• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جمہوری تسلسل کے علمبردار عوام کو دلی مبارک باد، جمہوری تسلسل کے مخالفین کے لئے دعائے ہدایت، 2018ء میں ہم تیسری بار ووٹ کی بنیاد پر آئینی طریقے سے منتخب اقتدار، آنے والی منتخب جمہوری حکومت کو منتقل کرنے میں کامیاب ہوئے’’شکر الحمد للہ‘‘

71ویں یوم آزادی پر صدر مملکت ممنون حسین نے سو فیصد درست کہا ’’ملک کی قسمت کے فیصلے ووٹ سے ہوں گے، الیکشن کمیشن لوگوں کو مطمئن کرے، ادارے مضبوط ہونے چاہئیں۔ آزادی انمول نعمت ہے۔ نئی نسل کو اس کی قدر کرنا ہو گی ان رکاوٹوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے جن کی وجہ سے ملک کو مسائل درپیش رہے۔ عظمت رفتہ کے حصول اور مادر وطن کی ترقی کا خواب اس وقت تک شرمندئہ تعبیر نہیں ہو سکتا جب تک قومی مقاصد کے بارے میں یکسوئی نہ ہو، ملک کی قسمت کے فیصلے ووٹ سے ہوں گے۔ گویا ووٹ ہی ہماری عظمت رفتہ اور سنہرے مستقبل کی ضمانت ہے۔

قیام پاکستان کے فوری بعد وطن عزیز میں آئین اور جمہوریت کے مخالفین نے ملک کے اندر آزادی وطن کی جنگ لڑنے والوں (سیاستدانوں) کو اقتدار سے محروم کر دیا، آزادی کے لئے جانیں، عزتیں اور گھر بار لٹا دینے والوں کے استحقاق کو مخصوص افراد نے اپنے خاندانوں میں تقسیم کر لیا، افراد قومی سرمائے اور اسمگلنگ کے زور پر سرمایہ دار ہو گئے، فوجی آمریتوں نے اپنی انتظامی قوت کے بل بوتے پر عوام کو کسی احتساب سے باز رکھا۔ عوام کا پیمانہ صبرچھلک پڑا تو فوجی آمریت نے عوام اور فوج کے درمیان باقاعدہ اعلان جنگ کر دیا۔ نتیجتاً ملک کا ایک حصہ الگ ہو گیا۔ 1972، ملک میں پہلی بار ایک باقاعدہ منتخب پارلیمانی جمہوری سیاسی نظام حکومت کی داغ بیل ڈالی گئی جس نے ملک کو متفقہ آئین دیا، جس کے بعد کی کہانی پاکستانیوں کے قلب و نظر میں پیوست ہے بہرطور 2008ءمیں پاکستان پیپلز پارٹی کی منتخب حکومت معرض وجود میں آئی ابھی تک یہ سلسلہ آئین کے مطابق رواں دواں ہے۔ حالات حوصلہ افزا اشارہ دیتے اور ملکی حالات پٹڑی پر چڑھتے دکھائی دے رہے ہیں۔

عمران خان کی تیسری منتخب حکومت اسی جمہوری تسلسل کا نتیجہ ہے۔ قومی اسمبلی میں 17؍ اگست 2018ء کو نیا قائد ایوان منتخب ہونے کے بعد عمران نے نئے عہد کی اسمبلی میں روایتی تقریر تو کی مگر اس ’’روایتی تقریر‘‘ میں ’’عمرانیت‘‘ پوری طرح جھلکتی تھی۔

نئے قائد ایوان اور پاکستان کے منتخب وزیراعظم عمران خان نے اس تقریر میں کہا ’’اقتدار کے ذریعے پاکستان کا پیسہ چوری کر کے باہر لے جانے والے ایک ایک آدمی کو کٹہرے میں لائوں گا، ملک کو لوٹنے اور مقروض کرنے والوں کو پائی پائی کا حساب دینا ہو گا، کسی ڈاکو کو این آر او نہیں ملے گا۔ آج تک نہ بلیک میل ہوا نہ کوئی کر سکے گا، اللہ کے سامنے وعدہ کرتا ہوں کہ سب کا کڑا احتساب ہو گا‘‘

عمران خان کے بعد میاں شہباز شریف، شاہ محمود قریشی اور دیگر رہنمائوں نے بھی اسمبلی میں خطاب کیا، سب نے اپنے اپنے حوالے سے اپنے جذبات کھل کر بیان کئے جیسا کہ شہباز شریف صاحب کے نزدیک ’’یہ انتخابات Validنہیں تھے‘‘۔

17؍ اگست بروز جمعہ خان صاحب کے قائد ایوان منتخب کئے جانے کے بعد ان تقاریر میں البتہ چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کا خطاب Out Standingرہا نہ صرف پُر اعتماد لب و لہجے نے پوری اسمبلی کو مبہوت کئے رکھا بلکہ اسلوب خطاب کا تاثر بھی ’’لیڈر شپ‘‘ کے ’’جینز‘‘ کا منہ بولتا ثبوت بن کر سامنے آیا۔ چیئرمین بلاول کا کہنا تھا۔

’’ہم دیکھ رہے ہیں کہ نو منتخب وزیراعظم اپنے 100دن کے پروگرام پر کیسے عمل کریں گے۔ ہم قرضوں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ ہماری معیشت صرف چند کے لئے بہتر اور باقیوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچاتی۔ امید کرتے ہیں کہ خان صاحب ماضی کی نفرت انگیز اور انتہاء پسند سیاست سے گریز کریں گے اور اس سیاست کو دفن کر کے آگے بڑھیں گے۔ الیکشن میں دھاندلی کی تحقیقات کے لئے پارلیمانی کمیشن کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا، ووٹ کی چوری کا حساب لیں گے۔ (شہباز شریف صاحب نے بھی کمیشن ہی کی تجویز دی) چیئرمین نے کہا، عمران خان نے کہا تھا کہ وہ آئی ایم ایف نہیں جائیں گے، ہم دیکھنا چاہیں گے وہ اس کا کیا متبادل فراہم کرتے ہیں۔ ہم یقین رکھتے ہیں کہ حکومت نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کروائے گی، میں نو منتخب وزیراعظم کو یاد دلانا چاہوں گا کہ وہ کسی مخصوص جماعت کے نہیں پورے پاکستان کے وزیراعظم ہیں۔ وہ ان کے وزیراعظم بھی ہیں جن کو انہوں نے زندہ لاشیں، گدھے اور بھیڑ بکریاں کہا۔ اگر نو منتخب وزیراعظم نے عدم برداشت کو فروغ دیا تو ہم انہیں ایسا نہیں کرنے دیں گے، اس کی مخالفت کریں گے لیکن اگر نو منتخب وزیراعظم نے عوامی مفادات کو اپنا مقصد بنایا تو ہم ان کا ساتھ دیں گے۔

چیئرمین بلاول کے منطقی اور قومی ادراک سے بھرپور خیالات سن کر عمران خان نے بھی بے ساختہ ڈیسک بجایا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے، آصف علی زرداری اور بی بی شہید کے فرزند بلاول بھٹو زرداری کا وجود قومی پارلیمنٹ میں بھٹوز کی عظیم سیاسی وراثت کا پیغام ہے۔ ابھی یہ قوم ان کی غیر معمولی قائدانہ صلاحیتوں کے حوالےسے خود کو مزید ششدر و حیران کرنے کے لئے تیار رہے۔

بطور وزیراعظم پاکستان عمران خان کا قوم سے پہلا خطاب یقیناً روٹین کی باتوں سے ہٹا ہوا تھا۔ پاکستان کی معیشت کے حوالے سے انہوں نے جن اقدامات کا اعلان کیا اور صوبہ جنوبی پنجاب اور فاٹا کے حوالے سے جو کچھ کہا کوئی ذی ہوش ان کی افادیت کا منکر نہیں ہو سکتا، نہ ہی ان اقدامات کے سلسلے میں جو کر سکتا ہو اس کے کرنے میں کسی تعاون سے انکار کر سکتا ہے۔ عمران خان کی ان پالیسیوں میں کامیابی پاکستان کی معیشت اور بقاء کو مستقل بنیادوں پر بحال کر سکتی ہے۔

بہرحال ایک ہماری حسرت ہی رہی، اس حسرت کو قریب قریب 60برس سے تو اوپر ہو چکے، یہ کہ پاکستان کا کوئی منتخب یا غیر منتخب حکمران قوم سے اپنے پہلے باضابطہ خطاب میں یہ جملہ کہے ’’میں پاکستان میں پولیس اور اس قسم کے دیگر ادارے ظلم وبربریت طفیانی ہے کا جو طوفان برپا رکھتے ہیں، کسی سے اس معاملے میں خوف نہیں کھاتے، لوگوں پر بے پناہ جسمانی تشدد کرتے ہیں اس بہمیت سے پاکستانیوں کو محفوظ کر دوں گا۔‘‘ عمران کی تقریر میں سب کچھ تھا سوائے اس کے کہ پولیس، ایف آئی اے کے بے شمار مظالم اور خونیں روّیے کے بارے میں ایک لفظ بھی انہوں نے نہیں کہا۔

تازہ ترین