• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اصغر خان کیس کا فیصلہ آتے ہی سیاسی میدان ایک مرتبہ پھر گرم ہو گیا ہے۔ الزامات اور جوابی الزامات کے شور میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ اس 22سالہ پرانے ”سانحے“ کے ردعمل میں وہ مطالبات کئے جارہے ہیں جیسے یہ واقعہ کل رونما ہوا ہو حالانکہ اس ضمن میں اس عرصے کے دوران قدرت بہت سے ”انصاف“ خود بھی کرچکی ہے۔ اس فیصلے کی روشنی میں کچھ سیاستدانوں کو ”نااہل“ قرار دینے کا مطالبہ ایسے ہی ”سیاست و بصیرت“ اور ”انصاف کی روح“ سے خالی ہے جیسے عرصے سے صدر آصف علی زرداری کے خلاف سوئس کیسز کے سلسلے میں وقت اور سرمائے کا ضیاع کیا جارہا ہے حالانکہ بغیر جرم ثابت ہوئے بھی زرداری صاحب گیارہ سال کی جیل کاٹ چکے ہیں۔
ماضی میں وقوع پذیر ہونے والے ”جرائم“ کی سزاؤں کا تعین کرنے میں انصاف کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ تاریخی شعور اور سیاسی بصیرت کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے ورنہ ماضی کے انصاف بھی گڑھے مردے اکھاڑنے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمارا سب سے بڑا قومی مسئلہ طویل آمریت کی وجہ سے جمہوری اداروں کی شکست و ریخت ہے جو سقوط مشرقی پاکستان سمیت ہمارے ہر مسئلے کی بنیاد ہے لہٰذا کوئی ایسا فیصلہ یا اقدام جو انصاف، حب الوطنی یا چاہے کسی بھی نام سے کیا جائے اگر جمہوری عمل کو کمزور کرنے کا باعث بنتا ہے تو اس سے گریز کرنا ہی بہتر ہے۔
90 ء کے الیکشن میں اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے کی گئی دھاندلی کا میں ذاتی طور پر اس لئے بھی گواہ ہوں کہ میں اس وقت پی ڈی اے کے میڈیا سیل کا ممبر تھا اور میں نے اس مہم میں بھرپور حصہ لیا تھا اور اس انتخابی دھاندلی کے بارے میں بہت کچھ لکھا بھی تھا۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ ہماری آزاد عدلیہ نے ہماری سیاسی تاریخ کے ایک تاریک گوشے کوبے نقاب کیاہے۔ ابھی اور بھی بہت کچھ ہے جو تاریخ کی عدالت کے فیصلوں کی شکل میں ہمارے سامنے آئے گا۔ لیکن ہر فیصلے کے بعد انصاف کے نام پر ایسے مطالبے کرنا جس سے انتشار اورعدم استحکام کا خطرہ ہو مناسب نہیں۔ تمام تر سیاسی اختلافات کے باوجود ہمیں اس حقیقت کا اعتراف کرلینا چاہئے کہ 1990 اور 2012 کے میاں نوازشریف میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ 90ء میں وہ سیاستدا ن نہیں اسٹیبلشمنٹ کے دوست تھے لیکن آج وہ اسٹیبلشمنٹ مخالف وہ سیاستدان ہیں جن کا موجودہ پانچ سالہ جمہوری دور کو بخیر و خوبی گزارنے میں نمایاں کردار ہے۔ پاکستان کے اپنے تناظر میں سیاستدان کی تعریف (Defination)دوسرے ممالک سے مختلف ہے۔ یہاں عوام صرف اسے سیاستدان مان کر اس کی عزت کرتے ہیں جو پاکستان کے حقیقی مقتدر غیرسیاسی اداروں سے مخالفت کی ہمت اور جرأت رکھتاہو جو عوام کے نزدیک پاکستان کے مسائل کے اصل ذمہ دار ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو شہید بھی قائد عوام اسی وقت بنے تھے جب انہوں نے فوجی آمریت کی مخالفت ا ور جمہوریت کی حمایت کی تھی۔ یہی کارنامہ یا قصور محترمہ بینظیر بھٹو شہید کا بھی تھا جس کی پاداش میں انہیں اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔ بھٹو خاندان اور پاکستان پیپلزپارٹی کی جمہوریت کے لئے دی گئی قربانیوں نے ہی اسے پاکستانی عوام میں مقبول عام بنایا تھا۔ اسی طرح فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف نے میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کے ساتھ جو غیرانسانی سلوک کیا اس نے میاں صاحب کو بھی اسی راستے اور فلسفے پر چلنے کے لئے مجبور کر دیا جو پاکستانی عوام کے نزدیک عزت اوراحترام کا راستہ ہے۔
اگر میاں نواز شریف کو 90 ء میں اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ ہونے کی بنا پر ”نااہلی“ کی سزا دی جاسکتی ہے توعدلیہ، فوج اوربیوروکریسی سے تعلق رکھنے والی ان معزز شخصیات کا کیا بنے گا جنہوں نے فوجی ڈکٹیٹروں کو ”نظریہ ٴ ضرورت“ کے تحت حکمرانی کا جواز بخشا۔ لیکن بعد میں انہوں نے فوجی ڈکٹیٹروں کی مخالفت کی اورعوام نے انہیں عزت اور احترام بخشا۔ ہمارے ہاں ”نظریہ ٴ ضرورت“ یوں تو بہت بدنام ہوچکا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کی بدنامی اس کے غلط استعمال میں ہے۔ ورنہ دنیا میں ہر مثبت تبدیلی بھی نظریہ ٴ ضرورت کے تحت ہی ہوتی ہے۔ حقائق کو ہرجگہ ایک ہی طرح نہ تو بیان کیاجاسکتا ہے اور نہ ہی دکھایا جاسکتا ہے۔ یہ ”نظریہ ٴ ضرورت“ کے مثبت پہلو کا مطالبہ ہے کہ وہ راز نہ بیان کئے جائیں جن کے افشا سے معاشرے میں انتشار پیدا ہو کیونکہ یہی عقلمندی کا تقاضہ ہے۔
ملکی استحکام، ترقی اور خوشحالی کی منزل حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ حقائق کے افشا اور ردعمل کے مطالبوں میں اس ذہانت، اعتدال اور سیاسی بصیرت کو بروئے کارلایا جائے جو مزید مسائل کا سبب بننے کی بجائے مسائل کے حل کاذریعہ بن سکے۔ ماضی کے المناک واقعات و حادثات سے مستقبل میں محفوظ رہنے کیلئے یہ ضروری نہیں کہ ہم ماضی کو دفن کردیں کیونکہ ماضی مرحوم ہوچکا اورگڑھے مردے اکھاڑنے سے کیا فائدہ۔ کئی لوگوں کے نزدیک ہم جس طرف دیکھتے ہیں اسی طرف سفرکرتے ہیں پیچھے کی طرف دیکھتے ہوئے ہم آگے کا سفر نہیں کرسکتے۔ یہ ایک نقطہ نظر اور ایک راستہ ہے لیکن یہ درست نظریہ نہیں ماضی کو مقام عبرت کے طور پر دیکھنا اور ماضی میں کی گئی غلطیوں سے سبق سیکھنا ہی ہمارے حال اور مستقبل کو بہتر بنانے کی کسوٹی ہے لہٰذا ماضی کا پوسٹ مارٹم اور تجزیہ کرنا ضروری ہے۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ ماضی کا پوسٹ مارٹم بھی کیا جائے اور اس سے اخذ ہونے والے حقائق کو من و عن بغیر کسی سیاق و سباق کے لئے اپنے حال پر ”مسلط“ کردیا جائے۔ چاہے اس کے نتائج کچھ بھی نکلیں یہ راستہ خودغرضی پر مبنی اور سیاسی بصیرت سے خالی ہوتا ہے۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت اس کی ایک ”کلاسیکل“ مثال ہے۔ اس وقت دنیا کے ہر تاریخی اورسیاسی شعوررکھنے والے دانشوراورشخص نے اس پر عملدرآمد روکنے کے لئے اپیلیں اوراحتجاج کیا کہ یہ فیصلہ پاکستانی سیاست کے کنویں کوہمیشہ کیلئے زہریلا کردے گا لیکن بھٹو مخالف ٹولے نے محض اپنے ذاتی مفادات کی خاطرانصاف کے نام پر ہونے والے اس ظلم کا ارتکاب کر دیااورنتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ ہم سیاسی اور جمہوری عدم استحکام کے اس موڑ پرکھڑے ہیں جہاں 1977 میں تھے۔
