• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سوشل میڈیاسیاست کاایک لازمی جُزواورحقائق یاغلط معلومات پھیلانےکاذریعہ بن چکاہے۔ یہ آلہ کئی طرح سےبعض اوقات غلط استعمال کیاجاتاہےجیساکہ کسی شئےکوضرورت سے زیادہ بڑھا چڑھاکرپیش کرنااورپروپیگنڈاوغیرہ کیلئے۔ تبدیلی بھی میڈیامیں بڑھاچڑھاکرپیش کی جانےوالی چیزوں میں سےایک ہےاورلوگوں نےاس سےبہت زیادہ امیدیں لگارکھیں ہیں۔ تبدیلی کوجس طرح سےپیش کیاگیاہےوہ ہماری زورمرہ کی معاشرتی زندگی کےبارےمیں ہے۔ تبدیلی کےبارے میں بنائےگئےلطائف قابلِ تعریف نہیں ہیں۔ پاکستان کےلوگوں کیلئےتبدیلی کوئی نئی چیزنہیں ہے کیونکہ حکومتیں اس لفظ کوکئی طرح سےاستعمال کرتی رہی ہیں۔ پہلی بار یہ لفظ’تبدیلی‘ میں نےتھائی لینڈمیں سنا تھا،جب میں جلاوطنی کےدوران اس وقت کےتھائی وزیراعظم کےپاس بطورمہمان تھا۔ درحقیقت تھائی لینڈکےپریشرگروپس یامظاہرین کی جانب سےتھائی وزیراعظم تھاکسن شیناوتراکےخلاف پیلی قمیض تحریک کاآغازتھا جس کےنتیجےمیں ستمبر2006میں فوجی بغاوت ہوگئی تھی۔ درحقیقت ییلوشرٹ تحریک تبدیلی کی علامت تھی۔ 90کی دہائی کےوسط میں ’’تبدیلی‘‘ کانظریہ تحریکی پروگرامزاورمعاشرتی اورسیاسی تبدیلی کامخصوص منظم تحاریک کےذریعےتجزیہ کرنے کے ذریعےکیلئےتخلیق ہواتھا۔ 1990میں ایسپن انسٹیٹیوٹ رائونڈ ٹیبل آن کمیونٹی چینج میں کمیونٹی انیشی ایٹو کےطورپرسامنےآیا۔ ہیےچن، پیٹرروزی، مائیکل کوئین پیٹن اور کیرل ویئس مرکزی نظریہ ساز اور پریکٹیشنرز تھےجنھوں نے اس پر کام کیااور اسے آگے بڑھایا۔ تبدیلی کاخیال موجود تھا لیکن قانونی اور بناوٹی اصلاحات کے ذریعےتبدیلی کو مناسب راستہ درکار تھا۔ پاکستان میں تبدیلی کانعرہ نیا نہیں ہے لیکن ماضی میں بھی اس نعرے کی حمایت کی گئی ہے۔ تھائی لینڈ سے تبدیلی کےنظریہ سے متاثرہوکراسے سیاسی جماعتوں نےسوشل اور الیکٹرونک میڈیاکےذریعےانتخابات میں اپنے نعرے کےطورپر پیش کیا۔ اب سیاسی جماعتوں کےکچھ پرانے نعرے دیکھتےہیں جہاں گزشتہ انتخابات میں استعمال ہوئے لیکن کوئی قابلِ غورتبدیلی نہ آئی اور یہ صرف نعرے ہی رہ گئے۔ 1- تعلیمی نظام کو تبدیل کرنےکانعرہ لیکن کوئی تبدیلی نہ آئی۔ 2-احتساب یا کرپشن ختم کرنےکانعرہ لیکن کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ہم نے صدارتی نظام سے پارلیمانی نظام تبدیل کیا لیکن کوئی تبدیلی نہ آئی۔ 4- ہم نے 18ویں ترمیم کی لیکن کوئی تبدیلی نہیں آئی۔