• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دو روز قبل ہم نے ایک نابغہ روزگار، یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور کے چیئرمین اور بانی ریکٹر ڈاکٹر حسن صہیب مراد کی نمازِ جنازہ میں شرکت کی جس میں طلبہ، اساتذہ اور لاہور کے عمائدین بڑی تعداد میں آئے۔ ڈاکٹر صاحب خنجراب سے لاہور آتے ہوئے ٹریفک حادثے میں شہید ہوئے۔ اُنہوں نے اسلامی علوم کی سیاسی ترویج اور جدید تحقیق و اختراعات کی دنیا میں کیا کیا خدمات انجام دیں، اُن کا ذکر اگلے کالم میں کیا جائے گا۔ اِس وقت ہم اس ماہتاب کی بات کریں گے جو ہماری قومی زندگی میں قریباً نصف صدی تک جلوہ آرا رہا اور اب وہ غروب ہو چکا ہے اور آج شام اُن کی تدفین کی آخری رسوم ادا کی جائیں گی۔

گیارہ ستمبر کو سورج ڈھلے ٹی وی سکرین پر اُن کے انتقال کی خبر نشر ہوئی، تو پورے ملک پر سکتہ طاری ہو گیا۔ سیاسی اور دینی قائدین کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں کے کارکنوں نے اُن کی وفات کا دکھ شدت سے محسوس کیا۔ صدرِ مملکت سے لے کر وزیرِاعظم، آرمی چیف، فاضل چیف جسٹس، وفاقی وزرا اور وزرائے اعلیٰ نے اظہارِ تعزیت کیا اور بلندیٔ درجات کی دعائیں مانگیں۔ اُن کی وفات ایک ایسے وقت میں ہوئی جب اُن کا خاندان شدید مشکلات میں گھرا ہوا ہے اَور انتہائی کربناک جذباتی کیفیت سے دوچار ہے۔ اُن کی بیماری کے دوران ایسے ایسے رقت آمیز مناظر دیکھنے میں آئے جو شدید اذیت کا باعث بنے۔ بعض تجزیہ نگار لکھ رہے ہیں کہ کوئی سیاسی معجزہ بھی ظہور پذیر ہو سکتا ہے۔ نواز شریف اور مریم نواز کئی ہفتے لندن میں اِس اُمید کے ساتھ ٹھہرے رہے کہ بیگم کلثوم نواز آنکھیں کھولیں اور اُن سے بات ہو سکے۔ پھر باپ بیٹی کی زندگی میں بڑا نازک موڑ آیا۔ ایک طرف اُن کا وطن، اُن کی سیاسی جماعت اور جمہوریت کا مستقبل اُنہیں واپس آنے پر مجبور کر رہا تھا اور دوسری طرف بیگم صاحبہ بسترِ مرگ پر تھیں۔ اُنہوں نے بھاری دل سے بیگم کلثوم کو اللہ حافظ کہا اور احتساب عدالت کی طرف سے سنائی ہوئی سزا بھگتنے کے لیے وطن واپس چلے آئے۔ باپ بیٹی اور داماد پر جیل میں بیگم کلثوم کے انتقال کی خبر بجلی بن کے گری۔ نوازشریف کی جو تصویریں سامنے آئی ہیں، ان میں وہ بہت غم زدہ نظر آرہے ہیں۔ تین روز کے لیے تینوں قیدی پیرول پر رہا کر دیے گئے ہیں، مگر اُن کا غم بہت بڑا ہے اور اربابِ اختیار کی طرف سے کشادہ دلی اور بالغ نظری سے کام لینے کا تقاضا کر رہا ہے۔

جناب نواز شریف پر سختی کا وقت 12؍اکتوبر 1999ء کو بھی آیا تھا جب جنرل پرویز مشرف نے جمہوریت پر شبخون مار کر منتخب وزیراعظم نوازشریف کو اٹک کے قلعے میں بند کر دیا تھا اور اُنہیں صفحۂ ہستی سے مٹانے کے منصوبے تیار کر لیے تھے۔ مسلم لیگ نون کا شیرازہ بکھر گیا تھا۔ تب بیگم کلثوم نواز کسی عہدے کے بغیر میدانِ سیاست میں اُتریں اور چند کارکنوں کے ساتھ تحریکِ مزاحمت کا آغاز کیا۔ قدم قدم پر ناقابلِ عبور مشکلات کھڑی کی گئیں، مگر باہمت اور باوقار خاتون کے فولادی عزم نے فوجی آمریت پر لرزہ طاری کر دیا۔ وہ ایک روز گاڑی میں احتجاج کے لیے باہر نکلیں، ڈرائیونگ سیٹ پر فیصل آباد کے چودھری صفدر الرحمٰن بیٹھے تھے اور عقبی نشست پر جاوید ہاشمی اور محترمہ تہمینہ دولتانہ فروکش تھیں۔ پولیس نے اِس گاڑی کو آگے جانے سے روک دیا اور سواریوں کو باہر آنے کا حکم دیا۔ اس پر بیگم کلثوم نواز نے گاڑی کو اندر سے مقفل کر لیا۔ فوجی دستے اس گاڑی کو کرین کے ذریعے اُٹھا کر ایک خاص مقام پر لے آئے۔ اس منظر کی تصاویر عالمی میڈیا میں شائع ہوئیں اور یہ تاثر پھیلا کہ ایک نہتی خاتون آمریت کے خلاف بڑی بے خوفی اور بہادری سے ڈٹی ہوئی ہے۔

بیگم کلثوم نواز کو اُردو ادب سے گہرا لگاؤ تھا۔ اُنہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے اُردو لٹریچر میں پی ایچ ڈی کیا تھا۔ وہ سیاست اور تاریخ کے رموز سے بھی خوب آشنا تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کی نپی تُلی اور ادبی چاشنی میں ڈوبی ہوئی تقریروں نے سیاسی کارکنوں، قانون دانوں اور سیاسی زعماکے اندر تحریکِ مزاحمت کا عزم بیدار کیا۔ وہ پورے پاکستان میں شہر شہر گئیں، تمام سیاسی قائدین سے ملاقاتیں کر کے اے آر ڈی کے نام سے سیاسی اتحاد قائم کیا۔ وہ بہت جلد سیاسی حلقوں میں احترام کی نگاہ سے دیکھی جانے لگیں۔ اُن کی مقبولیت کا سب سے بڑا سبب اُن کی شائستگی، خوش مزاجی اور بےپناہ جذبہ خیرخواہی تھا۔ اُنہوں نے آزمائش کے سخت دنوں میں بھی جنرل مشرف پر ذاتی حملے کرنے کے بجائے ان اقدام پر کڑی تنقید کی جو عوام کی حاکمیت اور جمہوری قدروں کو ملیامیٹ کر رہے تھے۔ اُن کی بہت بڑی خوبی اُن کا انکسار، زیبائش و نمائش سے گریز اور نچلے طبقات کے ساتھ خلوص کا رشتہ تھا۔ وہ ایک مذہبی مزاج کی مشرقی اقدار کی حامل نفیس خاتون تھیں۔ اُن کی شادی ملک کے بہت بڑے صنعت کار سے ہوئی جبکہ اُن کا تعلق متوسط خاندان سے تھا اور شادی سے پہلے اُن کی زندگی مصری شاہ، لاہور میں گزری تھی۔

پرویز مشرف کی آمریت کے خلاف اُن کی چودہ ماہ پر مبنی جدوجہد کامیاب رہی اور ایک معاہدے کے تحت شریف خاندان سعودی عرب جلاوطن کر دیا گیا۔ وطن چھوڑتے وقت بیگم کلثوم نواز نے جو پیغام دیا، اس میں گہری معنویت پوشیدہ تھی۔ اُنہوں نے کہا ہمیں جلاوطن کیا جا رہا ہے، مگر ہم جہاں جا رہے ہیں، اس کا انتخاب اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اہلِ وطن کے لیے خوش رہنے کی دعا کی۔ اُن کی عظیم الشان جدوجہد نے اُنہیں امر بنا دیا اور ہماری تاریخ پر انمٹ نقش ثبت کر دیے۔ وہ اس کے بعد میدانِ سیاست سے واپس اپنے کچن میں چلی گئیں۔ بظاہر وہ ایک خاموش طبع گھریلو خاتون تھیں، مگر اُنہوں نے اپنے خاوند اور بیٹی مریم کی سیاسی تربیت میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ سیاست میں شائستگی، رواداری اور میانہ روی کی زبردست حامی تھیں۔ اُن کی باتوں میں دانش ہوتی اور مردم شناسی میں اُنہیں ملکہ حاصل تھا۔ اس نیک سیرت اور بیدار مغز خاتون کے بارے میں اُن کی بیماری کے دنوں میں درجنوں اصحاب کی طرف سے جو غیرذمہ دارانہ تبصرے کیے جاتے رہے، ان سے ایک طرف اُن کی اخلاقی پستی کا احساس ہوا اور دوسری طرف یہ کہ ہمارا معاشرہ بدگمانیوں، الزام تراشیوں اور نفرتوں کی گہری دلدل میں دھنستا جا رہا ہے۔ مجھے پیپلز پارٹی کے دانش ور لیڈر جناب اعتزاز احسن کے طرزِعمل پر بڑا دکھ ہوا، تاہم اُنہوں نے کھلے عام اپنے رویے پر معذرت کر کے ایک اچھی مثال قائم کر دی ہے۔

ہم بیگم کلثوم نواز کی رحلت پر اُن کے لیے مغفرت اور بلندیٔ درجات کی دعا کرتے ہیں اور یہ بھی کہ شریف خاندان کو اس جاں گسل صدمے کو برداشت کرنے کا حوصلہ اور صبر عطا کرے اور ملک میں ایسے حالات پیدا ہو جائیں جن میں باہمی احترام، سیاسی وضع داری اور قانون کی عمل داری کو فروغ حاصل ہو۔ آپس کی دشمنیاں ختم کرنے اور ماضی کی غلطیوں کے ازالے کا یہ سب سے مناسب موقع ہے۔ ہمارے حکمران اور ادارے اگر بلند نگاہی اور فراخ دلی سے کام لیں، تو زخم بھر بھی سکتے ہیں اور سیاسی استحکام اور داخلی ہم آہنگی کے اہداف بھی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین