• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ماریہ میری آنکھوں میںبسا اک خواب جس سے مجھے بہت پیار ہے۔ماریہ کو پانے کی جستجو میں کئی سالوں سے کررہا ہوں۔ اسے دیکھا نہیںمگر محسوس کیا ہے۔ وہ اس دیس کی رہنے والی ہے جہاں امن ہے، سکون ہے، زندگی ہے۔ اس کا دیس خوشیوں سے بھرا ایک شہر ہے اور اس شہر کو گلستان بنانے میں ایک صدی کا طویل سفر ہے جس میں دکھ ہے، تکلیفیں ہیں، خون کا دریا بہتا ہے۔ ماریہ کا دیس ماریہ کے حسن کی طرح حسین ہے۔ اس کے ہر طرف ہریالی ہے، خوشیاں ہیں، پرندے چہچہاتے ہیں، رقص کرتے لوگ ہیں۔ ماریہ تم کیا ہو شاید تمہیں خود بھی پتہ نہیں، میں تمہارے حسن کا، تمہاری ذہانت کا دلدادہ ہوں۔ تم نے جس خوبصورت انداز میں زندگی کی تکلیفوں سے گزر کر اپنے دیس کوحسین بنایا ہے یہ ہمت والوں کا کام ہے۔ ماریہ کی جھیل جیسی آنکھیں، چھریرا بدن، ہونٹوں پر مسکراہٹ، آنکھوں میں بسے خواب اور اس میں تیرتے موتیوں جیسے آنسو میرے دل میں بسے ہیں۔ ماریہ تجھے پانے کی جستجو آج مجھے اپنے دیس سے ہزاروں میل دور یورپ کے خوبصورت شہر کراکو لے آئی ہے۔ یہ کراکو پولینڈ کی تاریخی نمک کی کان (wieliczka salt mine)کا انٹری گیٹ ہے اورماریہ میری آنکھوں کے سامنے کھڑی مسکرا رہی ہے۔ میرے خواب پورے ہونے کے قریب ہیں۔ ماریہ بڑے کھلے دل سے شکوہ کر رہی ہے کہ کہاںتھے اتنے برسوں، کیوں نہیں آئے اس سے پہلے مجھے ملنے، کیوں اتنا انتظار کرایا، کیوں اتنا تڑپایا، میں کب سے تمہاری منتظر تھی۔ تم پہلے آجاتے تو زندگی اور خوبصورت ہو جاتی۔ تمہیں میں اپنے سپنوں کے شہر کی سیر کراتی، دریا کنارے تم سے باتیں کرتی، تمہیں ہر اس مقام پر لے جاتی جہاں کوئی اور نہ ہو صرف سکون ہو، خوشیاں ہوں، چاہت ہو اور تم اور میں ہوں، دنیا کا کوئی غم نہ ہو۔ ہم مستقبل کی باتیں کرتے ، نئے نئے خوابوں کو حقیقت کا روپ دیتے،اس کی آنکھوں میں ایک تجسس تھا مجھے پانے کا۔ میرے دل میں تمنا تھی اسے حاصل کرنے کی۔ میں اس کا یہ حسین شہر اس کا ہاتھ پکڑ کر دیکھنا چاہتا تھا۔ میرے دل میں بھی وہی خواب تھے جو ماریہ مجھے حقیقت میں دکھانا چاہتی تھی۔ میری زندگی میں رہنمائی کرنا چاہتی تھی۔ وہ بڑی جلدی میں تھی کہ آئو میں اپنے ملک پولینڈ کی تاریخ سے تمہیں روشناس کرائوں۔ میں تمہیں وہ دنیا دکھائوں جو خوابوں اور امنگوں سے بھری ہے۔ ماریہ برٹش لہجے میں انگلش بولتی ہے۔ اس کی گہری نیلگوں آنکھیں ، گلاب کی پنکھڑیوں جیسے ہونٹ، بیک وقت جنبش کررہے ہیں اور خوبصورت صراحی جیسی انگلیاں اشارے کررہی ہیں کہ یہ میرے دیس کا صدیوں پرانا تاریخی ورثہ (wieliczka salt mine) ہے تم اسے صرف نمک کی کان مت سمجھو۔ اس ورثے سے پولینڈ کی تاریخ جڑی ہے۔

ماریہ اب میرے پہلو میں قدم سے قدم ملا کر چل رہی ہے۔ بڑی ادائیں ہیں اس کی، بڑی تیزی سے اپنی نگاہیں گھماتی ہے اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتی ہے دیکھو میرے ملک نے کیسے ترقی کی، کیسے ہم نے تیرہویں صدی میں کان کنی کا آغاز کیا اور 2007 ء تک ہم نے اس کان کا نمک بیچ کر خوب پیسہ کمایا لیکن جب ہم نے دیکھا کہ عالمی مارکیٹ میں نمک بہت سستا ہوگیا ہے اوراب اسے نکالنے میں اخراجات زیادہ اور آمدن کم ہوگئی ہے اور کان میں پانی بھی بھرنے لگا ہے تو ہم نے نمک کی فروخت بند کردی وہ کہنے لگی اس سے قبل 1974 ء میں یونیسکو نے اس کان کو عالمی ورثہ قرار دے دیا تو ہماری حکومت نے فیصلہ کیا اسے سیاحوں کے لئے کھول دیا جائے آج اس نمک کی کان کو دیکھنے کے لئے پوری دنیا سے سالانہ تقریباً 1.2 ملین افرادآتے ہیں اور اس کی ایک ٹکٹ ایک سو لوٹی(پولینڈ کرنسی) تقریباً 35 سو روپے پاکستانی ہے اور ہم اس سے سالانہ اربوں روپے کما رہے ہیں۔ ماریہ نے ایک بار پھر میری طرف پیار بھرے انداز میں دیکھا اور کہنے لگی تم میری زندگی میں پہلی بار آئے ہو ، مجھے خوشی ہے تم پاکستانی ہو، مجھے تم سے مل کر بہت خوشی ہوئی کم از کم تم نے مجھے ملنے کی ہمت تو کی ورنہ تمہارے دیس کے لوگ انتظار کرتے کرتے دنیا سے گزرجاتے ہیں مگر ان کے خواب پورے نہیں ہوتے۔ ماریہ کہنے لگی مجھے تم سے اور تمہارے دیس سے بہت پیار ہے، تم بائی نیچر بہت اچھے ہو مگر تمہاری ایک کمزوری بھی ہے کہ تم باتیں بہت بناتے ہو، خوبصورت خواب دیکھتے اور دکھاتے ہو مگر کرتے کچھ نہیں۔ ماریہ کہتی ہے میں تمہارے ساتھ پاکستان جانے کو تیار ہوں، تمہارے ساتھ زندگی گزارنا مجھے اچھا لگے گا۔ میں پاکستان میں رہنا چاہتی ہوں، مجھے پاکستان کا موسم ، خوبصورت مناظر، تمہارا خاندان، تمہارے رشتے دار، مل جل کررہنا، ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونا مجھے بہت پسند ہے مگر کیا کروں تمہارے پاکستان کے لوگوں سے ڈرلگتا ہے جو کسی کی خوشی سے خوش نہیں ہوتے، حسد کرتے ہیں ایک دوسرے کی زندگی میں دخل دیتے ہیں، اپنی زندگی بھی برباد کرتے ہیںاور دوسروں کی بھی۔ تم یہاں میری آنکھوں سے دیکھو، کوئی کسی کو بُری نظر سے دیکھتا ہے جس کا جو دل چاہتا ہے اپنے انداز میں زندگی گزار رہا ہے۔ ہر مرد ، عورت، بوڑھا ، جوان قدرت کے حسین نظاروں کو اپنی نظر سے دیکھنا چاہتا ہے۔ یہاں تمہیں کوئی سڑک پر تھوکتا نظر آتا ہے ، کوئی ٹریفک سگنل کی خلاف ورزی کررہا ہے، کوئی پیدل چلنے والا اشارہ توڑ کر سڑک کراس کرنے کا تصور کرسکتا ہے۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ لوگ بڑی بڑی گاڑیوں پر سفر کرنے کے بجائے لوکل ٹرانسپورٹ، ٹرین، بس، میٹرو کا استعمال کرتے ہیں، زیادہ تر لوگوں کی ترجیح پیدل چلنا ہے۔ کیا تم نہیں دیکھ رہے کہ شام کے نظاروں میں بیشتر نوجوان، بوڑھے سائیکلوں پر فٹ پاتھوں پر اٹھکیلیاں کرتے نظر آرہے ہیں اور خوش ہیں اور تمہارے لوگوں اور حکومت کا حال یہ ہے کہ اپنی حیثیت سے بڑھ کرپانے کی تمنا رکھتے ہیں۔ سائیکل تمہارے معاشرے سے ختم ہوچکی، نئی نئی بیماریاں تمہیں کھا رہی ہیں، بڑی بڑی گاڑیاں اور آسائشیں تمہاری جڑیں کھوکھلی کررہی ہیں، تم اپنے وسائل کو بُری طرح ضائع کررہے ہو۔ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ کھیوڑہ نمک کی کان دنیا کی خوبصورت ترین کانوں میں شمار ہوتی ہے جس کے نمک میں ایک رنگینی ہے ، ایک رومانس ہے مگر تم اس ورثے کو کس طرح ضائع کررہے ہو، ایک خوف زدہ اور عدم تحفظ کا شکار معاشرہ کیسے تصور کرسکتا ہے کہ وہاں خوش حالی آئے اور میں تمہارے ساتھ زندگی گزار سکوں پہلے اپنے گھر کو سنوارو۔وہ بولے چلی جارہی تھی۔ اس کے پاس ہر بات کا جواب اور دلیل تھی۔ میں ماریہ کو سمجھانے کی کوشش کررہا ہوں ’’نی پاگلے تینوں کی پتہ اُچیاں شاناں شہر لہور دیاں‘‘ میں اسے کہہ رہا تھا تم میرے ساتھ چلو میں تمہیں اپنی آنکھوں سے اپنا پیارا پاکستان دکھاتا ہوں جہاں شہر میں کہیں بھی پان کی پیک تھوکنے کی آزادی ہے، لوگ جلتا سگریٹ سڑک پر پھینک کر خوش ہوتے ہیں، گاڑی کا ہارن نہ بجائیں تو انہیں سکون نہیں ملتا، اتنی آزادی ہے کہ کوئی راستہ نہ دے تو لڑنے مرنے کو تیار ہو جاتے ہیں، ماریہ بولی کہ چلو کہیں سکون سے بیٹھ کر کولڈڈرنک پئیں پھر بات کرتے ہیں۔ (جاری ہے)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین