• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک چھوٹا سا، معصوم سا سوال ہے۔ معافی کا طلب گار ہوں کہ میں آپ سے سوال پوچھنے کی جرات کر رہا ہوں۔ آپ کیا بیچتے ہیں؟ آپ ناراض نہ ہوں۔ مانتا ہوں کہ اللہ کادیا آپ کے پاس سب کچھ ہے۔ اچھی ملازمت ہے۔ اچھا کاروبار ہے۔ موروثی املاک ہے آپ کے پاس۔ آپ کا رہن سہن دیدہ زیب ہے۔ آپ اچھا کھاتے ہیں، اچھا پیتے ہیں۔ اچھا پہنتے ہیں۔ ایسے میں آپ کیوں کچھ بیچیں گے؟ مگر سوچنے اور غور کرنے میں کیا حرج ہے۔ کہتے ہیں کہ یہاں سب کچھ بکتا ہے۔ قسمیں اور وعدے بک جاتے ہیں۔ بندھن بک جاتے ہیں۔ رشتے اور ناطے بک جاتے ہیں۔ عہد نامے بک جاتے ہیں۔ دوست بک جاتے ہیں۔ گھر بار بک جاتے ہیں۔ لوگ بک جاتے ہیں۔ ووٹ لینے والے اور ووٹ دینے والے بک جاتے ہیں۔حتیٰ کہ ملک بک جاتے ہیں۔ آپ سوچئے۔ غور کیجئے۔ آپ کچھ نہ کچھ ضرور بیچتے ہوں گے۔ میں خواہ مخواہ آپ کے ذہن پر بوجھ ڈالنا نہیں چاہتا۔ آپ کو الجھانا نہیں چاہتا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ آپ ہم عام آدمیوں کی طرح اپنے پرانے برتن، جوتے اور کپڑے اور پرانے اخبار ردی والے کو بیچتے ہوں گے۔ خدا نہ کرے کہ آپ ہم جیسے ہوں۔ شیئرز کے کاروبار میں آپ شیئر صرف خریدتے نہیں ہیں، آپ شیئر بیچتے بھی ہیں۔ نئی گاڑی خریدنے کے بعد آپ اپنی پرانے ماڈل کی کار بیچتے ہیں۔ آپ اسمارٹ فون خریدتے ہیں اور اپنا پرانا فون بیچ دیتے ہیں۔ املاک میں اضافہ خرید و فروخت سے ہوتا ہے۔

خدانخواستہ میں آپ کا مرتبہ کم کرنے کی کوشش نہیں کررہا۔ میں آپ کا قد چھوٹا کرنا نہیں چاہتا۔ میں محض اپنی بات کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ ہم سب کچھ نہ کچھ بیچتے ہیں۔ کچھ بیچنے کے لئے ضروری نہیں ہے کہ آپ غریب اور تنگ دست ہوں۔ ریڑھی لگاکر پکوڑے اور چناچاٹ بیچنے والا وہی کام کرتا ہے جو فائیو اسٹار ہوٹل والے کرتے ہیں۔ دونوں کھانا بیچتے ہیں۔ آپ اپنی صلاحیتوں کے عوض کسی محکمہ میں بائیس گریڈ کے افسر لگتے ہیں۔ آپ اپنی صلاحیتیں بیچتے ہیں۔ آپ وکیل ہیں۔ آپ اپنی صلاحیتیں اپنے موکل کو بیچتے ہیں۔ انڈا ہو یا آئیڈیا Idea، ہم سب کچھ نہ کچھ بیچتے ہیں۔ اب آپ سوچئے، غور کیجئے کہ آپ کیا بیچتے ہیں۔

اس حوالے سے میرے جیسے مولائی مخمصوں میں نہیں الجھتے۔ وہ کسی سے کچھ نہیں چھپاتے کہ وہ کیا بیچتے ہیں۔ مثلاً میں جھوٹ بیچتا ہوں، جھوٹ کے علاوہ کچھ نہیں بیچتا۔ جھوٹ بولنا بلکہ جھوٹ بیچنا میرا اوڑھنا بچھونا ہے۔ یہی کام میری روزی روٹی کا وسیلہ ہے۔ میرے ایک دوست کا نام ہے دوست محمد خوابیدہ۔ شاعر ہے۔ خوابیدہ اس کا تخلص ہے۔ آج کل کے دور میں شاعری نہیں بکتی۔ شاعر بک جاتے ہیں۔ خود کوبیچنے کے بجائے دوست محمد خوابیدہ خواب بیچتا ہے۔ آپ اور میں خواب نہیں بیچ سکتے۔ ہم خواب دیکھتے ہیں۔ خواب دیکھنے والے خواب نہیں بیچتے۔ خواب بیچنا ہنر ہے۔ دوست محمد خوابیدہ کے پاس یہ ہنر ہے یہ ہنر اس نے اختر شناسی اور دست شناسی پر اپنی مہارت سے سیکھا ہے۔ وہ ہاتھ دیکھ کر آپ کو بتا سکتا ہے کہ آپ کے ہاتھ کالے کیوں ہیں۔ آپ کے دھلے ہوئے ہاتھ دیکھ کروہ بتا سکتا ہے ہاتھ دھوکر آپ کس کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ ہاتھ کی لکیریں دیکھ کر دوست محمد خوابیدہ آپ کو آپ کے گزرے ہوئے کل کے قصے تفصیل سے سناکر آپ کو حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ وہ آپ کو آپ کے مخفی دھندوں کے بارے میں بتا دیتا ہے جو آپ نے سب سے پوشیدہ رکھے ہوئے ہیں۔ تب آپ کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں۔ اس طرح کے قصوں کو ہم کچا چٹھا کہتے ہیں۔ ہم سب اپنے کچے چٹھے سے واقف ہوتے ہیں۔ ہم حیرت کے مارے دم بخود تب ہوتے ہیں جب وہ ہمیں آنے والے کل کے بارے میں قصے سناتا ہے۔ یہاں سے ابتدا ہوتی ہے ہمارے خوابوں کی۔ ہم سب آنے والے کل کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔ آنے والے کل کے بارے میں خواب دیکھنے کی خواہش جب معاشرے پر چھا جاتی ہے، تب خواب دکھانے والے پیدا ہوتے ہیں۔

دوست محمد خوابیدہ کی سیاست دانوں اور بڑے بڑے افسران میں بڑی ساکھ ہے۔ وہ ان کو ،خواب بیچتا ہے۔ یعنی آنے والے کل سے آگاہ کرتا ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے، ذوالفقار علی بھٹو کا دورتھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے چچا زاد بھائی ممتاز علی خان بھٹو سندھ کے وزیر اعلیٰ تھے۔ غلام مصطفیٰ خان جتوئی مرکزی حکومت میں وزیر تھے۔ دونوں ایک دوسرے سے نالاں رہتے تھے۔ ایک دوسرے کو ایک آنکھ نہیں بھاتے تھے۔ ممتاز علی بھٹو نے کسی بات پر غلام مصطفیٰ جتوئی کی کراچی والی کوٹھی پر چھاپہ پڑوا دیا۔ اس زمانے میں پچاسیوں ٹیلیوژن چینل نہ ہونے کے باوجود جتوئی صاحب کے گھرپر پڑنے والے چھاپے کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ غصے میں آکر کوئی قدم اٹھانے سے پہلے جتوئی صاحب نے دوست محمد خوابیدہ کو بلایا۔ ان سے مشورہ کیا۔ آنے والے کل میں جھانکنے کے بعد دوست محمد خوابیدہ نے جتوئی صاحب کو مشورہ دیا کہ وزارت سے مستعفی ہونے کی بجائے کچھ دن صبر کریں۔ کوئی پریس کانفرنس نہ کریں۔ اچھا نتیجہ نکلے گا۔ اس واقعے کے تیسرے روز وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ٹی وی پر آکر جتوئی صاحب کے گھر پر چھاپے کی مذمت کی اور جتوئی صاحب کو منانے ان کے گھر پہنچ گئے۔ دوست محمد خوابیدہ کی ساکھ کو سند مل گئی۔ غیرمصدقہ خبروں کے مطابق سندھ کے حکمران اور افسران کسی سیاستدان کو پکڑنے یا چھوڑنے کا فیصلہ دوست محمد خوابیدہ سے مشورہ کرنے کے بعد کرتے تھے۔ مرکزی حکومت سے متنازع معاملات پر چارہ جوئی سے پہلے سندھ کے حکمران دوست محمد خوابیدہ سے مشورہ ضرور لیتے تھے۔

اب دوست محمد خوابیدہ بہت بوڑھا ہوچکا ہے۔ مگر پھر بھی عمران خان کی حکومت کو سنہری خواب دکھا سکتا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین