• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پروٹوکول، افسران سے بدتمیزی نئے پاکستان والی باتیں نہیں، تجزیہ کار

کراچی(جنگ نیوز)جیو کے پروگرام ’’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ ‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئےسینئر تجزیہ کار ارشاد بھٹی نے کہا کہ نئے پاکستان میں دو تین چیزیں ایسی ہوئیں جس کی توقع نہیں تھی، وزیراعلیٰ پنجاب کا پروٹوکول، شیخ رشید کا موٹر سائیکل سواروں کو وارننگ دینا اور خواجہ سعد رفیق کی تعریف کرنے پر افسروں سے بدتمیزی کرنا نئے پاکستان میں نہیں ہونا تھا، عمران خان سیکیورٹی خطرات کی وجہ سے ہیلی کاپٹر پر بنی گالہ جاتے ہیں، اگر انہیں بنی گالہ میں سیکیورٹی خطرات ہیں تو وہاں جاتے ہی کیوں ہیں، عمران خان وزیراعظم ہاؤس میں مطمئن نہیں تو وہاں منتقل ہی کیوں ہوئے تھے، عمران خان کے دعوے ، وعدے اور قوم کی ان سے توقعات کی وجہ سے ایسی باتیں اجاگر ہورہی ہیں ہم خوش تھے کہ چند شاہی خاندانوں سے ہماری جان چھوٹ گئی لیکن مانیکا شاہی بھی ہمارے سر پر مسلط ہوگئی، اگر عمران خان کو سیکیورٹی خطرات ہیں تو ایک عام شہری کو بھی ہیں، اگر وہ ملک کو محفوظ نہیں بناسکتے تو عام شہری کو بھی اپنی جیسی سہولتیں دیں، اگر سہولتیں نہیں دے سکتے تو عوام جیسے حالات میں رہیں، ملک کا حال تب ہی بہتر ہوگا جب حکمرانوں کا علاج عام شہری کے اسپتالوں میں اورا ن کے بچے عام سرکاری اسکولوں میں پڑھیں، عمران خان نے مرکز اور پنجاب میں جو ٹیم بنائی ہے وہ ان کے وعدوں کے مطابق ڈیلیوری نہیں دے سکتی ہے۔صدرنیشنل پارٹی میر حاصل بزنجو نے کہا کہ اپوزیشن اتحاد کو برقرار رکھنے کی کوشش کررہا ہوں مگر کامیابی نظر نہیں آرہی ہے، شہباز شریف سے اعتزاز احسن کو قبول کرنے کی درخواست کی تو ان کا کہنا تھا کہ ہم انہیں قبول کرلیں تب بھی ہمارے ارکان انہیں ووٹ نہیں دیں گے، پیپلز پارٹی کے پاس صدارتی امیدوار کیلئے اعتزاز احسن کے علاوہ رضا ربانی، یوسف رضا گیلانی، خورشید شاہ سمیت اچھے نام موجود تھے، عوام میں تاثر ہے کہ پیپلزپارٹی نے تنازع کھڑا کرنے کیلئے اعتزاز احسن کو امیدوار بنایا ہے، نواز شریف کیخلاف بیانات سے اعتزاز احسن کے امیج پر اثر پڑا تھا، ایک سال پہلے رضا ربانی اور خورشید شاہ سے اعتزاز کو ایسے بیانات دینے سے روکنے کیلئے کہا تھا، خواہش تھی کہ ایوان کے اندر اور باہر اپوزیشن متحد ہو۔پیپلز پارٹی کے رہنما چوہدری منظور کی گفتگو پیپلز پارٹی کے رہنما چوہدری منظور نے کہا کہ ن لیگ اور پی ٹی آئی کی پوزیشن تبدیل ہوئی لیکن پیپلز پارٹی ابھی بھی اپوزیشن میں بیٹھی ہے، ن لیگ اپوزیشن کی بڑی پارٹی ہے اسے بڑا دل کرنا چاہئے، اپوزیشن جماعتوں کے درمیان فی الحال کوئی باقاعدہ اتحاد نہیں ہے، اپوزیشن کے پاس کسی ایک نام پرمتفق ہونے کیلئے تیس اگست تک کا وقت موجود ہے، اعتزاز احسن کے صدر ہونے سے دنیا میں پاکستان کا امیج بہتر ہوگا۔ واشنگٹن ڈی سی سے سینئر صحافی انور اقبال نے گفتگو کرتے ہوئےکہا کہ امریکیوں کا پاکستان سے گفتگو میں اہم ترین موضوع ہمیشہ دہشتگردی رہاہے، یہ مشکل نظر آتا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ پاکستانی وزیراعظم کو فون کرے اور اس میں دہشتگردی کا ذکر نہ کرے، امریکا میں عام تاثر ہے کہ وزیرخارجہ نے پاکستانی وزیراعظم سے دہشتگردی پر ضرو ربا ت کی ہوگی، پاکستان نے اس موضوع کو سنا ہوگا لیکن تبصرہ نہیں کیا ہوگا اس لئے کہا جارہا ہے کہ دہشتگردی پر بات چیت نہیں ہوئی، اس معاملہ پر تنازع بڑھا تو امریکا گفتگو کی ریکارڈنگ بھی جاری کرسکتا ہے، امریکا اور پاکستان دونوں ہی معاملہ بگاڑنے کے بجائے درمیانی راستہ نکالنے کی کوشش کریں گے، امریکا میں پاکستانی سفیر علی جہانگیر صدیقی بھی اس معاملہ پر اپنی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں، اس ایشو کو ڈی فیوز کرنے کیلئے انہوں نے آج اور کل میٹنگز بھی کی ہیں۔ میزبان شاہزیب خانزادہ نے پروگرام میں تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ نئی حکومت آئی تو نئی توقعات کا اظہار کیا گیا، توقع ظاہر کی گئی کہ پاکستان کے چیلنجز بڑے ہیں اس لئے نئی حکومت کا فوکس یہی چیلنجز ہوں گے، خارجہ پالیسی بڑا چیلنج ہے، پاکستان کی معیشت بحران میں ہے بہت بڑا چیلنج ہے، انتخابی مہم کے دوران دہشتگردی کے واقعات پیش آئے اس لئے سیکیورٹی صور تحا ل پر بات ہوگی کیونکہ یہ بہت بڑا چیلنج ہے مگر ایسا کچھ نہیں ہوا، تحریک انصاف کا الیکشن سے پہلے اور حکومت بنانے کے بعد بھی زیادہ دھیان Optics پر نظر آیا، اس لئے اب میڈیا پر موضوع بحث بھی وہی دعوے ہیں جو عمران خان کی الیکشن مہم سے پہلے اور الیکشن جیتنے کے بعد ہوتے رہے، سادگی کے دعوے کیے گئے، زیادہ توجہ optics اور دکھاووں پر رہی، اس لئے اب زیادہ باتیں یہی ہورہی ہیں کہ وزیراعظم ہیلی کاپٹر استعمال کررہے ہیں یا نہیں، وزیراعظم ہاؤس میں رہ رہے ہیں یا نہیں، وزیر اعلیٰ پنجاب نے سرکاری طیارے کوا پنے ذاتی کام کیلئے استعمال کیوں کیا، یہ سوالات موضوع بحث بنے ہوئے ہیں اور اہم ملکی مسائل اس بحث میں دبے ہوئے ہیں، اس کی ذمہ دار اپوزیشن یا میڈیا نہیں بلکہ خود تحریک انصاف کی حکومت ہے، تحریک انصاف نے اقتدار سنبھالنے سے پہلے اور بعد میں بھی سادگی کی بات کی۔ شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ آج نئی کابینہ کے تیسرے اجلاس کے بعد حکومت کی طرف سے اہم اعلانات سامنے آئے، فواد چوہدری پریس کانفرنس میں نے فاٹا کے انضمام، جنوبی پنجاب صوبے ، قانون سازی ، ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس گھروں سے متعلق بات کی مگر آج بھی وزیراطلاعات سے وزیراعظم کی طرف سے ہیلی کاپٹر کے استعمال سے متعلق سوالات پوچھے گئے، شا ہز یب خانزادہ نے کہا کہ عمران خان کے قیام کی وجہ سے وزیراعظم ہاؤس کے ساتھ بنی گالہ پر بھی خصوصی سیکیورٹی تعینات کی جاتی ہے یوں ان کی سیکیورٹی پر بھی دگنا خرچہ آرہا