• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انداز بیاں … سردار احمدقادری
بات اشعار کی ہے تو اشعار سے ہی حوالہ دیا جائے گا۔ یہ کوئی فقہ، منطق اور اصول و معافی کا معاملہ نہیں ہے کہ جہاں جزیات وکلیات پر غور ہوگا۔ ایک ایک حرف اور لفظ کے ماخذ اور مضمرات پر بحث ہوگی شعروں کی دنیا اپنی دنیا ہوتی ہے۔ اس میں سب سے اہم بات شاعر کے مزاج کو سمجھنا ہوتا ہے اور وہ جو کچھ کہنا چاہتا ہے اس کی تہہ تک پہنچنا ہوتا ہے ورنہ اگر صرف ظاہری الفاظ پر غور کیا جائے تو جگہ جگہ رکنا پڑے گا۔ لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب جیسے لافانی شعر کی توجیہ کرنا پڑے گی۔ الفاظ کی حقیقت سمجھنا پڑے گی۔ عارف بااللہ ولی کامل شیخ طریقت حضرت سلطان العارفین سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ کے اس شعر کو اگر صرف ظاہری لفظوں کو سامنے رکھ کر ہی پرکھا جائے گا تو فتویٰ لگانے والے دیر نہیں لگائیں گے فتویٰ صادر کریں گے ۔ بہت مشہور شعر ہے اور زبان زد عام و خاص ہے۔
مرشددا دیدار وے باہو
مینوں لکھ کروڑاں حجاں ہو
یعنی میرے لئے میرے مرشد کا دیدار لاکھوں کروڑوں مرتبہ حج کرنے سے بہتر ہے۔ اب لگایئے فتویٰ اس شعرپر! کہاں حج بیت اللہ کہاں مرشد کا صرف دیدار۔؟
حج بیت اللہ ارکان اسلام میں سے ایک رکن ہےبیت اللہ پر پہلی نظر پڑتے ہی جو دعا مانگی جائے قبول ہوتی ہے۔ خانہ کعبہ کا دیدار عبادت ہے اور مرشد کا دیدار ؟؟ سلطان باہو کیوں کہہ رے ہیں کہ مرشد کا دیدار مجھے لاکھوں کروڑوں حج کرنے سے بہتر ہے ، صاف ظاہر ہے کہ یہی تاویل کی جائے گی کہ مرشد کامل ضروری ہے جس کا ذکر سورہ الکہف میں کیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ اللہ رب العالمین جسے گمراہ کرتا ہے تو اسے ولی مرشد نہیں ملتا مطلب یہ ہے کہ جس کو ہدایت کے نور سے منور فرمایا ہے اسے ولی مرشد مل جاتا ہے ایسا مرشد آپ کا تعلق اللہ رب العالمین سے مستحکم اور مضبوط کردیتا ہے۔ اس کے دیدار کا مطلب اسی کی صحبت اورمحفل میں بیٹھنا اورر شد و ہدایت کا پیغام حاصل کرنا ہے جس کی طرف مولانا جلال الدین رومی نے توجہ دلائی ہے ۔
یک زمانہ صحبت با اولیاء
بہتر از صد سالہ طاعت بے ربا
یعنی اولیاء اللہ کی صحبت میں ان کے ساتھ چند لمحے گذارنا ایک سو سالہ بے ربا عبادت ہے بہتر ہے۔ کیونکہ مرشد کامل دلوں کا تزکیہ کرتا ہے اور عبادات میں حضوری کی کیفیات پیدا کرتا ہے اور نفس کی ’’میں‘‘ یعنی انسانیت کو ختم کرتا ہے ورنہ اس کے بغیر صورتحال کچھ یوں ہوتی ہے جس کی طرف بابا بلھے شاہ رحمۃ اللہ علیہ اشارہ کررہے ہیں۔
مکے گیاں گل بنڑی نا ہیں
جے میں نوں دلوں نہ مکایئے
یعنی جب تک میں ہی بہتر ہوں جیسی کیفیت سے نہ نکلو گے تو مکہ جاکر بھی ویسے کے ویسے ہی رہو گے تو جس طرح مرشد کا دیدار حج بیت اللہ سے بہتر ہونے کے شعر کی توجیہ کی جائے گی اس طرح اس مشہور رباعی کے آخری شعر کی توجیہ کی جائے گی۔
شاہ ہست حسین بادشاہ ہست حسین
دین است حسین دیں پناہ است حسین
سردار نہ دار دست دردست یزید
حقیٰ کہ بنائے لا الہ است حسین
اس رباعی کا مفہوم یہ ہے۔ شاہ حسین ہے بادشاہ حسین ہے دین حسین ہے دین کا محافظ حسین ہے اپنا سر قربان کردیا لیکن یزید کے ہاتھ میں ہاتھ نہ دیا۔ یہاں تکہ لا الہ کی بنیاد حسین ہے۔ کچھ لوگ تو اس بحث میں پڑے ہوتے ہیں کہ یہ رباعی حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کی ہے جیسا کہ مشہور ہے۔ یا ان کی نہیں ہے بلکہ کسی اور شاعر کی ہے جس کا نام معین الدین سنجری تھا۔ میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا۔ کلام کسی بھی طرف منسوب ہے دراصل یہ کلام محبت امام حسینؓ میں ڈوب کر لکھا گیا ہے جس طرح اعلیٰ درجے کے ہر کلام میں کچھ رمز کچھ ارشاد اور کچھ خفیہ معانی ہوتے ہیں اس رباعی میں بھی ہیں لیکن یہ رباعی یزید کی طرف نرم گوشہ رکھنے والے لوگوں سے ہضم نہیں ہوتی تو کبھی شاعر کی نسبت سوال اٹھا دیتے ہیں اور کبھی بنائے لا الہ است حسین، پر اعتراض کرتے ہیں حالانکہ یہ اشعار کا معاملہ ہے اور شعر کے رموز شعر کے اوزان اور شعر کے لطیف پیرائے کو سمجھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ شعر میں وزن قائم رکھنے کے لئے کچھ الفاظ بعض مرتبہ محذوف ہوتے ہیں۔ اس راز کو شعر کا مزاج سمجھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں لیکن بات وہی ہے ’’رموز سر دل بے دل چہ داند‘‘ دل کے راز وہ شخص کیا جانے جس کا دل ہی نہیں۔ یعنی اس کے احساسات ہی نہیں ہیں۔ شاعر جب یہ کہہ رہا ہے کہ ’’حقیٰ کہ بنائے لا الہ است حسین‘ تو اس میں پوشیدہ اور مضمر بات ہے کہ حقیٰ کہ بنائے لا الہ است حسین، یعنی لا الہ کے راز کی بنیاد امام حسین نے مستحکم کی ہے یعنی شعر کے وزن کی موزونیت کی وجہ سے شعر اس طرح ہے جس طرح لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔ اب لا الہ کہنے کی حقیقت کیا ہے۔ اقبال نے کہا تھا
خرد نے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلمان نہیں تو کچھ بھی نہیں
جب ایک کلمہ گو مسلمان لا الہ الا اللہ کہتا ہے تو وہ تمام جھوٹے خدائوں تمام معبودان باطل سے بے زاری کا اعلان کرتا ہے اور وہ زبان دل و فکر سے یہی عقیدہ رکھتا ہے ۔ لا معبود الا اللہ لا مطلوب الا اللہ، میں اللہ کے علاوہ کسی اور کی عبادت نہیں کرتا میرا مطلوب اللہ کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے۔یزید اور اس کی حکومت کے افراد اور اس کی ہدایات کے تحت کام کرنے والی وہ فوج جو قافلہ حسین پر حملہ آور ہوئی تھی وہ زبان سے تو کلمہ توحید پڑھتے تھے لیکن ان کے دل میں دنیا ، جاہ و عزت اور اقتدار کی محبت موجود تھی۔ امام حسین کا الہ صرف اللہ رب العالمین تھا اور تاریخ نے اس کی گواہی دی ہے یزید کا ’’آلہ‘‘ اس کا اقتدار اس کی حکومت اور اس کی عیاشیاں اور ظلم و ستم پر مبنی اس کی سلطنت تھی، امام حسین نے لا آلہ کی بنیاد کو استحکام بخشا اور ایسا استحکام بخشا کہ ’’تومن شدی من تو شدی‘‘ کے مصداق اب امام حسین لا الہ کے نظریئے کی بنیاد کے طور پر ایک علامت ایک استعارہ اور ایک حوالہ بن چکے ہیں۔یاد رکھئے کہ امام حسینؓ امت مسلمہ میں وہ پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے عملی طور پر یہ نظریہ دیا کہ اگر مسلمانوں کا حکمران یزید جیسا ظالم فاجر عیاش اور بد کردار ہو تو پھر مدینہ منورہ میں بیٹھ کر دعائیں کرنے سے بہتر ہے کہ میدان کربلا میں پہنچ کر باطل کو للکارا جائے اور پھر وہ مقام آیا کہ اقبال کے بقول ’’معنی ذبح عظیم آمد پسر‘‘ قرآن پاک کی عظیم بشارت کے مصداق بن گئے۔ تاریخ اسلام کوئی ایسی مثال پیش نہیں کرسکتی کہ امام حسینؓ کی طرح کسی شخصیت نے ظالم حکمران کے خلاف لا آلہ کی بنیاد کو مضبوط کرنے کے لئے ایسی عظیم قربانیاں دی ہوں جن کو یزید اور اس کی حکومت سے ہمدردی ہو وہ دعا کریں کہ روز محشر اللہ تعالیٰ ان کا حشر یزید اور اس کے ٹولے کے ساتھ کرے۔ یہ ادنیٰ گدائے اہل بیت اور سیدنا امام حسینؓ کا شیدائی دست دعا دراز کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ محبان اہل بیت اور امام حسینؓ کو یوم قیامت سیدنا علی المرتضیٰؓ اور ان کے شہزادوں کا قرب اور معیت نصیب فرمائے اور ان کے دستک رم سے جام کوثر عطا فرمائے۔(آمین)
تازہ ترین