میں تو صراحی دار گردن کو دیکھ رہا ہوں اور نیکلس کی قسمت پر رشک آ رہا ہے، کہ اس کا ستارہ کس بامِ عروج پر دمک رہا ہے، اب یہ پانچوں حضرات اور منظور وٹو صاحب قبلہ خود اندازہ لگا لیں، کہ نیکلس کون ہے عنیزہ کون اور امرؤ القیس کون؟

امریکی جرنیلوں کا سیکس سکینڈل، خاتون افسر کے کورٹ مارشل کا امکان، محبوباؤں کے سکیورٹی پاس معطل، طالبان خوش، عشق جب اپنی دیواریں پھلانگ جائے، حسن آوارگی کا اعجاز دکھانے لگے، اور یہ سلسلہ طول پکڑ جائے تو قوموں کی زندگی آزادی سے نکل کر پٹڑی سے اتر جاتی ہے، یہیں سے بڑی بڑی قوتوں کا زوال شروع ہوتا ہے۔ اگر صرف آزادی تک محدود رہا جائے تو کوئی حرج نہیں کہ ہر انسان کو ماں نے آزاد جنا ہے، فوج کسی بھی ریاست کی حفاظتی دیوار ہوتی ہے، اگر اس میں کہیں سے شگاف پڑ جائے، اور پھر یہ شگاف بڑھتے جائیں تو وہ قوم جیسے سخت جاڑوں میں بے لباس ہو جاتی ہے، امریکی جرنیلوں کا حالیہ سیکس سکینڈل ناسور کی مانند پھیلتا جا رہا ہے، یہ اب امریکی حکومت اور قوم پر ہے کہ وہ اس کا کیا علاج تجویز کرتے ہیں۔ یہ نہ ہو کہ
درد بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
امریکہ کو اگر دنیا کی زمام دیدی گئی تو وہ اپنی انسانی اخلاقی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہو، امریکہ کا نقصان ایک طرح سے علمی نقصان بھی ہے، کیونکہ اس ملک نے سائنس کی دنیا میں انسانوں کو بہت کچھ دیا، اسی طرح مذہبی حوالے سے بھی اب امریکہ تعصب کی راہ پر چل نکلا ہے، مسلم امہ سے دوستی اس کے بہتر مفاد میں ہے، اب وقت آ گیا ہے کہ وہ اِدھر اُدھر بھٹکنے کے بجائے اپنی جانب توجہ دے، امریکہ کو پھر سے ایک نشاة ثانیہ کی ضرورت ہے۔ حیرانی ہے کہ طالبان محبوباؤں کے سکیورٹی پاس معطل ہونے پر کیوں اتنے خوش ہیں۔ وہ طالبان ہیں، رقیبان نہ بنیں، یہ کوئی اچھی بات نہ ہو گی کہ امریکی جرنیلوں کے سیکس سکینڈل کی تفصیلات کو زیادہ اچھالا جائے، اوباما، حسن و عشق دونوں کو نتھ ڈال لیں گے، آخر ان کی سیاہ چمڑی کس کام آئے گی۔ امریکہ اب مہم جوئی موقوف کرے اور اپنے گھر میں وقوف کرے۔

لاہور کی امام بارگاہوں میں مجالس شروع، بچوں کا روایتی جلوس اور ماتم۔
محرم الحرام کا ماہ مبارک ہمارے کلینڈر کا پہلا مہینہ ہے، ہماری تاریخ کا ایک روشن کارنامہ 10/ محرم کو نواسہٴ رسول (ﷺ) نے جمہوریت کی بقاء کی خاطر جان دے کر انجام دیا۔ ملوکیت کی نفی اور سلطانی جمہور کی آواز بلند کرتے کرتے
سر داد نداد دست در دستِ یزید
حقا کہ بنائے لا الٰہ است حسین
(اپنا سر دے دیا مگر یزید کے ہاتھ میں ہاتھ نہ دیا، بلاشبہ لا الٰہ کی بنیاد حسین ہیں) حسین ابن علی رضی اللہ عنہ ، ایک ایسا بلند کردار ہیں، کہ ہم فخر سے ان کے حوالے سے دنیا کو جمہوریت کا تصور دینے کا دعویٰ کر سکتے ہیں۔
ان کے چاہنے والے ان کے لئے ماتم کرنے والے تعزیے اور جلوس نکالنے والے ہمارے مسلمان بھائی ہیں۔ اسی لاہور شہر میں ذوالجناح کے جلوس میں بلا تفریق عقیدہ سب لوگ شرکت کرتے تھے، کوئی فساد نہیں ہوتا تھا، لیکن پھر نہ جانے کس کی نظر لگ گئی کہ بھائی نے بھائی کا گریبان پکڑ لیا، فرقہ واریت نے سر اٹھایا مذہب ایک دھمکی بنا دیا گیا۔ ہمیں مسلمانوں کی تکفیر کر کے رسول اللہ (ﷺ) کی امت کی تعداد نہیں گھٹانی چاہئے، یہ پاکستان ہر فرقے، گروہ اور عقیدے کے انسانوں کا گھر ہے، اس گھر کی سلامتی اسی میں ہے، کہ راہِ اعتدال اختیار کی جائے، انتخابات میں صحیح افراد کو چننے کا درس ہمیں اس سارے ماہ مبارک میں ملتا رہے گا، اہل لاہور بلکہ سارے پاکستانی اس مہینے کے تقدس کو برقرار رکھنے کے لئے ایک ہو جائیں۔

فوک گلوکار شاہد لوہار نے کہا ہے عارف لوہار سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ جب بھی لوہار کا لفظ سامنے آتا ہے تو یہ الفاظ سامنے آ جاتے ہیں۔
ٹٹی لت نوں وکھایا کئی وار وے
کسے نے میری گل نہ سنی
ہمارا پنجاب کا فوک میوزک کس قدر جاندار ہے وہ یہاں کے ڈھول کے سائز کو دیکھ کر ہی معلوم ہو جاتا ہے، عالم لوہار فیملی نے تھیٹر کے ذریعے وارث شاہ کی زبان میں ایسی جان ڈال دی کہ لوگ جوق در جوق تمبو والے تھیٹروں کا رخ کرنے لگے، پنجاب کی لوک داستانوں کو شائقین رات رات بھر سنتے اور سر دھنتے، بھنگڑا، لڈی، جگنی، داستان ہیر رانجھا، سوہنی مہینوال اور چناب یہ ہے پنجاب
لنگھ آ جا پتن چناں دا او یار
اس مصرعے میں کیا دو کناروں کا ملن پوشیدہ نہیں، پھر کیا وجہ ہے کہ اب تک کالا باغ ڈیم نہیں بنا، یہ ڈیم ضروری ہے شاید ہمیں ایک اور داستان سیف الملوک مل جائے، عارف لوہار المعروف جگنی نے اپنے والد کی ٹوٹی ہوئی ٹانگ کو ایسا جوڑا ہے کہ سو سنار دی تے اک لوہار دی، وہ جس مستی اور جذب کی کیفیت میں گاتے ہیں، اس سے گیت ناچ اٹھتے ہیں، اور جگنی مجسم ہو کر سامنے آ کھڑی ہوتی ہے، اور رانجھااونچی آواز میں کہتا ہے، ہیر گجی نہ رہے ہزار وچوں، شاہد لوہار اور بھی سیکھیں وہ اب بھی اس مقام پر ہیں کہ نظر لگنے کا خطرہ ہے۔ اس لئے اپنی نظر اتار کر گایا کریں۔
تازہ ترین