• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقصیٰ رائو، جامعہ کراچی

کرۂ ارض کا ستّر فی صد حصّہ پانی پر مشتمل ہے، لیکن اس میں سے صرف 2.5 فی صد پانی قابلِ استعمال ہے۔ تقسیمِ ہند کے وقت پاکستان میں سندھ، جہلم، چناب، راوی، ستلج اور بیاس نامی دریا بہتے تھے، جب کہ 196 ملین ایکڑ میں قابلِ کاشت رقبہ 77 ملین تھا، جس میں سے 26 ملین ایکڑ پر کاشت کاری کی جاتی تھی۔ تقسیم کے بعد مشرقی دریا بھارت کے حصّے میں آگئے اور 1948ء میں بھارت نے ان دریائوں کا پانی روک لیا۔12 برس بعد عالمی بینک کی ثالثی میں’’سندھ طاس معاہدہ‘‘ (Indus Water Treaty) طے پایا، جس کی رُو سے سندھ، جہلم اور چناب پاکستان کے حصّے میں آئے۔ معاہدے کے تحت دونوں مُمالک کو اپنے دریائوں کا پانی آزادانہ طور پر استعمال کرنے کے حقوق دیے گئے، جس کے بعد دونوں ممالک میں دریائوں پر ڈیمز کی تعمیر کا آغاز ہوا۔ ڈیم بنانے کا مقصد، پانی کو ضایع ہونے سے بچاکر زرعی، صنعتی اور گھریلو استعمال کے لیے مہیا کرنا ہوتا ہے۔ پاکستان میں 150 کے قریب چھوٹے اور بڑے ڈیمز ہیں، جن میں سے زیادہ تر 1960-75 ء کے درمیانی عرصے میں تعمیر کیے گئے۔

پاکستان میں دو اقسام کے ذرایع آب پائے جاتے ہیں۔ قدرتی اور مصنوعی۔ قدرتی ذرایع میں بارش، دریا، گلیشیئرز، تالاب، جھیلیں، چشمے اور کنویں وغیرہ شامل ہیں، جن میں میٹھے پانی کا سب سے بڑا ذریعہ، دریا ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو بہت سے چھوٹے ،بڑے دریائوں سے نوازا ہے، تاہم، منصوبہ بندی کے فقدان کے باعث ہم ان وسائل کے درست استعمال سے قاصر ہیں، یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ہر شخص کے لیے دست یاب پانی کی اوسط شرح میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے۔ایک اندازے کے مطابق، مُلک میں 2010ء میں پانی کی کمی11 ملین ایکڑ فِٹ تھی، جو 2020ء تک بڑھ کر20 ملین ایکڑ فِٹ، جب کہ 2025ء تک25 ملین ایکڑ فِٹ ہوجائے گی۔ لہٰذا، اگر اب بھی صحیح منصوبہ بندی نہ کی گئی، تو پانی کی کم یابی، بہ تدریج نایابی کی طرف بڑھتی چلی جائے گی اور یہ صُورتِ حال پاکستان جیسے مُلک کے لیے، جس کی ساٹھ فی صد سے زاید آبادی کا انحصار زراعت پر ہے، کس قدر خطرناک ہوگی، اس کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں۔ دوسری طرف، پانی میں نمکیات کے شامل ہونے سے جہاں بڑی مقدار میں پانی کا زیاں ہو رہا ہے، وہیں اس پانی کے زمین میں جذب ہونے سے زرعی زمین کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس سے پچیس فی صد رقبہ ناقابلِ کاشت ہو چُکا ہے۔ پھر یہ کہ مُلک میں صرف 45 فی صد عوام کو پینے کا صاف پانی میّسر ہے، جب کہ آدھی سے بھی زیادہ آبادی کو تو سِرے سے پینے کا پانی ہی نہیں مل پا رہا۔ عالمی اداروں کی درجہ بندی کے مطابق، پاکستان اُن ممالک کی فہرست میں شامل ہے، جہاں پینے کا صاف پانی کم یاب ہے۔ ان حالات میں ہم پر لازم ہوچُکا کہ پانی کے زیاں کو روکنے کے لیے جنگی بنیادوں پر کام کریں۔ اس ضمن میں ایک اہم کام نئے ڈیمز کی تعمیر بھی ہے۔ اللہ کا شُکر ہے کہ نئی قیادت اس حوالے سے کافی سنجیدہ نظر آ رہی ہے اور امید ہے کہ اب ہم اس شعبے میں تیزی سے کام ہوتا دیکھیں گے۔ آزادی کے بعد پاکستان میں تعمیر ہونے والے ڈیمز میں منگلا، تربیلا، وارسک، حب، میرانی، سبکزئی، گومل زام، سدپارہ، خان پور اور دراوٹ ڈیم وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ذیل میں ان ڈیمز کا مختصر سا تعارف پیش کیا جا رہا ہے۔