5-ہم گاڑیوں سے سائیکلوں پرآگئے لیکن تبدیلی نہ آئی۔ 6-ہم نے1600سی سی سےسوزکی 800سی سی کی گاڑیاں تبدیل کیں لیکن تبدیلی نہ آئی۔ 7-ہم نےتمام سرکاری گاڑیاں بیچ دیں لیکن بتدیلی نہ آئی۔ 8-ہم نےآزادی اظہارِرائےکیلئےبہت سارےٹی وی چینل شروع کردیے لیکن تبدیلی نہ آئی۔ ماضی میں سیاسی جماعتیں گیلری پرچلی گئیں اوربدقسمتی سےنظام اوراداروں کوفروغ دینےکی بجائےہم انفرادیت میں چلے گئے اور اداروں کو نظراندازکردیابلکہ انھیں اقتدار سےچمٹےرہنےکیلئےاستعمال کیا۔ میں نےبہت سی حکومتوں کوبدلتے ہوئے قریب سے دیکھا ہےاور مجھے پتہ لگا کہ وہ سب بیوروکریسی کےہاتھوں مفلوج ہوئیں۔ ہم سب اقتدارکیلئےمتحد ہوئےتاکہ اپنے سیاسی مخالفین کونقصان پہنچایاجائےلیکن ہم کبھی بھی اجتماعی ردعمل دینےکیلئے متحدنہیں ہوئےجو قومی مفاد اور اتحاد کیلئے ضروری ہے۔ ملک میں حقیقی تبدیلی کیلئے ہمیں قوانین اور پالیسیاں تبدیل کرنی چاہیئے۔ میں ذاتی طورپرعمران خان کوایک پڑھےلکھےانسان کے طور پر جانتاہوں اور امید ہے کہ وہ عوام کی امیدوں پر پورا اتریں گے۔ میں دعا اور امید کرتاہوں کہ عام آدمی کی امیدوں کے مطابق اچھی کارکردگی دکھائیں گے۔ اگرلازمی اصلاحات نہ لائی گئیں توعوام کی بڑی امیدوں کاکانتیجہ ماضی کی طرح ہی ہوسکتا ہے لہذا انھیں اچھے مشیروں اور اجتماعی کاوشوں کےساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ حکومت کوبامعنی تبدیلی لانےکیلئےایک ایسا پروگرام لانے کی ضرورت ہےجس سے عام آدمی کی زندگی بہترہوسکے۔ انھیں قانون کی حکمرانی کےذریعےگورننس بہترکرنے کی ضرورت ہے۔ انھیں موثرگورننس کیلئےاحتساب کی کسوٹی استعمال کرنی چاہیئے جس طرح ابن خلدون نے موثرگورننس کیلئےاصول بتائےہیں۔ مجھےابراہم لنکن کے الفاظ یاد ہیں جس نے تبدیلی پرکہاتھا:’’مستقبل کےبارے میں پیش گوئی کرنے کابہترین طریقہ یہ ہے کہ اسے تخلیق کردیا جائے۔‘‘ ہمارے مذہب نے بھی ’’تبدیلی‘‘ کےبارے میں تعلیمات فراہم کی ہیں اور اسلام کے مطابق؛ یہ تین سطح پر لائی جاسکتی ہے: انفرادی، معاشرتی اور سیاسی۔ اسلام کے مطابق تبدیلی کانظریہ یہ ہے کہ باہر سےسجاوٹی چیزیں لگا کرتبدیلی لانےکی بجائے تبدیلی اندرسےآتی ہے۔ قرآن پاک میں اللہ نےفرمایاہے: بےشک اللہ ان لوگوں کی حالت نہیں بدلتا جواپنی حالت خود نہیں بدلتے۔‘‘ لہذا جب تک ہم اپنے اندرتبدیلی نہیں لاتے اس وقت تک تبدیلی نہیں آسکتی کیونکہ وہاں تبدیلی ہمیشہ کیلئے آتی ہے۔ مثال کےطورپر کاسمیٹک تبدیلی ہمیشہ عارضی ہوتی ہے کیونکہ کاسمیٹک سرجری سےچہرے پرمستقل تبدیلی نہیں آتی۔ ریاست کو مسلسل اصلاحات اورنظام میں ایڈہاک تبدیلیوں سے بچنے کی ضرورت ہے۔ اب ہم کاسمیٹک تبدیلیوں کی بجائےحقیقی تبدیلیاں دیکھتے ہیں۔ پاکستان میں مندرجہ ذیل شعبوں میں تبدیلی کی فوری ضرورت ہے۔ معاشیات، خارجہ تعلقات، نیشنل سیکیورٹی، تعلیم، انتخابی نظام، سیاسی نطام، روپے کی گرتی ہوئی قدر۔ وزیراعظم صاحب اگرآپ مذکورہ بالا شعبوں میں بہتراصلاحات لےآتےہیں تولوگ تبدیلی کومحسوس کرناشروع کردیں گے۔ میں مندرجہ ذیل کام تجویز کرتاہوں۔ معاشی اصلاحات: معاشی اصلاحات اورقرضہ کم کرنےکےپروگرام کیلئےترکش معاشی ماڈل کواستعمال کریں کیونکہ ترکش معیشت کوآئی ایم ایف نے ابھرتی ہوئی مارکیٹ اکانومی قراردیاہے اس کے ساتھ ساتھ دنیا کےنئےصنعتی ممالک میں سے ایک قراردیا۔ معیشت کوفروغ دینےکیلئےطیب اردگان کی جانب سے استعمال کیاگیا ماڈل اس طرح استعمال ہوناچاہیے، حکومت میں ان کاپہلے سال میں انھوں نے 2001میں مشرقی ترکی میں ایمرجنسی ختم کردی۔ اس سے مشرقی علاقے میں سرمایہ کاری بڑھی، افراطِ زر7سے10فیصد کم ہوگیا اس سے انٹرسٹ ریٹ کم ہوا اور کھپت بڑھ گئی عوام کیلئےکریڈٹ کارڈز اور قرضوں کی دستیابی ہونےلگی۔ 2005سے2006تک طویل مدتی کریڈٹس یعنی گروی اور گروی کانظام عام ہوگیااوراس سےلوگوں کوبہترگھربنانےمیں مددملی، خزانے میں 4گنااضافہ ہوگیا۔ طویل المدتی بین الااقوامی قرضےبھی مل گئےکیونکہ اردگان سےپہلےترقی آئی ایم ایف سے1یا2ارب ڈالربہت زیادہ سودپرلینےکاخوہش مندتھا۔ آج ترکی 30سال کیلئےقرض لےسکتاہے۔ آئی ایم ایف نے2011میں 40ارب ڈالرقرضےکی پیشکش کی لیکن ترکی نےمستردکردیا۔ موثرگورننس اورپولیس کانظام: موثرگورننس اورمناسب پولیس اصلاحات کیلئےہماری حکومت کوسنگاپور کےگورننس اور پولیس کےماڈل کی پیروی کرنی چاہیئے۔ سنگاپورکاگورننس اور پولیسنگ کا نظام سب سے زیادہ موثرہے۔ جہاں کرائم ریٹ تقریباًصفرہے۔ ہم اس کابہترین حصہ لے سکتے ہیں۔ ہمیں قانون کی بہترحکمرانی کیلئےپولیس کی غیرمعمولی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ہیلتھ کیئر: ہیلتھ اینڈکئیرمیں بہتری کیلئےحکومت کوبرطانیہ کانیشنل ہیلتھ سروسزکاماڈل اپناناچاہیئے۔ اس نظام میں سرکاری طورپرفنڈنگ کی جاتی ہے اور اسے نیشنل ہیلتھ سروسز یا این ایچ ایس کہاجاتاہےجو امیروغریب تمام مریضوں کیلئےعلاج معالجے کی سہولیات کی گارنٹی دیتاہے۔ اس کامطلب ہےکہ ایمبولنس سے ایمرجنسی رومز، پیچیدہ سرجری، ریڈی ایشن اور کیموتھراپی تک سب کچھ مفت ہے۔ مزیدبرآں ہسپتال میں قیام کےدوران جو بھی علاج آپ کرواتیں ہیں وہ بھی فری ہے اور فارمیسی سے لی گئی ادویات بھی بہت سستی ہیں۔ زرعی اور فارمنگ:پاکستان کو سرسبز بنانے کیلئے ہماری حکومت کو فلپائن کازرعی ماڈل اپناناچاہیے۔ زراعت اور فارمنگ میں خواتین کی شرکت جیسا کہ فلپائن میں ہوتاہے، اس سے زراعت میں خواتین کاکردار بڑھے گا۔ ہم ان کے نہری آبپاشی کے نظام کی نقل کرسکتے ہیں۔ تعلیم: بہتر تعلیم اورتمام صوبوں میں بڑھتی ہوئی شرحِ خواندگی کیلئےآسٹریلیاکاماڈل اپنایاجاسکتاہے کیونکہ اسے دنیامیں بہترین ماڈل سمجھاجاتاہے۔ آسٹریلیاں میں امریکااور برطانیہ کی نسبت ٹرانسپورٹ، رہائش اور ٹیوشن کے اخراجات بہت کم ہیں، جس سے طالبِ علموں کیلئے اعلیٰ تعلیم کاحصول قدرے آسان ہے۔ توانائی کی پیداوار: ہمارے پاس پانی کے وسیع ذخائر موجود ہیں اور ہم ہائیڈروپاوراینڈ پرودکشن کیلئے تاجکستان کاماڈل لےسکتے ہیں۔ تاجکستان ایک دریاپربہت سے ہائیڈروپاوراسٹیشن تعمیر کرکےکافی زیادہ بجلی پیدا کررہاہے۔ یہ پیداکرنا سستابھی ہوگا۔ چھوٹے ہائیڈروپلانٹس کےساتھ چھوٹے ڈیم دوسرا آپشن ہیں۔ حکومت کو صوبائی حکومتوں اور پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی مدد سےبہتر خارجہ پالیسی اور نیشنل سیکیورٹی پلان کی بھی ضرورت ہے۔ انڈسٹریلائزیشن: حکومت کو چین کا انڈسٹریلائزیشن کاماڈل اپناناچاہیئے۔ چین نےصنعتی شعبے میں بہت زیادہ سرکاری سرمایہ کاری سےحیران کن معاشی تر قی کی ہے۔ چین کی صنعتی ترقی میں دوسرا بڑا پہلو دی پیپلز بینک آف چائناہے، جو یوان کو ڈالر کی قدر کےمقابلے میں سختی سے کنٹرول کرتاہے۔ یہ امریکا کو برآمدات کی قیمتوں کوقابوکرکےکیاجاتاہے۔ یہ امریکا میں پیدا کی گئی چیزوں کے مقابلے میں چینی پیداوار کوسستاکرناچاہتاہے۔ حکومت مزید آسان اور قابل عمل ٹیکس اصلاحات کےذریعے ٹیکس بیس کوبھی بڑھاناچاہیے جوحقیقت پسندی پرمبنی ہو۔ تمام وزراء اعلیٰ پر مبنی ایک ٹاسک فورس ہونی چاہیے جس کی قیادت وزیراعلیٰ کریں تاکہ مذکورہ بالااصلاحات تیارکی جاسکیں کیونکہ اہم قانونی اور ترقیاتی کاموں کانفاذ صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ میرا آخری مشورہ یہ ہے کہ عام آدمی کیلئےمطلوبہ قومی اصلاحات متعارف کرائی جائیں اور عوام میں تبدیلی خودبخود آجائے گی۔

تازہ ترین