سندھ کے چوتھے بڑے شہر میرپورخاص میں منی لانڈرنگ،سٹہ ،غیر قانونی بنکاری اورغیر ملکی کرنسی کاکاروبارعروج پرہونے کی بازگشت طویل عرصے سے سنائی دے رہی ہے،جس کو تقویت میرپورخاص میں غیر ملکی کرنسی کے مبینہ غیر قانونی کاروبار کے خلاف ایف آئی اے کی حالیہ کارروائی سے ملی ہے۔اس کارروائی کے دوران ایف آئی اے نے ایک شخص کو گرفتار کرکے بھاری مالیت میںغیر ملکی کرنسی اور پرائزبانڈز برآمد کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔اس سلسلے میں ایف آئی اے کی ایف آئی آر میں بتایا گیا ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ایک آفیسر نے ایک لیٹر کے ذریعے ایف آئی اے کرائم سرکل حیدرآباد کوغیر ملکی کرنسی کا غیر قانونی کاروبار ہونے کی نشان دہی کرتے ہوئے فوری ایکشن لینے کی ہدایت کی تھی۔اس سلسلے میں ایف آئی آر نمبر 29/2018/رجسٹرڈ کی گئی اور متعلقہ اتھارٹی کی منظوری سے ایف آئی اےکرائم سرکل حیدرآباد کی ایک ٹیم تشکیل دی گئی، جس کے انچارج ڈائریکٹر ایف آئی اے حیدرآباد وصی الدین بھٹی تھے ، جب کہ ٹیم کے دیگر ممبران میں انسپکٹر خدا بخش پہنور ،انسپکٹرمحمد سلیم ملک ،انسپکٹر رمیش کمار اور دیگر عملہ شامل تھا ۔ٹیم نے میرپورخاص کے علاقے شاہی بازار میں واقع جیولرز میسرزحاجی محمد سلیمان کی دکان پر چھاپہ مارا او ر وہاں موجود محمد ذیشان ولد حاجی عبدالغفار سے پوچھ گچھ کی اور اس کےجوابات تسلی بخش نہ پاکر ٹیم نے اس کو گرفتار کرلیا۔ دکان کی مکمل تلاشی لی گئی اور اس کے مختلف حصوں سے بھاری مالیت کی غیر ملکی کرنسی جس میں سعودی وقطری ریال ، مختلف ممالک کے ڈالر ز ،ملائشین کرنسی ، درہم ،مقامی کرنسی ،اور مختلف مالیت کے پرائزبانڈ ز کے علاوہ مختلف بینک اکائونٹس کی چیک بکس اور نوٹ بک جس میں غیر قانونی کام کی تفصیلات درج تھیں اپنی تحویل میں لے لیں اور قانونی کارروائی کرنے کے بعد ایف آئی اے کی ٹیم برآمد ہونے والی ملکی اور غیر ملکی کر نسی اور دیگر سامان اور ملزم محمد ذیشان کو حیدرآباد لے گئی جہاں پر اس کے خلاف اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ایک آفیسر کی مدعیت میں زیر دفعہ4(1)R/Wسیکشن 23 (3)ایف آئی اے ایکٹ 1947 کےتحت مقدمہ درج کرکے تحقیقات شروع کردی ہے۔ اس سلسلے میں مزید انکشافات متوقع ہیں۔ غیر ملکی کرنسی کا غیر قانونی کاروبار قومی جرم ہے ،اوریہ اگر اس شہر میں ہورہا ہے تو پولیس اور دیگر متعلقہ اداروں کی کارکردگی پر عوامی حلقوں کی جانب سے سوال اٹھانا جائز لگتا ہے۔
شہر میں طویل مدت سے سٹہ بازی اور آکڑاپرچی کا دھندہ بھی زور وشور سے جاری ہے۔ مختلف علاقوں میں آکڑا پرچی جوئے کا کاروبارچلانے میں بے روزگار نوجوان سرگرم عمل ہیں،جب کہ راتوں رات امیر بننے کی خواہش میں سٹہ اور آکڑا پرچی جوئے میں قسمت آزمائی کرنے والوں کی اکثریت اپنی محنت کی کمائی سے نہ صرف محروم ہوجاتی ہے بلکہ اس سے مختلف سماجی مسائل بھی پیدا ہورہے ہیں۔سٹہ بازی اور آکڑا پرچی جوئے کے کالے دھندے کے کاروبار کے حوالے سے زبان زد عام ہے کہ اس کا مرکز شیوا جی روڈ ہے ،جس کے ڈانڈے دبئی سے ملتے ہیں،اس اڈے پر ماضی میں متعدد مرتبہ پولیس ، چھاپے مار کر سٹہ اور آکڑا پرچی جوئے میں استعمال ہونے والا سامان اور دائو پر لگی بھاری رقم برآمد کر چکی ہے۔اب یہ اڈہ طویل مدت سے بعض اداروں میں موجود کالی بھیڑوں کے لیے نوٹ چھاپنے کی مشین بنا ہوا ہے۔
میرپورخاص ضلع میں کھلے عام او رخفیہ طور پربھاری منافع پر رقم کی لین دین کا غیرقانونی کاروبار بھی وسیع پیمانے پرچل رہا ہے،جس میں سودخورمافیابھولےبھالے اورغریب اور متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد کو جکڑ لیتی ہے اور ضرورت مندوں کی ایک بڑی تعداد نسل در نسل تک اس میں جکڑی رہتی ہے،بتایا جاتا ہے کہ سود خور مافیا نے بڑے شہروں اورقصبات میں اپنا مضبوط نیٹ ورک قائم کیا ہوا ہے، اور ان کے کارندے سرکاری وغیر سرکاری دفاتر،گلی ،محلوں اور بازاروں میں منڈلاتے رہتے ہیں جہاں بے روزگار،علاج ومعالجہ،بچوں کی تعلیم وتربیت، بہن،بیٹی کی شادی بیاہ اورگھریلو اخراجات برداشت نہ کرنے والے ان کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں،اگر کوئی ضرورت مند ایک لاکھ روپے قرضہ لیتا ہے تو اس سے منافع کے نام پر 10سے 15ہزارروپے تک ماہانہ سود وصول کیا جاتا ہے،اور باقاعدگی سے قسط نہ دینے پر اس کی تذلیل کی جاتی ہے جب کہ پولیس بھی ان متاثرین کی کوئی مدد نہیں کر تی ہے اور یوں غریب ان کے جال میں پھنسے رہتے ہیں۔ عوامی حلقوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ غیر قانونی طورپر بنکاری کرنے والی سود خور مافیاسے نجات دلانے کے لیے موثر قانون سازی کی جائے۔