اسلام آباد (نمائندہ جنگ) صدر مملکت ، عارف علوی نے کہا ہے کہ ملک میں پانی کے بڑے ذخائر کی تعمیر ناگزیر ہے،اللہ تعالی نے پاکستان کو وسائل سے مالا مال کیا ہے، پاکستان کو بہترین نہری نظام ملا تھا لیکن قیام پاکستان کے بعد منگلا اور تربیلا سمیت چند ہی ڈیم بنائے گئے اور وقت کے ساتھ ساتھ پانی کے استعمال میں اضافہ اور ذخائر میں کمی ہوئی ہے ، پانی کو محفوظ اور ذخیرہ کرنا بنیادی مسئلہ ہے اورڈیم بنانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، صرف 30؍ دن کا پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے، بھارت کیساتھ سندھ طاس معاہدہ کے حوالے سے مذاکرات ضروری ہیں، ڈیم نے بنے تو 60ء؍ کی دہائی سے پہلے والی حالت ہوگی، ہمیں پائیدار ترقیاتی اہداف کے حصول کیلئے پانی کا مسئلہ حل کرنا ہوگا، تھر میں پانی کی کمی سے بچے موت کا شکار ہو رہے ہیں، بڑے ذخائرکی تعمیرناگزیرہے۔ جبکہ چیف جسٹس ثاقب نثارنے کہاہےکہ ڈیم بناناوقت کی اہم ترین ضرورت ہے، 40؍ سال مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا گیا، فوری اقدامات نہ کئے تو 7 سال بعد پاکستان کو خشک سالی کا سامنا ہوگا، ہمیں پائیدار ترقیاتی اہداف کے حصول کیلئے پانی کا مسئلہ حل کرنا ہوگا،بڑے ذخائرکی تعمیرناگزیر، قومی آبی پالیسی پر انتظامیہ کا کلیدی کردار ہے۔ جمعہ کے روز سپریم کورٹ میں ملک میں پانی کی قلت اور مسائل سے متعلق دو روزہ سمپوزیم کے شرکاءسے خطاب کرتے ہوئے صدر مملکت عارف علوی نے کہاکہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بھی پانی کے حساس مسئلے کو اجاگر کیا ہے، پاکستان میں 30 دن کا پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے، اگر ہم نے نئے آبی ذخائر نہ بنائے گئے تو زراعت کیلئے پانی کی فراہمی 1960ء کی دہائی سے پہلے کی سطح پر آجائے گی۔ لہٰذا اس وقت فوری طور پر بڑے ذخائر کی تعمیر ناگزیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ کم خرچ توانائی کے ذرائع کو بروئے کار لایا جائے، سورج اور ہوا کے ذریعے توانائی کے حصول پر بھی کام ہونا چاہیے، تھرپارکر میں پانی کی کمی کے باعث بچے موت کا شکار ہو رہے ہیں، جبکہ قومی آبی پالیسی موجود ہے جس پر عملدرآمد کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ قلت آب پر قابو پانے میں شجر کاری بھی کردار ادا کرسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 14 اکتوبر تک 6 ارب روپے سے زائد رقوم ڈیم فنڈز میں جمع ہوچکی ہے۔ سمپوزیم سے خطاب کرتےہوئے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ پاکستان شدید آبی بحران کا شکار ہے، پانی کی قلت دور کرنےکیلئے مزید وسائل پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے، پانی زندگی ہے اور ہماری بقاء کا مسئلہ ہے جس کے حوالے سے پچھلے 40 سالوں کے دوران مجرمانہ غفلت برتی گئی ہے ،آج وقت ہے کہ کچھ کریںیا مرجا ئیں ،ہم ڈو آر ڈائی ʼ جیسی پو زیشن میں ہیں ،ڈیم وقت کی اہم ترین ضرورت ہے،پہلے کر نے والے کامو ں کو پہلے کیا جا ئے اور پانی کی اہمیت کو