ہے، وفاق ہی نہیں پنجاب میں بھی یہی صورتحال ہے، وزیراطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان کی پہلی پریس کانفرنس میں بھی اہم عوامی مسائل پر پالیسی بیان کے بجائے ان سے ڈی پی او کے تبادلہ اور ہیلی کاپٹر کے استعمال پر سوالات ہوتے رہے، وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار بھی سرکاری جہاز اور ہیلی کاپٹر کے استعمال پرتنقید کی زد میں ہیں، گزشتہ روز ان کے سرکاری طیارے میں فیملی کے ساتھ سفر کی تصویرسامنے آئی تو تنقید ہوئی، آج عثمان بزدار اپنی فیملی کے ساتھ ہیلی کاپٹر کے ذریعہ میاں چنوں گئے وہاں سرکاری اسپتال کا دورہ کیا اور پھر اپنے قریبی دوست کے گھر جاکر ان کے والد کے انتقال پر تعزیت کی، وزیراعلیٰ پنجاب اپنے سسرالی گاؤں بھی گئے جبکہ ان کے پاک پتن کے دورے کے موقع پر بڑے پروٹوکول کی شکایت بھی سامنے آئی، اس حوالے سے ان پر تنقید بھی ہوئی اس تنقید کی وجہ بھی تحریک انصاف نے خود فراہم کی، وزیراعلیٰ پنجاب کے ساتھ ایک اور تنازع بھی جڑا ہوا ہے، ڈی پی او پاک پتن کے ٹرانسفر کے حوالے سے وزیراعلیٰ پنجاب کی مداخلت کی خبروں کی وجہ سے ان پر سخت تنقید ہورہی ہے۔ شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ وقت گزرنے کے ساتھ اپوزیشن کی صدارتی انتخاب میں مشترکہ امیدوار لانے کی امیدیں دم توڑتی نظر آرہی ہیں، صدارتی امیدوار کیلئے اپوزیشن کی جانب سے دو نام سامنے آئے ہیں، پیپلز پارٹی اعتزاز احسن کا نام واپس لینے پر راضی نہیں ہے، پیپلز پارٹی کوشش کررہی ہے کہ مولانا فضل الرحمن خود اعتزاز احسن کے مقابلہ میں دستبردار ہوجا ئیں۔ شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت کو عالمی سطح کے معاملات میں ابتداء ہی میں مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، نئی حکومت کیلئے امریکی وزیرخارجہ کی وزیراعظم عمران خان سے ٹیلیفونک گفتگو اور اس پر امریکی موقف ایک مسئلہ بن گیا ہے، تحریک انصاف کی حکومت اور پاکستانی دفتر خارجہ امریکی موقف کو مسترد کررہا ہے جبکہ امریکی وزارت خارجہ اپنے موقف پر ڈٹی ہوئی ہے، یہ ہنگامہ آج پارلیمان تک جا پہنچا جہاں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے امریکی موقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کی سیکرٹری آف اسٹیٹ کی پریس ریلیز حقائق کے برعکس ہے، پریس ریلیز میں جس بات کا تذکرہ ہوا س کا داستان میں ذکر تک نہ تھا، یہ تنقید بھی ہورہی ہے کہ ایک ملک کے وزیرخارجہ کا وزیراعظم پاکستان سے ٹیلیفونک رابطہ سفارتی آداب کے منافی ہے، یہ سوال بھی ہورہا ہے کہ کسی وزیرخارجہ کی کال وزیراعظم کو ٹرانسفر کیسے کی گئی،کیا اس ضمن میں دفتر خارجہ کو اعتماد میں لیا گیا تھا اور اگر وزیراعظم نے کال خود سنی تو کیوں سنی یہ فیصلہ کس نے کیا، جیو نیوز کے ذرائع کے مطابق دفتر خارجہ نے وزیراعظم اور امریکی وزیرخارجہ کے درمیان ٹیلیفونک رابطے کی مخالفت کی تھی۔ 

تازہ ترین