• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سینے میں خیالات کا تلاطم اور ایشوز کے حوالے سے احساسات کا طوفان ہے مگر جدھر کا رخ کریں سامنے جبر کی دیواریں ہیں۔ پروردگار توُ نے کس دیس میں پیدا کر دیا جس کے سینکڑوں باسی جبر کی ذلت پر اگر خوش نہیں بھی تو بے حس ضرور دکھتے ہیں، آخر ان کے اندر کب حقائق کو جانچنے اور اپنے بنیادی انسانی و جمہوری حقوق سے آگہی ہوگی۔ ہر روز اس قدر مسائل موضوعات کی صورت ذہن کے کینوس پر نمودار ہوتے ہیں کہ جی چاہتا ہے دن میں دو دو کالم لکھے جائیں مگر ’’عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب ۔دل کا کیا رنگ کروں خونِ جگر ہونے تک ‘‘۔ہماری سوسائٹی کو جبری شکنجے میں کسنے کی سوچ مخصوص مفادات کے زیرِ اثر ہے وگرنہ جنہیں قوانین و ضوابط کی حرمت سکھلائی جانی چاہیے اُن کے لیے کیا قانون کیا آئین۔ دنیا بھر میں قوانین سازی کی حکمت اس اصول میں پنہاں ہے کہ قانون طاقتوروں اور منہ زوروں کو کنٹرول کرے گا، نسبتاً کمزور طبقات کا سہارا بنے گا جبکہ ہمارے یہاں کا دستور ہی نرالا ہے۔ یہاں قانون طاقتوروں کے لیے بھیگی بلی ہے جبکہ کمزور و ناتواں طبقات کے لیے ڈراؤنا خواب ہے۔ ہم پوچھتے ہیں کہ ہماری پارلیمنٹ کو اس قدر کمزور بنا کر کیوں رکھا گیا ہے کہ وہ اپنے ماتحت اداروں کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرأت نہیں رکھتی جبکہ غریب عوام کے کمزور نمائندوں کی تذلیل کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا۔ آخر پارلیمنٹ کو کس نے اس قدر دھمکا رکھا ہے کہ طاقتوروں یا ان سے منسلک ہستیوں کی بات آئے تو سب چپ سادھ لیتے ہیں یا پھر استثنیٰ کی مناجات و تسبیحات شروع کر دی جاتی ہیں۔ اگر آئین اور قانون کی نظروں میں تمام شہری برابر ہیں تو پھر یہ کون سے ایسے پردہ نشین ہیں جو تمام تر احتسابی قوانین ،شکنجوں بلکہ تنقیدوں سے بھی ماورا ہیں ۔

یہاں کروڑوں پاکستانیوں کے محبوب منتخب نمائندوں کو تو پھانسیوں پر بھی چڑھایا جا سکتا ہے، ملک بدریوں کے ساتھ جیلوں میں بھی پھینکا جا سکتا ہے لیکن کچھ طاقتوروں کے متعلق دو واضح لائنیں لکھنے کی بھی اجازت نہیں۔ اے میری مظلوم قوم کے پیارے دانشورو! اس چھپے اور ظاہری ظلم کے خلاف کب بولو گے؟ تمہارے ضمیر کب جاگیں گے؟ کیا تمہیں یہ دکھائی نہیں دیتا کہ منتخب سیاستدانوں کے خلاف، پڑھائی گئی پٹی کے عین مطابق، زہر اگلتے ہوئے باچھوں سے تھوک نکل رہی ہوتی ہے لیکن جونہی طاقتوروں کی بات آتی ہے تو بولتی بند ہو جاتی ہے۔

آج ارادہ تھا کہ خواتین کو یکبارگی تین طلاقوں کی ادائیگی پر اظہارِ خیال کیا جائے گا لیکن چند روز قبل قومی اسمبلی میں جو کچھ ہوا طاقتوروں کی چاپلوسی میں منتخب نمائندوں کے متعلق جو تیسرے درجے کی زبان استعمال کی گئی اس پر دل کے پھپھولے مجبور کر رہے ہیں کہ نہ صرف سید خورشید شاہ صاحب کی معاملہ فہمی اور زیرکی کو سلام پیش کیا جائے بلکہ اُن کی پارٹی کے نوجوان لیڈر کی بھی ہمت بندھائی جائے کہ اب آپ بڑے ہو جاؤ اور بی بی کا بیٹا بن کر دکھاؤ۔ اپنے والد صاحب کی خدمت میں سندھی اسلوب کا دست بستہ سلام پیش کرتے ہوئے کہو کہ میں اپنے تمام بزرگوں سے پوری مشاورت کرونگا لیکن مجھے خود سوچنے اور آگے بڑھنے دیں۔ آپ نے نوابزدہ نصراللہ جیسے جمہوری لیڈر کی برسی پر جو تقریر کی، اس سے آپ نے بی بی کے چاہنے والوں کو ہی نئی امنگ نہیں دی بلکہ خود اپنا قد کاٹھ بھی قدرے بہتر کیا ہے ۔