محسوس کیا جائے تا کہ بطور قوم ہم پاکستان کے پانی کے مسئلے پر قابو پاسکیں، پاکستان کو قلت آب سے نمٹنے کیلئےفوری اقدامات کرنا ہونگے، فوری اقدامات نہ کئے تو 7 سال بعد پاکستان کو خشک سالی کا سامنا ہوگا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ابھی وقت ہے کہ ہم اپنی ماضی کی کوتاہیوں پر قابو پالیں، پانی کی فراوانی سے ملک میں زراعت کے شعبے کی ترقی ممکن ہوسکے گی جبکہ پانی کے استعمال میں بھرپور احتیاط اور کفایت شعاری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ورلڈ ریسورس انسٹیٹیوٹ کے مطابق 2040تک پاکستان پانی کی شدید قلت کے شکار کل 33 ممالک میں سے 23ویں نمبر پر آجائیگا، پاکستان کو فوری طور پر اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ انہوںنے کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنے ایک حالیہ فیصلے میںپانی کی کمی کی وجہ سے خطرات کا ذکر کیا ہے اور انتظامیہ کو ہدا یت کی ہے کہ وہ دیا میر بھا شا اورمہمند ڈیم کی تعمیر شروع کر نے کیلئے تمام تر اقدامات اٹھائے،اس ضمن میں ہم نے قوم سے اپیل کی ہے کہ وہ ڈیمز فنڈزکیلئے چندہ دیں، ہم قوم کے مثبت ردعمل کے انتہائی مشکور ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب یہ چندہ مہم میں رقم جمع کی جا رہی تھی تو اس دوران میں بعض اوقات جذباتی ہو گیا ،جو لوگ پانچ ہزار رو پے پنشن لے رہے تھے۔ انہو ں نے بھی ڈیم فنڈز میں چندہ دیا ،میں نے اس دوران بچو ں سے بھی چندہ وصول کیا جو ایک جذبہ ہے جسکے تحت انہو ں نے چندہ مہم میںحصہ لیا ،اب ڈیمز فندزکیلئے چندہ کا حصول ایک با قاعدہ مہم میں تبدیل ہو گئی ہے ،ہمیں خوشحالی کیلئے پانی کو محفو ظ بنانا ہے ، پانی کے بغیر زندگی کا وجود ناممکن ہے، زرعی ملک کے طور پر پاکستان کیلئے پانی نہایت اہم ہے لیکن پاکستان میں آبی ذخائر تیزی کے ساتھ ختم ہوتے جارہے ہیں، انسان خوراک کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے لیکن پانی کے بغیر نہیں۔ انہوں نے کہا کہ مستقبل میں پا کستا ن آبی قلت کا شکار ہو سکتا ہے اس لیے دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کیلئے ایمرجنسی بنیادوں پر اقدامات کیے جارہے ہیں، ملک کے آبی ذخائر میں اضافے کیلئے عدلیہ بھی کردار ادا کر رہی ہے، ہمارے پاس بڑے ڈیموں کی تعمیرکیلئے سرمایہ نہیں اس لیے بڑے ڈیموں کی تعمیرکیلئے فنڈ قائم کیا،ہمیں اپنی قوم کو خشک سالی، قحط اور سیلابوں سے بچانا ہوگا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ قوم کو اس وقت پانی کی شدت کے معاملے میں آگا ہی حاصل ہو گئی ہے ،لیکن یہ بد قسمتی ہے کہ پانی کے معا ملے کو گزشتہ ایک دہا ئی سے سنجیدگی سے نہیں لیا گیا اب بھی یہ نہیں کہتے کہ اب بہت دیر ہو گئی ہے ، یہ سمپوزیم اس یا د دہا نی کیلئے منعقد کرا ئی جا رہی ہے کہ پاکستان کو جن پانی کے مسائل کا سامنا ہے وہ حقیقی مسائل ہیں اور اس مرحلے پر ان مسائل کو حل کیا جائے ،کہیں ایسا نہ وہ کہ ہماری پیاری قوم قحط سالی، سیلابو ں اور ماحولیاتی تبدیلی کا شکار ہو جائے۔