• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں نے اپنا پچھلا کالم اس حقیقت کی نشاندہی پر ختم کیا تھا کہ ساری دنیا اور پاکستان میں اشیائے صرف کی فراوانی اور غیر جمہوری رویے ایک ساتھ ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ اس سلسلے میں میری رائے زیادہ تر معیشت دانوں اور سماجی علوم کے ماہرین سے الٹ ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا میں معاشی بدحالی سے مذہبی انتہا پسندی اور دیگر فاشی رجحانات جنم لے رہے ہیں۔ میرا مشاہدہ ہے کہ ساہیوال میں میرے دور دراز گاؤں سے لے کر واشنگٹن کی امیر ترین کاؤنٹی (تحصیل) تک معاشی ترقی کے بڑھتے ہوئے طوفان نے اکثر معاشروں میں دہائیوں سے قائم توازن کو تہہ و بالا کرکے بے یقینی کی صورت حال پیدا کی ہے جن کے نتیجے میں منفی نظریات نے اپنی جگہ بنائی ہے۔

پاکستان میں ستر کی دہائی سے شروع ہونے والی معاشی ترقی اور لا قانونیت ایک ساتھ آگے بڑھے ہیں۔ اسی کی دہائی کے بعد آنے والی اکثر حکومتوں نے مادی ترقی پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے نئے عمرانی معاہدے اور نئے قوانین کی تشکیل و اطلاق پر مطلق توجہ نہیں دی۔ وزیر اعظم محمد خان جونیجو اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو انفرا اسٹرکچر کی تعمیر و ترقی کیلئے سراہا جاتا ہے۔ پنجاب میں چوہدری پرویز الٰہی کی اس سلسلے میں کارکردگی کو بھی داد دی جاتی ہے۔ مذکورہ بالا حکومتوں نے ظاہراً نظر آنے والے ترقیاتی منصوبوں کو اولیت دی لیکن معاشرے میں برباد ہوتے ہوئے نظم و نسق کو سرے سے نظر انداز کر دیا۔ اس کا اظہاردیہات کی گلیوں میں گندے پانی کے جوہڑوں سے لے کر شہر کی سڑکوں پر بے لگام ٹریفک تک دیکھا جا سکتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا وزیر اعظم عمران خان کی سربراہی میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت تخریبی رجحانات کو ختم کرکے قانون کی بالا دستی قائم کر سکتی ہے؟ کیا اب لوگ سرخ بتی پر رکیں گے اور کیا اب تجاوزات اور قبضہ گیری ختم ہو جائے گی؟ اگر ایسا ہوجاتا ہے تو اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود موجودہ حکومت اپنے مخالفین کے منہ بند کردے گی۔

پچھلے چالیس سالوں میں پاکستان میں بے بہا دولت پیدا ہوئی ہے اور اس بہتی گنگا میں بہت سے شاطر لوگوں نے ہاتھ دھوئے ہیں۔ ویسے یہ تاریخی حقیقت ہے کہ جب معاشروں میں خوشحالی یا بد حالی کا طوفان آتا ہے تو بہت سے لوگ اس سے جائز اور ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ مزید برآں جب کوئی چیز حد سے بڑھ جاتی ہے تو پھر اس کے ردعمل میںمعاشرے یا اس کے کچھ عناصر دوسری انتہا تک پہنچ جاتے ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ جیسے موجودہ احتساب کا عمل بھی ملک میں جاری بے اعتدالیوں کے خلاف رد عمل ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ چنیدہ لوگوں کے احتساب سے معاشرے میں وسیع پیمانے پر پھیلی ہوئی لا قانونیت کو روکا نہیں جا سکتا۔ اگرمثالی سزاؤں سے معاشرے کی تطہیر ہو سکتی تو سزائے موت کے ڈر سے کوئی قتل کا مرتکب نہ ہوتا۔

