• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایڈیٹوریل بورڈ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تجارتی پالیسی کیلئے ایک بات کہ جاسکتی ہے کہ یہ ایک لمحے کیلئے بھی غیر دلچسپ نہیں رہی۔بدھ کو امریکی وزیر تجارت ولبر راس برسلز گئے اور الزام لگایا کہ یورپی یونین میں مذاکرات کو غیر ضروری طول دینے کی کوئی غیر واضھ شرط نہیں۔ اس طرح انہوں نے جولائی سے پائے جانے والے مضطرب امن کو خطرے میں ڈال دیا،یورپ سے برآمد ہونے والی کاروں پر امریکی ٹیرف عائد ہونے کے خطرے سے بچنے کیلئے جب یورپی کمیشن کے صدر جین کلاڈ جنکر اور ڈونلڈ ٹرمپ نے دو طرفہ معاہدوں پر مذاکرات کا اعلان کیا۔

اس ہفتے کی خلل اندازی کی اہمیت کو کچھ شکوک و شبہات کے ساتھ سمجھا گیا۔ ٹرمپ انتظامیہ میں ولبر راس تجارت پر رائے کے وسیع موضوع کی جارحانہ اختتام کی جانب ہیں۔ حقیقی مذاکرات امریکی تجارتی نمائندہ رابرٹ لائٹ ہائزر کے ذریعے جاری ہیں۔یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ آیا مذاکرات کیلئے موجودہ مرحلہ وار حکمت عملی برقرار رہ سکے گی۔

کاروں کے علاوہ صنعتی اشیاء پر تمام ٹیرف کم ہوکر صفر کرنے ، اس کے علاوہ یورپ کے مزید سویابین اور مائع قدرتی گیس خریدنے کے بارے میں کچھ علامتی بات چیت کے دو طرفہ معاہدہ کی جانب ٹرمپ جنکر ہم آہنگی تھی۔ تاہم یورپی یونین کی رکن ریاستوں، یورپی پارلیمنٹ اور حتیٰ کہ کمیشن کے حصوں کے درمیان اس بارے میں وسیع اضطراب پایا جاتا ہے۔ بہت سے لوگ اس حوالے سے مطمئن ہیں۔ اسے ضرورت ہے کہ یورپی یونین اپنے قوانین توڑے جو صرف معاہدے پر دستخط کیلئے ضروری ہیں جو تقریبا تمام تجارت کا احاطہ کرتا ہے اور صرف حکومتوں کے ساتھ جو امریکا کے برعکس، ماحولیاتی تبدیلی پر پیرس معاہدے کیلئے پرعزم ہیں۔

لائٹ ہائزر اور یورپی یونین تجارتی کمیشن کی سیسلیا مالمسٹوم نے اشارہ دیا ہے کہ وہ مزید بنایدی معاہدے پر بیعانہ کے طور پر کچھ معمولی ریگیولیٹری تعاون کا اعلان کرنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔ اسے یہ فائدہ حاصل ہے کہ اسے یورپی پارلیمانی یا امریکی کانگریس کی منظوری کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن یہ ہووسکتا ہے امریکی صدر کو متغیر نہ رکھ سکے جیسا کہ ڈونلڈ ٹرمپ طویل عرصے اس طرح خوش ہیں۔ یورپی یونین کو کسی بھی ٹیرف کی جارحیت کی تجدید کیلئے تیار رہنا ضروری ہے۔

امریکا اور چین کے مابین تنازع میں اسی طرح سچ ہے، جہاں کوئی جنگ بندی نہیں ہوئی ہے۔ یقینا،تبادلے کی شرح کے لحاظ سے، تجارتی پالیسی پر موجودہ جنگ آسانی سے دوسروں محاذوں پر پھیل سکتی ہے۔ اس ہفتہ امریکی خزانہ،جیسا کہ 1994 سے ہے،اس موضوع پر اس کی سالانہ دوسری رپورٹ میں چین کو بطور کرنسی کی ساز باز کرنے والے رسمی نامزد کرنے سے انکار کردیا۔ گزشتہ حکومتوں کی طرح ٹرمپ انتظامیہ اس کے خلاف مذمت کرتی ہے جسے وہ کہتے ہیں کہ کسی آفیشیلی عرفیت بنائے بغیر رینمنبی کم قیمت ہے۔

چین کی نامزدگی کا عمل بیجنگ کے ساتھ امریکی انتظامیہ کیلئے مذاکرات شروع کرنے کی ضرورت سے زیادہ کوئی مضمرات نہیں ہیں۔ لیکن یہ انتہائی علامتی لمحہ ہوگا۔اگر رینمینبی کے مزور ہونے کا عمل جاری رہے، ڈونلڈ ٹرمپ ہوسکتا ہے جنگ کے راستے پر دوبارہ چلے جائیں۔ امریکا کا چین کو مشتبہ سمجھنا امریکی ٹیرف کے خلاف بدلے کی صورت میں کرنسی کی قدر میں کمی کی منظوری دے گا۔

سرمائے کی پرواز کو ایک مکمل بھرپور تحریک دینے کیلئے استعداد دی جیسا کہ 2015 میں جس نے عالمی مارکیٹوں کو ہلا کر رکھ دیا،چین اس طرح کی حکمت عملی کی کوشش کیلئے بے دھڑک اقدام کرنے والا ہوگا۔تاہم یہ اس بات کی ضمانت نہیں دیتا کہ وہ واشنگٹن سے کمزور کرنسی کیلئے الزامات سے بچیں گے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی تجارتی پالیسی کے منطقی بنانے کی کوشش کررہے ہیں،مذاکرات میں ابھی تک کم سے کم بامعنی مشغول ہے، کم از کم اس کے اندرونی تقسیم اور تضادات کی وجہ سے تقریبا ناممکن کام ہے ۔ ٹرمپ انتظامیہ میں بین الاقوامی معاشی ٹیم کے اندر معقول اور غیر معتدل عناصر دونوں اس ہفتے ظاہر ہوگئے تھے۔ امریکا کے تجارتی شراکت داروں کو آگاہ ہونے کی ضرورت ہے کہ دونوں میں سے ایک اچانک کامیاب ثابت ہوسکتے ہیں۔چنانچہ انہیں اس کے ردعمل کیلئے تیار رہنا چاہئے۔ 

تازہ ترین