انٹرنیشنل ریلشنز اور ملک کی خارجہ پالیسی پر آپ کی والدہ محترمہ کی خصوصی دسترس تھی ذرا ان حوالوں سے اُن کی تقاریر کو ملاحظہ کرتے ہوئے اور سستی شہرت کے لیے تنگ نظری پر مبنی نعروں سے احتراز کرتے ہوئے نہ صرف ملک و قوم کی بھلائی کا نظریہ پیش کریں بلکہ اس پورے خطے، جنوبی ایشیا میں امن و سلامتی کے حوالے سے بھی مثبت سوچ کا برملا اظہار بلا خوشامد کریں ادارہ جاتی تعلق ضرور بنائیں کسی کو بے وجہ چڑانے کی قطعی ضرورت نہیں لیکن اس کے لیے نان ایشوز کے کیچڑ میں گرنے سے اجتناب فرمائیں ۔ کھلاڑی کی مثال آپ کے سامنے ہے اس طرح سے کچھ حاصل کرنے سے بہتر ہے آپ باوقار طریقے سے اپوزیشن میں بیٹھیں، وقت بد ل جاتا ہے۔ عوام کی حاکمیت کے دن ضرور آئیں گے۔ آج ن لیگ کے قائد اور ان کی بیٹی جیلوں میں آجا رہے ہیں تو یہ ایسے ہی ہے جیسے آپ کی والدہ کو جیلوں کی صعوبتیں اٹھانا پڑیں مگر آج کوئی ان ڈکٹیٹروں کا نام لینے کے لیے تیار نہیں۔

ہمارے اہل سیاست کو بھی غور کرنا چاہیے آج ان لوگوں نے یہ کس نوعیت کی بحثیں چھیڑ رکھی ہیں کبھی کہا جاتا ہے کہ وزیراعظم ہاؤس میں نہیں رہیں گے، صرف دو گاڑیاں اور دو ملازم رکھیں گے، آج وزیراعظم ہاؤس کی آٹھ بھینسیں، کٹیاں اور کٹے 23لاکھ دو ہزار میں بیچے جارہے ہیں، پہلے گاڑیاں نیلام کی گئی ہیں، ہم پوچھتے ہیں ان تماشوں کا حاصل کیا ہے؟ کیا یہ قوم کے ایشوز ہیں؟ قوم کا ایشو مہنگائی ہے۔ جب آپ وزیراعظم ہاؤس یا دیگر عمارات کی تحقیر کرتے ہیں تو ذرا سوچیے کہ اس طرح آپ کس کی خدمت کرتے ہیں؟

ہمارے اصل ایشوز غربت جہالت، بیروزگاری اور بیماری ہیں، لوگ انصاف کے لیے رُل رہے ہیں۔ خواتین اور اقلیتوں کے حوالے سے سوسائٹی میں امتیازی رویے ہیں، انتہا پسندی ہمارے گلی محلوں میں گھسی ہوئی ہے ۔آزادی اظہار اور احترامِ انسانیت سوسائٹی سے ناپید ہے، قانون کی کوئی وقعت نہیں اور ہو بھی کیسے سکتی ہے جب سب سے بڑے قانون اور آئین ساز ادارے پارلیمنٹ کا کماحقہ احترام نہیں کرتے۔ جو کام وزیر خارجہ کے کرنے کا ہے، وہ کوئی اور کرتا پھر رہا ہے لہٰذا جس جس کا جو کام ہے براہ کرم خود کو اسی تک محدود رکھے۔ وزیراعظم نے بہت اچھا کیا کہ سعودی عرب پر حملے کو اپنے اوپر حملہ قرار دیا اور اپنے اس دیرینہ آزمودہ دوست کو سی پیک میں تیسرا پارٹنر تسلیم کرتے ہوئے وفود کے تبادلے ہونے جا رہے ہیں۔ اس سے پاک امریکا تعلقات میں بھی معاونت مل سکتی ہے۔ حکومت کو ہمارا مشورہ ہے کہ وہ نان ایشوز میں الجھنا چھوڑ کر اصل قومی ایشوز پر آجائے۔ پہلے سو دن کے جو وعدے قوم سے کئے گئے تھے انہیں پورا کرنے کا اہتمام کرے ۔

تازہ ترین