تیسرا راستہ جو اعتدال، ذہانت اور سیاسی بصیرت کاحامل ہے۔ وہ یہ ہے کہ آپ اپنے ماضی کو ضرور کھنگالیں۔ اس کا بے لاگ تجزیہ کریں۔ اپنے دوستوں اور دشمنوں میں پہچان کریں۔ جنہوں نے آئین سازی کی اور قوم کو ترقی اور خوشحالی کے راستے پر ڈالا انہیں محسن قوم قرار د۔یں جنہوں نے آئین توڑے، عوام کو کوڑے مار کر ان کی تذلیل کی، اس ملک کو توڑنے کا باعث بنے، جن کی وجہ سے غیرملکی طاقتوں کو ہمارے خطے میں اپنے مفادات کی جنگیں لڑنے کی اجازت ملی اور جن کی وجہ سے آج پاکستان مذہبی منافرت، فرقہ وارانہ فسادات، خودکش دھماکوں اور علیحدگی پسند طاقتوں کی ریشہ دوانیوں کااکھاڑا بن چکا ہے انہیں غدار اور وطن دشمن قرار دے کر اپنی خوشحالی اورترقی کے نئے نصاب تحریر کریں۔ ان میں جوزندہ ہیں انہیں اس کی سزا اور جزا بھی دیں لیکن یہ سزائیں اور جزائیں دیتے ہوئے ان کے ہر ایک فعل کو مدنظر ضرور رکھیں۔
عوام پر زبردستی مسلط ہونے والے حکمرانوں اوران کے حواریوں کو یا تو وقت کی عدالتیں یا تاریخ کی عدالتیں ہی سزا دے سکتی ہیں لیکن سیاستدانوں کو جو پاکستانی حوالے سے سیاستدان کہلانے کے حقدار ہیں اور جنہوں نے غیرآئینی حکمرانوں کے ہاتھوں جرم بے گناہی میں اذیتیں برداشت کی ہیں، جیلیں کاٹی ہیں اور جلاوطنیاں برداشت کی ہیں، ان کے لئے ایک تیسری عدالت بھی ہوتی ہے اور وہ ہے عوام کی عدالت جس کے سامنے اسے جلد یا بدیر پیش ہونا ہی پڑتا ہے۔ سیاستدانوں کی سیاسی زندگی کا حتمی فیصلہ عوامی عدالت ہی کرتی ہے لہٰذا وقت کی عدالتیں ان کے غیرسیاسی جرائم کا فیصلہ تو بے شک کریں اوران کی سزا بھی تجویز کردیں لیکن ان کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ عوام کو کرنے دیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ وقت کی عدالت سے موت کی سزا پانے والاذوالفقارعلی بھٹو اپنی جسمانی موت کے بعد ہونے والے عام انتخابات میں گیارہ سال کے بعد بھی زندہ تھا، آج بھی زندہ ہے جبکہ اس کا حریف وقت، تاریخ اور عوام کی عدالت کے ہاتھوں یوں فنا کے گھاٹ اتر چکا ہے کہ آج اس کی سیاسی اولاد بھی اس کا نام لینے کی روادار نہیں۔
پاکستان کی نجات صرف جمہوری عمل سے وابستہ ہے جسے ایک مرتبہ پھر ڈی ریل کرنے کے لئے غیرجمہوری طاقتیں گھات لگائے بیٹھی ہیں۔ سیاستدانوں کی ایک دوسرے کوہر قیمت پر مات دینے کی خواہش ان مرتی ہوئی طاقتوں کو پھر سے زندہ کرنے اور رہے سہے پاکستان کو پھر سے تباہ کرنے کے مترادف ہے۔ ہر نظام اپنے ادارے کی مضبوطی کے مطابق مضبوط یا کمزورہوتا ہے۔ غیرجمہوری ادارے اقتدار سے باہررہ کر بھی اپنی ہیت ترکیبی اور اہمیت کی بنا پرمضبوط ہوتے ہیں لیکن جمہوری ادارے صرف جمہوری عمل کے تسلسل کے ذریعے ہی مضبوط رہ سکتے ہیں۔ غیرجمہوری ادوار میں جمہوری ادارے کمزور ہوجاتے ہیں۔ جب جمہوریت کا قتل کیاجاتاہے تو وہ مر جاتی ہے۔ جب دوبارہ اس کااحیاء کیاجاتا ہے تو وہ دوبارہ جنم لیتی ہے لہٰذا جمہوریت کی عمر ناپنے کامعیار تمام جمہوری ادوار کی عمروں کو جمع کرنا نہیں۔ پاکستان میں آج جمہوریت صرف پانچ سال کی ہے 30سال کی نہیں کہ ایک نعمت دوسری نعمت کو کھا ہی جائے اورہماری یہ حالت ہوجائے کہ:
بارش کی دعا مانگی تو گھر ڈوب گیا
کیا کریں جب کہ جزائیں بھی سزا ہوجائیں
تازہ ترین