• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں وسائل کے مقابلے میں آبادی اور مہنگائی بڑھنے کی شرح کے زیادہ ہونے کی وجہ سے 90فیصد آبادی ایسی ہے کہ جہاں محدود آمدنی کا حامل ایک ہی شخص کئی کئی افراد کا کفیل ہوتا ہے۔ پورے کنبے پر اس کے جو منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ محتاج وضاحت نہیں۔ اس وقت ہماری تقریباً تیس فی صد آبادی غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے یہی وجہ ہے کہ خوراک کی کمی کے باعث ہر سال25سے 30ہزار کی تعداد میں خواتین دوران حمل زندگی کی بازی ہار جاتی ہیں۔ میر خلیل الرحمٰن میموریل سوسائٹی کے زیر اہتمام لاہور میں ’’دوران حمل غذا کی اہمیت‘‘ کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے اپنے خطاب میں ماہرین صحت نے بجا طور پر اس بات پر زور دیا ہے کہ خواتین کو صرف دوران حمل ہی نہیں عام دنوں میں بھی اپنی خوراک کا خاص خیال رکھنا چاہئے۔ اس کیلئے سماجی رویوں میں تبدیلی لانے کی خاطر ہر ذی شعور کو تعمیری کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہمارے معاشرے میں خوراک کے معاملے میں عموماًلڑکوں کو لڑکیوں پر فوقیت دی جاتی ہے ، اس طرزعمل کا تبدیل ہوناضروری ہے۔ ماہرین کا یہ کہنا بھی بجا ہے کہ کم عمری کی شادی اور غیر صحت مند ماحول نے ملک کے دیہی علاقوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ ملک کے 20اضلاع کی خواتین اس وقت خوراک کی انتہائی قلت کا شکار ہیں۔ ان میں بلوچستان کے10، خیبرپختونخوا کے 8، گلگت بلتستان اور سندھ کا ایک ایک ضلع شامل ہے۔ سندھ کے ضلع تھرپارکر سے آئے دن خوراک کی کمی کے باعث خواتین اور بچوں کی ہلاکتوں کی خبریں منظر عام پر آتی رہتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق اگر موجودہ حالت برقرار رہی تو خدشہ ہے کہ آئند دس بارہ سال میں ہمارا ملک دنیا میں خوراک کی کمی سے سب سے زیادہ متاثرہ 43 ملکوں میں سے ایک ہو گا۔ اس صورت حال کو جلد از جلد بہتر بنانا ضروری ہے تاکہ وطن عزیز کی آئندہ نسلیں توانا اور صحت مند ہوں۔ پالیسی ساز اداروں کو اس ضمن میں تیز رفتار پیش رفت یقینی بنانی چاہئے۔

تازہ ترین