منگلا ڈیم: آزاد کشمیر میں، دریائے نیلم پر واقع ’’منگلا ڈیم‘‘ دنیا کے بڑے ڈیمز میں ساتویں نمبر پر ہے۔ 1960ء میں’’سندھ طاس معاہدے‘‘ کی رُو سے پاکستان کے حصّے میں دریائے جہلم، چناب اور سندھ آئے تھے۔لہٰذا، 1967ء تک پاکستان کی تمام تر زرعی پیداوار کا انحصار ان ہی دریاؤں کے پانیوں پر تھا۔ تاہم، کئی بار کسانوں کو پانی کی قلّت کا سامنا کرنا پڑا، جس کے باعث مُلک کی مجموعی زرعی پیداوار میں شدید کمی واقع ہوئی۔ بالآخر 1967ء میں عالمی بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے تعاون سے منگلا ڈیم تعمیر کیا گیا، جس پر اندازے کے مطابق1.4 بلین ڈالرز لاگت آئی۔ اس سے پانی کی کمی پوری کرنے اور آب پاشی نظام کو بہتر بنانے میںبہت مدد ملی۔ ڈیم کی اونچائی380 فِٹ، جب کہ لمبائی 10,300 فٹ ہے۔ ڈیم کی تعمیر کے دَوران ضلع میرپور اور مضافات کے ڈھائی سو سے زاید دیہات اور قصبوں کے تقریباً 110,000 افراد متاثر ہوئے، جن کے نقصانات کے ازالے کی حتی الامکان کوشش کی گئی۔ 1971ء کی جنگ میں بھارتی گولا باری کے نتیجے میں ڈیم کو جزوی طور پر نقصان پہنچا۔

تربیلا ڈیم:1976 میں دریائے سندھ پر تعمیر کیا جانے والا ’’تربیلا ڈیم‘‘، وفاقی دارالحکومت سے 130 کلومیٹر کی دُوری پر واقع ہے۔ سندھ طاس معاہدے کے بعد، 1968 ء میں عالمی بینک کے تعاون سے اس کی تعمیر کا آغاز کیا گیا۔95 مربع میل تک ذخیرۂ آب کی گنجائش رکھنے والا یہ ڈیم، مٹی کی بھرائی سے بنایا جانے والا دنیا کا سب سے بڑا ڈیم ہے۔ اس کی تعمیر پر 1497ملین روپے خرچ ہوئے۔ یہ ڈیم زرعی مقاصد کے لیے پانی کو ذخیرہ کرنے اور سیلاب کے بہائو کو روکنے کے ساتھ، 3478 میگاواٹ تک بجلی پیدا کرنے کی بھی صلاحیت رکھتا ہے۔

وارسک ڈیم: پشاور سے 30 کلو میٹر کے فاصلے پر دریائے کابل پر واقع’’ وارسک ڈیم‘‘، کینیڈین حکومت کے تعاون سے تعمیر کیا گیا اور اس پر 395 ملین روپے خرچ ہوئے۔ اس ڈیم کی تعمیر دو مراحل میں مکمل ہوئی۔ پہلا مرحلہ 1960ء، جب کہ دوسرا 1980ء میں تکمیل کو پہنچا۔ یہ ڈیم،119,000 ایکڑ زرعی اراضی کی پانی کی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ، 540,000 کیوسک تک کے سیلاب کو روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

حب ڈیم: بلوچستان اور سندھ کی سرحدوں کے سنگم پر، کراچی کے شمال میں، 1981ء میں ’’حب ڈیم‘‘ تعمیر کیا گیا، جس کے ذریعے بلوچستان کے ضلع، لسبیلہ کو آب پاشی اور کراچی کے شہریوں کو پینے کا پانی ملتا ہے۔ حب ڈیم نہ صرف صاف پانی کی فراہمی کا ایک بڑا ذریعہ ہے، بلکہ سردیوں میں ہجرت کر کے آنے والے مہمان پرندوں اور بے شمار اقسام کی مچھلیوں کا مرکز بھی ہے۔ ان مچھلیوں میں نو فِٹ تک لمبی،’’مہاشیر‘‘ نامی مچھلی بہت مشہور ہے، جو اپنے منفرد ذائقے کے سبب بے حد پسند کی جاتی ہے۔نیز، اسے ایک تفریحی مقام کی بھی حیثیت حاصل ہے۔

میرانی ڈیم: صوبہ بلوچستان کے ضلع، گوادر میں’’ دریائے درشت‘‘ پر واقع یہ ڈیم، 588,690 کیوبک تک کے سیلاب کو روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ میرانی ڈیم کی تعمیر کا آغاز 2002ء میں ہوا، جب کہ 2007ء کے وسط میں اسے مکمل کر لیا گیا۔ اس ڈیم کی اونچائی 127 فٹ، جب کہ لمبائی 3080 فِٹ ہے۔

سبکزئی ڈیم: صوبہ بلوچستان ہی میں’’ دریائے ژوب‘‘ پر واقع،’’سبکزئی ڈیم‘‘ کی تعمیر 2004ء میں شروع ہوئی اور 2007ء میں پرویز مشرف نے اس کا افتتاح کیا۔ ایک دعوے کے مطابق، 23,638 کیوسک تک کے سیلاب کو روکنے کی صلاحیت رکھنے والے اس ڈیم پر ڈیڑھ بلین روپے خرچ ہوئے۔

گومل زام ڈیم: بارہ بلین روپے کی لاگت سے تعمیر ہونے والے اس ڈیم کی تعمیر کا آغاز 2007ء کے وسط میں ہوا، جو 2015ء میں اختتام کو پہنچا۔ خیبر پختون خوا کے علاقے، وزیرستان میں ’’دریائے گومل‘‘ پر واقع ہونے کے سبب’’گومل زام‘‘ کہلانے والا یہ ڈیم، 160,000 ایکڑ سے زاید رقبے کو سیراب اور 17.4 میگاواٹ تک بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

سدپارہ ڈیم: گلگت بلتستان کے ضلع، اسکردو سے تقریباً چھے میل کے فاصلے پر واقع جھیل، سدپارہ کے مقام پر’’سدپارہ ڈیم‘‘ کی تعمیر حکومتِ پاکستان اور امریکا کے تعاون سے 2011ء میں مکمل ہوئی۔ اس کی تعمیر پر 6.5 بلین روپے لاگت آئی۔ سدپارہ ڈیم کی اونچائی 128 فٹ ہے، جب کہ یہ15,536 ایکڑ فٹ رقبے کو سیراب کرنے کے علاوہ،17.3 میگاواٹ تک بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔

خان پور ڈیم: دارالحکومت سے 50 کلومیٹر کی دُوری پر، خیبر پختون خواہ کے ضلع، ہری پور میں واقع’’ خان پور ڈیم‘‘ صرف زرعی مقاصد کے لیے استعمال نہیں ہو رہا، بلکہ اس سے ہری پور، راول پنڈی اور اسلام آباد کو پانی بھی مہیا کیا جا رہا ہے۔ یہ ڈیم 1985ء میں دریائے سندھ سے نکلنے والے ایک چھوٹے دریا ’’ہارد‘‘ پر تعمیر کیا گیا۔ ڈیم کی کل گنجائش 79,980 ایکڑ فٹ ہے، جس سے پانی کا اخراج 11 اور 18 کلومیٹر کی بالترتیب دائیں اور بائیں کینال کے ذریعے ہوتا ہے۔

دراوٹ ڈیم: کراچی سے 135 کلومیٹر کے فاصلے پر ضلع، جام شورو میں واقع’’دراوٹ ڈیم‘‘ کی اونچائی 46 میٹر ہے، جو پچیس ہزار ایکڑ رقبے کو سیراب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، لیکن بارشوں کی کمی کے باعث اس ڈیم کا استعمال کم ہی ہو پاتا ہے۔نیز، محکمۂ آب پاشی کی غفلت اور عدم توجّہی کے باعث یہ ڈیم زبوں حالی کا شکار ہے۔ اس ڈیم کی تعمیر 2010-14ء کے درمیانی عرصے میں ہوئی۔

ان کے علاوہ بھی پاکستان کے مختلف صوبوں میں کئی چھوٹے ڈیم اور بیراج ہیں، لیکن انتظامیہ کی غفلت کے باعث ان میں سے بیش تر انتہائی بُری حالت میں ہیں، بلکہ کئی ایک تو ناکارہ ہوچُکے ہیں۔ گرچہ ،نئے ڈیمز کی تعمیر کے منصوبوں پر کام جاری ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بڑے ڈیمز کی تعمیر اور دیکھ بھال کے لیے وسائل کی بھی کہیں زیادہ ضرورت ہوتی ہے، سو، وسائل کی کم یابی کو مدّ ِنظر رکھتے ہوئے چھوٹے ڈیمز کی تعمیر اور مرمّت پر بھی توجّہ دی جانی چاہیے۔ 

مزید یہ کہ آب پاشی کے جدید طریقے متعارف کروائے جائیں تاکہ قیمتی پانی کے زیاں پر کسی حد تک قابو پایا جاسکے۔ پھر یہ بھی کہ زراعت کے لیے استعمال ہونے والے پانی کی انتہائی کم نرخوں پر دست یابی بھی قیمتی پانی کے بے تحاشا زیاں کا ایک اہم سبب ہے، لہٰذا زرعی پانی کے نرخوں پر بھی نظرِ ثانی کی جانی چاہیے۔ نیز، پانی کی چوری اور نہری نظام کی زبوں حالی بھی الگ سے اہم مسائل ہیں، جو عدم توجّہی کے باعث انتہائی پیچیدہ صُورت اختیار کر چُکے ہیں۔

تازہ ترین