• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالمی ادارہ صحت کی ایک چشم کشا رپورٹ سامنے آئی ہے کہ فضائی آلودگی سے ہر سال 15سال سے کم عمر کے تقریباً 6لاکھ بچے مرجاتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر کے ایک ارب 80کروڑ 15سال سے کم عمر بچوں میں سے 93فیصد جن میں پانچ سال سے کم عمر 63کروڑ بچے بھی شامل ہیں، زہر آلود فضا سے متاثر ہوتے ہیں۔ یہ آلودگی دمہ ، کینسر کا باعث بنتی ہے اور اس سے بچوں کی نشو و نما اور ذہنی صلاحیت بھی متاثر ہوتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی مذکورہ رپورٹ عام دنوں کے حوالے سے ہے اور اس امر کی شاہد کہ ہماری فضا اس قدر زہریلی ہو چکی کہ اس میں سانس لینا بھی موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ اسموگ کا لفظ 1900میں دھویں اور دھند کے ملاپ کے باعث بننے والے آمیزے کیلئے استعمال کیا گیا جو برطانیہ کے صنعتی علاقوں میں کوئلہ جلانے کے باعث پیدا ہوا۔ اسموگ کو زمینی اوزون بھی کہا جاتا ہے، یہ ایک وزنی پیلی سرمئی دھند ہے جو فضا میں جم جاتی ہے اور ماہرین کے مطابق فیکٹریوں اور گاڑیوں کا دھواں اور درختوں کا بیدردی سے کاٹا جانا صورتحال کو مزید تشویشناک بنادیتا ہے، کہا جاتا ہے کہ اسموگ محض بارشوں اور تیز ہوائوں سے ہی ختم ہوسکتی ہے۔ گزشتہ سال اسموگ کی وجہ بتائی گئی کہ بھارتی پنجاب کے ہزاروں کسانوں کی طرف سے دھان کی فصل کی باقیات جلانے سے ایسا ہوا۔ اب اسموگ کی وجہ کیا ہے؟ کیا فیکٹریاں اور گاڑیاں بدستور فضا میں دھواں چھوڑ رہی ہیں؟ بقول ترجمان وزیر اعلیٰ پنجاب حکومت اسموگ کے خاتمے کے لئے ’’پنجاب کلین ایئر کمیشن‘‘ قائم کرچکی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کمیشن فضائی آلودگی کا خاتمہ کیونکر کرے گا؟ لازم ہے کہ ہر وہ فیکٹری یا گاڑی، بھٹہ یا کوئی اور شے جو دھواں پھیلانے کا باعث بنتی ہے بند کردی جائے۔ یورپ کے متعدد شہروں میں یہ عمل کئی مرتبہ دہرایا جاچکا ہے۔پاکستان میں بھی یہ عمل دہرانے اور مصنوعی بارش کا اہتمام کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

تازہ ترین