• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ندیم فیصل آباد میں ایک بہت ہی اچھے کاروبار سے منسلک ہے، قدرت نے کھلا رزق دے رکھا ہے۔ زندگی کی تمام نعمتیں اللہ تعالیٰ نے عطا کر رکھی ہیں۔ ندیم سے میری ملاقات انگلینڈ میں پڑھائی کے دوران ہوئی تھی، پھر بات دعا سلام سے بڑھتی ہوئی دوستی میں تبدیل ہوگئی۔ گزشتہ ہفتے ندیم اسلام آباد آیا تو اس سے ملاقات ہوئی۔ حسبِ سابق اس کے پاس مشہور کمپنی کی بڑی گاڑی تھی اور اندر باہر کمپنی کے نصب کردہ کیمروں کے علاوہ میرے اس دوست نے گاڑی میں اتنے جدید آلات نصب کر رکھے تھے کہ معلوم ہوتا تھا یہ گاڑی فیصل آباد کے ندیم کی نہیں بلکہ ہالی ووڈ کے ہیرو جیمز بانڈ کی ہے۔ ندیم کا کہنا تھا کہ وہ جب بھی امریکہ یا انگلینڈ جاتا ہے تو ہمیشہ گاڑی کے لیے کوئی نئی چیز لے کر آتا ہے جو پاکستان میں کہیں سے نہیں ملتی۔ جب میں ندیم کے ساتھ اس کے اصرار پر اس کی گاڑی میں بیٹھا تو اُس نے اپنے جدید ترین موبائل فون سے، جو وہ ایک ہفتہ قبل دبئی سے لایا تھا، مجھے اپنے گھر کے نئے فرنیچر کی تصویریں دکھانا شروع کر دیں، یہ سارا فرنیچر اس نے اٹلی سے امپورٹ کیا تھا۔

میں نے ندیم سے پوچھا کہ اسلام آباد کیسے آنا ہوا تو اس نے گاڑی سائیڈ پر روکی اور پچھلی سیٹ سے ایک ڈبا اٹھا لیا جس کے اندر ایک سنہرے رنگ کی پیکنگ میں ایک بین الاقوامی برانڈ کی امپورٹڈ چاکلیٹ تھی۔ ندیم کا کہنا تھا کہ یہ چاکلیٹ اسے نہ لاہور سے ملی اور نہ ہی فیصل آباد سے چونکہ اسلام آباد میں بہت سے فارنر رہتے ہیں تو اس کو لگا شاید یہ چاکلیٹ اسے اسلام آباد سے مل جائے۔ اس کی بات درست ثابت ہوئی اور ایک مہنگے اسٹور سے انتہائی مہنگے داموں پر اس نے امپورٹڈ چاکلیٹ خرید لی۔

ہم سنتے آ رہے ہیں کہ پاکستان کا آج کل سب سے بڑا مسئلہ تجارتی خسارہ (Trade Deficit) ہے۔ آسان الفاظ میں تجارتی خسارہ تب ہوتا ہے جب کسی ملک کی درآمدات برآمدات سے تجاوز کر جاتی ہیں۔ یعنی کمائی اخراجات سے کم ہو جاتی ہے۔ بہت سی ایسی ضرورت کی اشیاء ہیں جن کو درآمد کیے بغیر ہمارا گزارا نہیں ہو سکتا جیسے کہ صرف اس سال اپریل کے مہینے میں پاکستان نے 5ارب روپے کی ساڑھے چودہ ہزار ٹن چائے کی پتی درآمد کی۔ ہم نے پچھلے مالی سال 13ارب ڈالرکا پیٹرول درآمد کیا جبکہ ہماری کل برآمدات صرف 25ارب ڈالر کے لگ بھگ رہیں۔

ندیم کی مثال انوکھی نہیں ہے۔ ہم سب کو امپورٹڈ چیزوں سے خاص لگاؤ ہے اور اپنی جیب اور حیثیت کے مطابق انہی کو ترجیح دیتے ہیں۔ آپ کسی دکان پر بھی چلے جائیں تو دکاندار آپ کو فخر سے بتاتا ہے کہ فلاں چیز امپورٹڈ ہے اور ہم خوشی خوشی پاکستانی پراڈکٹ کو ردّ کرکے امپورٹڈ پراڈکٹ خرید لیتے ہیں۔

اگر ہم امپورٹڈ شوز، امپورٹڈ سوٹ، امپورٹڈ ڈائپرز، امپورٹڈ فاسٹ فوڈ اور امپورٹڈ چاکلیٹس کے لیے شہر شہر پھرتے رہیں گے جبکہ ہماری برآمدات روز بروز کم ہو رہی ہوں گی تو ہمارا تجارتی خسارہ کیسے کم ہو گا؟ ہم آئی ایم ایف اور دوست ممالک سے کب تک بھیک مانگتے رہیں گے؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

twitter:@am_nawazish

تازہ ترین