• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 ’’بیدار‘‘ اور ’’بیزار‘‘ کا درست املا کیا ہے ؟

بیدار اور بیزار میں ’’بے ‘‘ سابقہ نہیں ہےایک صاحب نے اپنے بے روزگار لخت ِ جگر کی ملازمت کے سلسلے میںمولاناماہر القادری سے سفارش کی درخواست کی ۔ مولانا کی کوششوں سے موصوف کے صاحب زادے کہیں نوکر ہوگئے تو خیال آیا کہ مولانا کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ چنانچہ انھوں نے اپنے خط میں مولانا کا شکریہ دا کرتے ہوئے لکھا ’’میرے بیٹے کو ملازمت مل گئی ہے اور یہ سب آپ کی مہربانیوں اور ریشہ دوانیوں کا نتیجہ ہے ‘‘۔

اپنی دانست میں انھوں نے ادبی زبان لکھی تھی لیکن اگر انھیں لفظ ریشہ دوانی کے صحیح معنی معلوم ہوتے (یعنی سازش) تو یوں کبھی نہ لکھتے ۔دراصل ہم لفظوں کی اصل اور بناوٹ پر غور نہیں کرتے اور ان الفاظ کو بھی بلا تکلف استعمال کرلیتے ہیں جن کا صحیح مفہوم یا املا ہمارے ذہن میں نہیں ہوتا ۔ اب تو یہ عالم ہوگیا ہے کہ بعض اخبارات و رسائل بھی زبان کے استعمال میں احتیاط نہیں کرتے اور بعض جرائد نے بعض الفاظ کا من مانا املا لکھنا شروع کردیا ہے حالانکہ املا کی تبدیلی سے بسا اوقات لفظ ہی بدل جاتا ہے اور مفہوم کچھ کا کچھ ہوجا تا ہے ۔ ایسے ہی دو الفاظ ہیں بیزار اور بیدار ۔ذرا ان پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ان کا اب ’’جدید‘‘ (یعنی من مانا اور غیر مصدقہ) املا لکھا جارہا ہے ۔لیکن ان کے املا میں جو جدت برتی جارہی ہے اس کا شمار بدعت ہی میں ہوگا۔

٭بیدار یا بے دار؟

یہ ٹھیک ہے کہ لفظوں کو بلا وجہ ملا کر نہیں لکھنا چاہیے لیکن لفظوں کو بلا وجہ توڑنا بھی درست نہیں ، خاص طور پر جب لفظ کو توڑنے سے مفہوم بدل رہا ہو ۔ آج کل اخبارات اور جرائد میںجن لفظوں کو توڑکر لکھا جارہا ہے ان میں لفظ بیدار بھی شامل ہے اور اسے توڑ کر ’’بے دار‘‘ لکھا جارہا ہے ۔ لکھنے والے اگر اس لفظ کی اصل پر غور کریں تو انھیں احساس ہوگا کہ درست لفظ بیدار ہے اور اسے ’’بے دار‘‘ لکھنا اس لیے غلط ہے کہ اس میں ’’بے‘‘ نہ تو بطور سابقہ آیا ہے اور نہ ’’دار‘‘ بطور لاحقہ ۔ بلکہ ’’بے دار ‘‘ تو اچھا خاصا لطیفہ ہے کہ اس میں ایک سابقہ ہے اور ایک لاحقہ ۔ لیکن کیا صرف سابقے اور لاحقے کو جوڑ کر بغیر کسی اصل لفظ کے کوئی لفظ بنایا جاسکتا ہے ؟ مزے کی بات یہ ہے کہ لفظ ’’بیدار ‘‘ فارسی کا لفظ ہے لیکن اس کا نیا املا’’بے دار ‘‘ اردو توکیا فارسی میں بھی وجود نہیں رکھتا ۔لیکن بعض رسالوں کے مدیران یہ املا لکھنے پر مصر ہیںاور اس پر فخر بھی کرتے ہیں ،گو ظاہراً انکسار کا اظہار کرتے ہیں۔ اسے کہتے ہیں ایجادِ بندہ اگرچہ گندہ۔

لفظ ’’بیدار‘‘ درحقیقت دو الفاظ سے مل کر بنا ہے لیکن یہ دو الفاظ’’ بے‘‘ اور’’ دار‘‘ نہیں ہیں۔ مولوی عبداللطیف اپنی کتاب ’’المفرد المرکب ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ فارسی میں ’’بید ‘‘ کا لفظ شعور اور آگہی کے معنی میں آتا ہے اور ’’آر ‘‘ دراصل قدیم فارسی کا لاحقہ تھا جو مرور ِ ایام سے صرف ’’ار‘‘ رہ گیا۔ یعنی کسی زمانے میں فارسی میں یہ لفظ ’’بید آر ‘‘ رہا ہوگا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسے ملا کر ’’بیدار ‘‘ لکھا جانے لگا ۔ اب بھی فارسی میں اسی طرح یعنی ’’بیدار ‘‘ لکھا جاتا ہے اور اس کے معنی ہیں : جو سویا ہوا نہ ہوا، جاگتا ہوا، ہوشیار۔مولوی عبداللطیف نے ایسے کئی فارسی الفاظ اپنی اس کتاب درج کیے ہیں جو بظاہر جامد یا مفرد معلوم ہوتے ہیں لیکن دراصل مرکب ہیں ۔

فارسی کی مشہور لغت ’’فرہنگ ِ آنند راج ‘‘ میں لفظ ’’آر ‘‘ کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ اسم ِ فاعل کے معنی میں ہے جیسا کہ پرستار اور خریدار وغیرہ میں ۔ گویا کسی زمانے میں ان الفاظ کا املا’’پرستآر ‘‘ (پرست آر)اور ’’خرید آر‘‘رہا ہو گا ۔ لیکن بعد میں اس لاحقۂ فاعلی یعنی’’ آر‘‘ کو ضم کردیا گیا ۔فارسی کی ایک اور معروف اور مستند لغت ’’دہخدا ‘‘ ہے ۔

تازہ ترین