• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹرمپ کا روس کے ساتھ جوہری معاہدے سے امریکا کو الگ کرنے کا عندیہ

واشنگٹن : کترینہ مینسن

ماسکو: ہنری فوئے

نیویارک : ڈیوڈ بانڈ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ روس کے ساتھ سرد جنگ کے دور کے جوہری معاہدے ، جو زمین سے زمین مار میازئل پر پابندی عائد کرتا ہے جو کسی ملک کو دوسرے ملک کی حد میں رکھ سکتے ہیں،،سے امریکا کو نکال لیں گے۔

انہوں نے 1987 کے اوسط حد کے جوہری قوتوں کے معاہدے، جو ان میزائل کا احاطہ کرتا ہے جو 3420 میل سے زائد تک پہنچ سکتے ہیں اور جو ریویاتی یا جوہری ہتھیار لے جاسکتے ہیں، کے حوالے میں ہفتہ کو صحافیوں کو بتایا کہ ہم معاہدے کو ختم کرنے جارہے ہیں اور ہم اس سے نکل رہے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ جنہوں نے کہا ہے کہ معاہدے سے نکلنے کا مطلب ہوگا کہ امریکا ہتھیار تیار کرسکتا ہے،کہا کہ روس کئی برس سے معہادے کی خلاف ورزی کررہا تھا، تاہم امریکی صدر نے معہادے سے نکلنے کا کوئی مخصوص وقت نہیں دیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم انہیں جوہری معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کرنے دیں گے اور باہر نکلنے اور ہتھیار بنانے اور ہمیں اس کیلئے اجازت نہیں۔۔ تاہم انہوں نے کہا کہ امریکا اپنے جوہری ہتھیاروں کی ترقی کی حد پر غور کرے گا اگر یہ روس اور چین ، جو معہادے میں شامل نہیں ہے،دونوں کے ساتھ ایک نئی منصوبہ بندی کرسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر روس یہ کررہا ہے اور اگر چین یہ کررہا ہے ، اور ہم معاہدے پر عمل کررہے ہیں تو یہ ناقابل قبول ہے۔

روس نے معاہدے کی خلاف ورزی کی تردید کی ہے اور بارہا امریکا پر معاہدے کی شرائط کی خلاف ورزی کا الزام لگایا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے قومی سلامتی کے مشیر روس سے جنگ کے حامی جان بولٹن معاہدے پر اور دونوں ممالک کے مابین متنازع موضوعات پر تبادلہ خیالات کیلئے روس کے سینئر حکام سے ملاقات کے لئے پیر کو روس کا دورہ پر ہیں۔

انتظامیہ کے سینئر حکام نے جمعرات کو صحافیوں کے ایک گروپ کو بتایا کہ ٹرمپ انتظامیہ بھی امریکا اور روس کے درمیان ایک اور جوہری معاہدے پر دوبارہ گفت شیند کیلئے کوشش کررہی تھی،2010 معاہدے کا نیا آغاز، جو ہر ایک ملک کے نیوکلیئر وار ہیڈز کی تعداد کی حد مقرر کرتا ہے، 2021 میں اس کی تجدید ہونی ہے۔

ایک سرکاری حکام ، جنہوں نے ایک اور آپشن توسیع پر اتفاق کرنا ہوگا کا اضافہ کیا لیکن یہ ممکن نہیں ہوگا، نے کہا کہ ہمارے پاس ابھی تک امریکا کی کی فیصلہ کن حیثیت نہیں ہے، تاہم دوسری شائط پر بات چیت سمیت متعدد آپشنز پر غور کررہے ہیں۔

روسی سینیٹر الیکسی پشکوف نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے نتیجے میں دنیا سرد جنگ کے دور میں واپس آجائے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح معاہدے سے نکلنا دنیا کے اسٹرٹیجک استحکام کے پورے نظام پر دوسرا سب سے طاقتور دھچکا ہوگا۔ پہلا دھچکا 2001 میں اینٹٰ بیلاسٹک میزائل معاہدے سے امریکا کی علیحدگی تھا۔ ایک بار پھر معاہدے سے علیحدگی کا آغاز امریکا نے کیا ہے۔

روس کی پارلیمان کے ایوان بالا کی دفاعی اور سلامتی کمیٹی کے رکن فرانز کلائنیوچ نے کہا کہ امریکا روس کو اسلحہ کی دوڑ میں گھسیٹنے کی کوشش کررہا ہے۔

انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ مختصرا، نہ صرف روس بلکہ پوری دنیا کو نیا اور پرخطر چیلنج دیا گیا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ سویت یونین کی طرح ایک ایک بار پر روس کو ہتھیاروں کی دوڑ میں لے جایا جائے۔یہ کامیاب نہیں ہوگا۔ مجھے کوئی شک نہیں کہ ہمارا ملک ہر طرح کی صورتحال میں اپنی سلامتی کو یقینی بنائے گا۔

برطانیہ کے وزیر دفاع گیون ولیمسن نے روس پر معاہدہ توڑنے کا الزام لگایا، جس پر امریکا کے سابق صدر رونالڈ ریگن اور سویت رہنما میخائل گورباچوف نے دستخط کئے تھے،انہوں نے اصرار کیا کہ امریکا کے پیچھے برطانیہ بدستور کھڑا ہے۔

مسٹر ولیمسن نے کہا کہ ہمارا قریبی اور طویل عرصے سے اتحادی یقینا امریکا ہے اورہم امریکا کے ساتھ کھڑے ہیں ، مکمل طور پر واضح کرتے ہیں کہ روس کو اس معاہدے کی ذمہ داریوں کیا احترام کرنے کی ضرورت ہے جس پر اس نے دستخط کئے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ کریملن معاہدے کا مزاق اڑارہا تھا۔

انہوں نے کہا کہ یقینا ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ معاہدہ برقرار رہے لیکن اس کیلئے دونوں فریقین کے عزم کی ضرورت ہوتی ہے اور اس وقت آپ کے پاس ایک فریق ہے جو اسے نظر انداز کررہا ہے۔ یہ روس ہے جس نے خلاف ورزی کی اور یہ روس ہی ہے جسے اپنے معاملات درست کرنے کی ضرورت ہے۔ 

تازہ ترین