اپنی بات کو آسان پیرائے میں بیان کرنے کیلئے میں آپ کو اپنے گاؤں لئے چلتا ہوں۔ میں ساٹھ کی دہائی میں ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کرنے تک گاؤں میں رہا ہوں۔ اس زمانے تک انگریز راج کے قائم کئے ہوئے گاؤں کی سڑکیں بہت کشادہ اور صاف ہوا کرتی تھیں ۔ حکومت نے گاؤں کے ارد گرد مستقبل کی ضرورتوں کیلئے کافی زمین خالی چھوڑی ہوئی تھی جس میں گاؤں کے بچے اور جوان کھیلا کودا کرتے تھے۔گاؤں میں لڑکوں اور لڑکیوں کیلئے پرائمری اسکول ہوا کرتے تھے جن میں طلباء اور طالبات کی تعداد بہت ہی محدود ہوتی تھی۔ اس وقت گاؤں کی معاشی حالت ایسی تھی کہ اکثر لوگوں کے پاؤں میں جوتا تک نہیں ہوتا تھا۔ گاؤںمیں چند گنے چنے لوگ سائیکل خریدنے کے متحمل ہو سکتے تھے۔اب اسی گاؤں میں درجنوں کاریں ہیں اور شاید ہی کوئی ایسا بدنصیب ہوگا جس کے پاس موٹر سائیکل نہ ہو۔ یہ سارا منظر ستر کی دہائی سے تبدیل ہونا شروع ہوا۔ سب سے پہلے تو گاؤں کے با اثر خاندانوں نے نوکر شاہی کی ملی بھگت سے گاؤں کی مستقبل کی ضرورتوں کیلئے چھوڑی ہوئی زمین الاٹ کروا لی۔پھر جب ذوالفقار علی بھٹو نے بے گھر بے زمین لوگوں کو پانچ مرلے کے پلاٹ دینے کا اعلان کیا تو حق داروں کے ساتھ ساتھ دوسروں نے بھی گاؤں کی چپہ چپہ زمین پر قبضہ کر لیا۔یہاں تک کہ لوگوں نے کشادہ گلیوں میں اپنے گھروں کی توسیع کر لی۔ یہ قبضہ گیری اس حد تک بڑھی کہ ایک مرتبہ میں نے گاؤں کے مسیحیوں کی درخواست پر اپنے ایک کلاس فیلو افسر سے ان کے قبرستان کیلئے ایک ایکڑ زمین منظور کروائی۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ تو پہلے ہی کوئی اپنے نام الاٹ کروا چکا ہے۔ میں نے اپنے پیسوں سے مسیحیوں کے قبرستان کیلئے مقدمہ لڑا لیکن سب بے نتیجہ ثابت ہوا۔ یہ سب کچھ اس وقت گاؤں میں ہو رہاتھا جب معاشی ترقی کی رفتار تیز تر ہو رہی تھی۔ بدلتے ہوئے زمانے کی مادی دوڑ میں ساری بنیادی اقدار بدل رہی تھیں۔ شایدایسے ہی تغیر و تبدل کے بارے میں بلھے شاہ نے کہا تھا:

جد آپو اپنی پے گئی، دھی ماں نوں لٹ کے لے گئی

(جب سب کو اپنی اپنی پڑ گئی تو بیٹی نے ماں کو لوٹنا شروع کردیا)

ایک اور کافی میں کہتے ہیں:

الٹے ہور زمانے آئے

پیو پتراں اتفاق نہ کائی

دھیاں نال نہ مائے

(زمانے الٹ گئے ہیں۔ باپ بیٹے میں اتفاق نہیں ہے اور مائیں بھی بیٹیوں کا ساتھ نہیں دے رہیں)

اس افرا تفری اور قبضہ گیری کے زمانے میں ہی گاؤں میں لڑکوں کیلئے ہائی اسکول بنا اور لڑکیوں کے ہائر سیکنڈری اسکول کی تعمیر ہوئی۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اب اساتذہ اسکول میں پڑھانے کی بجائے دوسرے دھندوں میں مشغول ہو گئے ہیں۔ جب ہم مڈل اسکول کیلئے تین میل اور ہائی اسکول کیلئے پانچ میل کا سفر کرتے تھے تو باوجود کم سہولتوں کے تعلیم کا معیار بہتر تھا۔ اب تعلیم کے انفرا سٹرکچر کے وسیع تر ہونے کے باوجود تعلیم کا معیار تباہ ہو گیا ہے۔ اس منظر نگاری کا مقصد یہ ہے کہ اب شاید انفرا سٹرکچر پر کافی کچھ کیا جا چکا ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اصول و ضوابط اور قوانین کی پابندی پر توجہ مرکوز کرے۔ اب وہ اس امر کو یقینی بنائے کہ جہاں اسکول قائم ہیں وہاں اساتذہ پڑھائیں بھی اور تعلیم کا معیار بلند ہو۔ اب قبضہ گیری اور تجاوزات کا کلچر ختم ہونا چاہئے۔ موجودہ حکومت کو یہ سہولت حاصل ہے کہ انفرا سٹرکچر پر بہت سرمایہ لگایا جا چکا ہے ، اب ضرورت ہے نظام کو مستعد انداز میں چلانے کی۔

تازہ ترین