• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اپنی تقریب حلف برداری کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بیان دیا کہ اس موقع پر عوام جس تعداد میں اکٹھے ہوئے اس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس پر امریکی میڈیا نے تقریباً مشترکہ طور پر اعداد و شمار سے یہ ثابت کیا کہ صدر باراک اوباما کی حلف وفاداری کی تقریب میں شامل ہونے والوں کی تعداد نسبتاً بہت زیادہ تھی۔ میڈیا نے تو یہ بھی دکھایا کہ صدر اوباما کے علاوہ کئی صدور کی تقریب صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے بڑی تھی۔ لیکن صدر ٹرمپ حسب معمول اپنے دعوے پر قائم رہے۔ اس پر میڈیا نے ان کی قریب ترین ترجمان کیلی این کانوے سے جب اس کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ کا بیان ’’متبادل حقیقت‘‘ کا عکاس ہے۔ غرضیکہ صدر ٹرمپ حقیقت کو اس طرح سے بیان کر رہے ہیں جس طرح انہیں دکھائی دیتا ہے یا وہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ میڈیا کے اعداد و شمار کے مطابق صدر ٹرمپ ابھی تک 500 سے زیادہ غلط دعوے کر چکے ہیں جو کہ ان کی ترجمان کے مطابق ’’متبادل حقیقت‘‘ ہیں۔ وہ کھلم کھلا جھوٹ بولتے چلے جاتے ہیں اور ان بیانوں کو جب میڈیا غلط بتاتا ہے تو وہ اس پر ’جعلی خبروں‘ (فیک نیوز) کا لیبل لگا کر اسے عوام دشمنی قرار دیتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اتنا واضح طور پر غلط ہونے کے باوجود ان کے پیروکاروں میں کوئی خاص کمی نہیں آتی اور وہ الٹاٹرمپ مخالفوں کو غلط اور سازشی قرار دیتے ہیں۔ اس کی منطقی توجیح یہ کی جاتی ہے کہ چونکہ صدر ٹرمپ نسل پرست سفید فاموں کے انتہائی رجعت پسند ایجنڈے کی عملی تکمیل کر رہے ہیں لہٰذا ان کے پیروکار ان کے ہر غلط دعوے کو نظر انداز کرتے ہوئے ان پر نثار ہیں۔یہ صورت حال ایک ایسے ملک کی ہے جو صنعتی طور پر انتہائی ترقی یافتہ ہے، سائنسی علوم معاشرے کی رگ رگ کا حصہ ہیں، میڈیا آزاد ہے اور تعلیم و تحقیق عام ہے۔ فرضی ، جھوٹ یا’متبادل حقیقتوں‘سے عوام کو گمراہ کرنا صدر ٹرمپ تک محدود نہیں ہے: ہماری اپنی دنیا، جنوبی ایشیا، میں بھی یہ تکنیک عام ہے اور زیادہ خطرناک ہے کیونکہ عوام خود مذہبی عقیدوںاور مختلف قسم کے اوہام میں جکڑے ہوئے ہیں۔

ہندوستان میں ہندتوا کے پرچارک اپنی تہذیب کی ایک تصوراتی تصویر کو تاریخی سچ کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ اس ’متبادل حقیقت‘ کے مطابق ہندوستان نے کئی ہزار سال پہلے میزائل ایجاد کر لئے تھے جو کہ مہا بھارت جیسی جنگوں میں استعمال ہوئے تھے۔ ابھی پچھلے دنوں ایک سینئر وزیر نے ہندوستان کے صوبہ کیرالہ میں سیلاب کی وجہ یہ بتائی تھی کہ یہ المیہ گاؤ کشی کی وجہ سے پیش آیا۔ راشٹریہ سیوک سنگھ اور بھارتی جنتا پارٹی کے زیر اہتمام ہندوستان کی پوری تاریخ کو ’متبادل حقیقتوں‘ کی بنیاد پر لکھا جا رہا ہے۔ غیر ہندوئوں کے ساتھ ناروا سلوک روا رکھنے کے لئے متبادل تاریخ کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ مختلف وجوہات کی بدولت ہندوستا ن کافی تیزی سے معاشی ترقی کر رہا ہے جس سے عوام بھی کسی حد تک فیضیاب ہو رہے ہیں اس لئے وہ ہندتوا کے جھوٹ یا ’متبادل حقیقت‘ کو بھی ہضم کرتے چلے جارہے ہیں۔ غیر ہندوئوں اوراس ’متبادل حقیقت‘ کو تسلیم نہ کرنے والوں پر تشدد کیاجاتا ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان بھی کسی طرح پیچھے نہیں ہے ۔

پچھلے دنوں مولانا فضل الرحمٰن نے اپنے ایک بیان میں الزام لگایا کہ پاکستان کے آزاد خیال قائد اعظم کے پاکستان میں ریاستی مذہبی نظام کو ختم کرنے کے درپے ہیں۔ گویا کہ قائد اعظم محمد علی جناح کا ریاست کا وہی نظریہ تھا جو مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علمائے اسلام یا جماعت اسلامی کا ہے۔ ہم قائد اعظم کی مغربی طرز کی زندگی کے بارے میں تو کچھ لکھ نہیں سکتے البتہ یہ ضرور بتا سکتے ہیں کہ جمعیت علمائے اسلام کی پیشروجمعیت علمائے ہند سمیت اکثر مذہبی پارٹیاں پاکستان کے قیام کی مخالف تھیں۔لیکن 1970 کے اوائل سے جو اسلامائزیشن کی تحریک چلی اس میں قائد اعظم کی زندگی کے بارے میں ’’متبادل حقیقت‘‘ گھڑی گئی۔ ڈونلڈ ٹرمپ والی تکنیک اپناتے ہوئے قائد اعظم کی زندگی کے بارے میں غلط یا ’’متبادل حقیقت‘‘ کو میڈیا اور تعلیمی نصابوں میں اس قدر دہرایا گیا کہ اب کوئی بھی اپنے مذہبی نظریے کو قائد اعظم کے نام لگا سکتا ہے۔ اس کی داغ بیل بہت پہلے ڈالی جا چکی تھی۔

پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد مخصوص حلقوں کے زیر اثر جو تاریخ نصابوں میں پڑھائے جانے کے لئے لکھی گئی اس میں حقیقت کے الٹ ہندوستانی مسلمان اشرافیہ کے نظریات اور مفادات کو اولیت دی گئی۔ تاریخ کے پردے میں صرف مسلمان باشاہوں کے اوصاف کو بیان کیا گیا۔ پاکستانی ریاست نے بھی اسی ’’متبادل حقیقت‘‘ کو آگے بڑھایا اور وقت کے گزرنے کے ساتھ یہ پاکستانیوں کے عقیدوں کا ویسے ہی حصہ بن گئی جس طرح ڈونلڈ ٹرمپ یا ہندتوا کے نظریات ہیں۔

پچھلی دو تین دہائیوں سے تو سچائی کے الٹ تصوراتی بیانیہ اور ’’متبادل حقیقتوں‘‘ کا دور شروع ہو چکا ہے۔ افغان جنگ سے لے کر پاک۔ امریکہ تعلقات تک ایک ’’متبادل حقیقتوں ‘‘ پر مبنی بیانیہ بن چکا ہے جس کو پاکستان سے باہر دنیا کے کسی حصے میں تسلیم نہیں کیا جاتا۔سیاسی سطح پر بھی موجودہ حکمران پارٹی کے کرپشن، شریف خاندان کی لوٹ مار اور بیرونی دنیا میں پاکستان سے لوٹے ہوئے کئی سو بلین ڈالر کا بیانیہ بھی ’’متبادل حقیقت‘‘ کے زمرے میں آتا ہے۔ طاقتور ریاستی ادارے اپنے ’’متبادل حقیقتوں‘‘ کے بیانیے کے بارے میں سوال اٹھائے جانے کو غداری سے تعبیر کرتے ہیں۔ اب تو پانی کی فراہمی کے بارے میں معروضی بحث کی گنجائش موجود نہیں ہے کیونکہ اس طرح کے حقائق بیان کرنے پر آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت سزا ہو سکتی ہے۔ غرضیکہ اب پاکستان میں ’’متبادل حقیقتوں‘‘ کا مکمل غلبہ ہے۔ امریکہ اور ہندوستان کی معیشتیں تو کافی تیز رفتاری سے ترقی کر رہی ہیں جس کی وجہ سے صدر ٹرمپ کی دروغ گوئی اور نریندر مودی کا ہندتوا کا غیر حقیقی بیانیہ ہضم کیا جا رہا ہے ۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کی رو بہ زوال معیشت کی موجودگی میں ’’متبادل حقیقتوں‘‘ کا بیانیہ کیارنگ لائے گا؟

تازہ ترین