• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے ہفتے کی صبح اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بائیسویں وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف اٹھالیا ۔ اس طرح ان کی بائیس سالہ سیاسی جدوجہد کامیابی سے ہم کنار ہوئی لیکن درحقیقت اب ان کے آزمائش کا کڑا دور شروع ہوا ہے۔ اب ان کی اور ان کی ٹیم کو ان دعووں اور وعدوں کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا جو ملک کے استحکام اور خوشحالی حوالے سے وہ اپنی پوری سیاسی جدوجہد کے دوران کرتے رہے ہیں۔ جمعہ کی شام قومی اسمبلی میں وزارت عظمیٰ کا الیکشن انہوں نے 176 ووٹ لے کر جیتا ہے جبکہ اس کے لیے کم از کم 172ووٹوں کی ضرورت تھی ۔ ان کی اپنی پارٹی کے ارکان قومی اسمبلی کی تعداد 151 ہے جس کی وجہ سے وزارت عظمیٰ کے لیے انہیں کئی دوسری پارلیمانی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنی پڑی ۔گویا کسی بھی مرحلے پر محض پانچ ارکان کی تائید سے محرومی ان کی حکومت کے خاتمے کا سبب بن سکتی ہے۔لہٰذااس حمایت کو برقرار رکھنے کے لیے عین ممکن ہے کہ انہیں ان جماعتوں کے بعض ایسے مطالبات بھی ماننا پڑیں جو بصورت دیگر ان کے لیے قابل قبول نہ ہوتے۔ دوسری جانب نئی منتخب وفاقی حکومت کو ایک بڑی حزب اختلاف سے سابقہ درپیش ہے ۔ قائد حزب اختلاف کا منصب مسلم لیگ (ن) کے موجودہ صدر میاں شہباز شریف سنبھالنے والے ہیں کیونکہ ایک سو گیارہ ارکان نے اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کو اپنے دستخطوں سے اس عہدے کے لیے ان کا نام پیش کردیا ہے جن میں حزب اختلاف کی دوسری بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے کئی ارکان بھی شامل ہیں۔ جن حالیہ عام انتخابات کے نتیجے میں عمران خان وفاقی حکومت کی سربراہی کی منزل تک پہنچے ہیں ان کی شفافیت پر بہت سے سوالیہ نشان ثبت ہیں۔ وزیر اعظم کے انتخاب کے موقع پر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی دونوں کے سربراہوں نے اپنے خطابات میں انتخابی عمل میں ہونے والی بے قاعدگیوں کی تحقیقات کی ضرورت پر زور دیا۔ میاں شہباز شریف نے اس مقصد کے لیے پارلیما نی کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا جبکہ عمران خان نے وزرات عظمیٰ کا الیکشن جیتنے کے بعد اپنے خطاب میں تحقیقات کے مطالبے کو پورا کرنے کا وعدہ کیا ۔ فی الوقت یہ وہ بنیادی معاملہ ہے جس نے ملک کی سیاسی فضا کو کشیدگی سے آلودہ کررکھا ہے۔ اگر پارلیمنٹ میں اس معاملے کو ترجیحی اہمیت دے کر تحقیقات کا ایک متفقہ نظام وضع کرکے تحقیقاتی عمل کا آغاز کردیا جائے تو کشیدگی کا جواز ہی ختم ہوجائے گا اور حکومت کے لیے اپنے منصوبوں کو آگے بڑھانے کی راہ ہموار ہوجائے گی۔ اس بناء پر ضروری ہے کہ کسی لیت و لعل کے بغیر یہ کام کرڈالا جائے۔وزیر اعظم کے انتخاب کے موقع پر پارلیمنٹ میں جو ہنگامہ آرائی دیکھنے میں آئی وہ بلاشبہ نہایت ناخوشگوار صورت حال تھی ۔ آئندہ حکومت و اپوزیشن دونوں کی جانب سے ایوان کا تقدس ملحوظ رکھنے کو یقینی بنایا جانا چاہیے اور مہذب جمہوری ملکوں کی طرح قومی ترقی کی خاطر سنجیدگی اور اخلاص کے ساتھ قابل عمل اور نتیجہ خیز فیصلوں کے ذریعے پارلیمنٹ سے وہ کام لینا چاہیے جس کی خاطر یہ ادارہ بنایا گیا ہے۔عمران خان نے وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد پارلیمنٹ سے اپنے خطاب میں کرپشن کے خاتمے کی خاطر بے لاگ احتساب کے عزم کا اظہار کیا ہے جو یقیناًخیر مقدم کے لائق ہے کیونکہ بااختیار لوگوں کے ہاتھوں قومی وسائل کی بے محابا لوٹ مار ہماری معاشی بدحالی کا سب سے بڑا سبب ہے لیکن احتساب کے اس عمل کو جانبداری اور سیاسی انتقام کے ہر شائبہ سے لازماً پاک ہونا چاہیے اور اس کا دائرہ بلا استثنیٰ تمام ریاستی اداروں کے وابستگان اور تمام شہریوں تک وسیع ہونا چاہیے۔ معیشت کی بحالی کے مختصر اور طویل مدتی اقدامات کے علاوہ بلدیاتی اداروں کو جلد از جلد پوری طرح بااختیار بناکر اور ضروری وسائل فراہم کرکے عوام کے روز مرہ مسائل کے حل کا اہتمام کیا جانا ، قومی ضروریات اور جدید تقاضوں کے مطابق پورے ملک کے لیے یکساں نظام کی تیاری اور نفاذ، پانی کے مسئلے کے حل کے لیے ڈیموں کی تعمیر پر قومی اتفاق رائے وغیرہ ان اہم ترین معاملات میں شامل ہیں جن پر نئی حکومت کو فوری توجہ دینی ہوگی۔

تازہ ترین