• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شریف فیملی کی سزا معطلی کی درخواستوں پر سماعت بدھ تک ملتوی

اسلام آباد(مانیٹرنگ سیل)اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف انکی صاحبزادی مریم نواز اور کیپٹن (ر)محمد صفدر کی سزا معطلی کی درخواستوں پر سماعت (آج) بدھ تک ملتوی کر دی ہے ۔ نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ شک کی بنیاد پر کسی کو جیل میں نہیں رکھا جاسکتا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ نیب نے بھی زیادہ سے زیادہ سزا کے بغیر ہی فیصلے کو تسلیم کرلیا۔عدالت نے درخواست گزار وکلاءکو (آج )بدھ تک دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے۔ منگل کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے محمد نواز شریف مریم نواز اور کیپٹن (ر)صفدر کی سزا معطلی کی درخواستوں پر سماعت کی۔ محمد نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ شک کی بنیاد پر کسی کو جیل میں نہیں رکھا جاسکتا ہے، ضمانت دینا ہائی کورٹ کی صوابدید ہے، خواجہ حارث نے ضمانت سے متعلق اعلی عدلیہ کے فیصلوں کی نظریں پیش کیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ سیکشن 32 کے تحت ٹرائل کورٹ میں روزانہ کی بنیاد پر سماعت ہورہی ہے، فریقین دونوں جگہ پیش نہیں ہوسکتے، آپ سزا معطلی سے متعلق دلائل دینا شروع کردیں۔ خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت آرٹیکل 199 کے تحت سزا معطل کرنے کا اختیار رکھتی ہے، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ خواجہ صاحب ہم اس پر کلئیر ہیں،اپیل والا معاملے میں آپ نے ہی مشکل حل کردی ہے، ہمارے لیے اپیلوں والا معاملہ زیادہ اہم تھا۔آپ احتساب قانون کے سیکشن 426اور 32پر اپنی معروضات پیش کریں۔ خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ 2016میں 426سی آر پی سی کی شقوں کے بارے میں فیصلہ دیاہے۔ ویلتھ ٹیکس کا اصلی دستاویز پیش نہیں کیا گیا،جب عدالت پبلک دستاویز پر نوٹس لے گی تو مجھے بھی نوٹس جاری ہوگا، پھر میں بھی نوٹس کا جواب دونگا، میں عدالت میں وضاحت دونگا، یہ سب کچھ ٹرائل کے دوران نہیں ہوا، جسٹس اطہر من اللہ نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ کیا 14 سال کی سزا دی گئی، نیب اس پہلو کو مدنظر رکھے،اس کا مطلب ہے کہ زیادہ سے زیادہ سزا دینے کے حوالے سے ٹرائل کورٹ بھی مکمل رضامند نہیں تھی ، نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ آپ نے خود ہی کہا تھا کہ شواہد اور میرٹ پر نہیں جائیں گے، یہ بات میرٹ اور شواہد کی نہیں بلکہ مخصوص حالات کی ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ نیب نے بھی زیادہ سے زیادہ سزا کے بغیر ہی فیصلے کو تسلیم کرلیا۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ اس حوالے سے عدالت کو اپنے نکتہ نظر سے آگاہ کرینگے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اپنی باری اس نکتے پر بھی ہمیں جواب دینا،آپ ٹرائل روکنے کے حوالے سے رضامندی دے دیں، ہم نے خواجہ حارث کی درخواست کو معقول پایا، خواجہ حارث نے کہا کہ اثاثہ جات کاکیس تھا، معلوم ذرائع بتائے گئے نہ ہی اثاثوں کی مالیت بتائی گئی، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل جہانزیب بھروانہ کے مطابق حقیقی ملکیت ثابت کرنا نیب کا کام نہیں ہے۔
تازہ ترین