• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پروفیسر ڈاکٹر مجید اللہ قادری

امام احمد رضا خاں حنفی قادری برکاتی محدث بریلویؒ تاریخ اسلام ہی کے نہیں، بلکہ تاریخی عمومی میں بھی وہ مصنف اور مؤلف ہیں، جنہوں نے تین زبانوں یعنی اردو، فارسی اور عربی میں ہزار سے زیادہ رسائل سو سے زائد علوم و فنون کے عناوین پر لکھے ہیں،بلکہ یوں کہا جائے تو بہتر ہوگا کہ آج سے سوسال قبل کے تمام مروجہ علوم عقلیہ اور نقلیہ پر انہوں نے اپنے رشحات قلم کی یادگاریں چھوڑی ہیں۔امام احمد رضاؒ جو خود علمی اعتبار سے ایک عمومی یونی ورسٹی کی حیثیت رکھتے ہیں، نے اپنی اس جامعہ کے تمام شعبہ جات کے لیے نہ صرف سلیبس تیار کیا، بلکہ اس سلیبس کے اعتبار سے بنیادی کتابوں کاہزار سے زیادہ کتب و رسائل پر مشتمل ذخیرہ بھی فراہم کردیا کہ اگر کوئی کسی وقت امام احمد رضا یونیورسٹی بنانا چاہے تو خودصاحبِ کتب کی ہزار سے زیادہ کتب و رسائل سے اس جامعہ کی ابتداء کرسکتا ہے اور شاید دنیا کا ایک عجوبہ ہوگا کہ جس کے نام کی یونی ورسٹی بنائی جارہی ہے،خود اس کی لکھی ہوئی کتابیں اس جامعہ کے اکثر و بیش تر شعبۂ جات میں ٹیکسٹ بک کی حیثیت سے پڑھائی جاسکتی ہیں۔

تاریخ پر نظر ڈالنے سے پتا چلتا ہے کہ دنیا میں پچھلے ڈھائی ہزار سال سے کم از کم تصنیفات اور تالیفات کا سلسلہ جاری ہے،جو تاریخ میں محفوظ بھی ہے،مگر ایک ہی مصنف کی دو، چار،چھ، دس، بیس جہتوں میں تصانیف بھی مل جاتی ہیں،لیکن وہ بھی اتنی جہتوں میں یا تو علوم عقلیہ پر لکھی گئی ہوں گی یا علوم نقلیہ پر،مگر ایسا مصنف نہیں ملتا جس نے علوم عقلیہ وعلوم نقلیہ کی تمام جہتوں میں اور وہ بھی ایک سے زیادہ زبانوں میں تصنیفات لکھی ہوں،مگر اللہ رب العزت نے نبی کریم ﷺ کے علوم کے وارثین میں سے فاضل بریلویؒ کو منتخب فرمایا اور انہیں دونوں جہتوں کے علوم کا ماہر بنایا، ان کے قلم سے ہزار سے زیادہ تصنیفات قلم بند کروائیں، تاکہ دنیا محو حیرت رہے،ایمان والوں کا یقین اور پختہ ہوکہ جب فخر سادات حضرت محمد ﷺ کے ایک امتی کے علم کا یہ عالم ہے تو خود اس ذات کے علم کا کیا حال ہوگا۔ آپﷺ تمام علوم کے جامع ہیں، اللہ نے کوئی علم ایسا نہ تھا جو آپ ﷺ کو نہ دیا ہو اور آپﷺ نے یہ علم اول صحابۂ کرامؓ میں منتقل فرمایا،پھر حسب ضررت اللہ نے جہاں جس کے لیے چاہا،اسے اتنا علم دیا ۔

امام احمد رضاؒ نے اپنے طالب علمی کے دور ہی سے اپنی نگارشات کی ابتداء کردی تھی اور دوران طالب علمی ہی میں آپ نے کئی درسی کتب پر حواشی لکھے تھے۔14 سال سے کم عمر میں جب فارغ ہوئے تو فراغت کے فوراً بعد اپنے والد ماجد علامہ مفتی نقی علی خاں قادری برکاتی بریلویؒ کی موجودگی میں پہلا فتویٰ مسئلہ رضاعت پر لکھا، جس پر آپ کے والد نے اپنے دستخط کیے اور آپ کو اپنی مسند افتاء پر بٹھادیا۔

اس کے بعد زندگی کی 50 بہاریں اور دیکھیں اور اس 50 سالہ دور میں آپ نے فتاویٰ نویسی کے ساتھ تینوں زبانوں میں تصانیف بھی تحریر فرمائیں۔آپ کی تصانیف اور علوم و فنون کی تعداد کو سب سے پہلے آپ ہی کے شاگرد رشید اور مرید و خلیفہ مولانا محمد ظفر الدین بہاری قادری رضوی نے 1327ھ/ 1909ء تک کی، کتب کی فہرست بنام ’’المجمل المعدد لتالیفات المجدد‘‘ شائع کی۔آپ کی تصانیف و تالیفات کی ایک فہرست ماہنامہ اعلیٰ حضرتؒ کے شمارہ اکتوبر و دسمبر میں بھی شائع ہوئی تھی اور غالباً یہ وہی فہرست کتب ہے جو مولانا ظفر الدین نے الگ سے شائع کی تھی۔امام احمد رضا کی تصانیفؒ کی تلاش ہر دور میں جاری رہی ہے اور کئی اہل قلم اور محققین نے ان کی فہرست کتب کو آگے بڑھایا ہے۔مثلاً مولانا ڈاکٹر حسن رضا اعظمی نے امام احمد رضاؒ کی فقہی خدمات پر پٹنہ یونی ورسٹی انڈیا سے 1979ء میں Ph.D کی،اول اور اعلیٰ سند حاصل کی۔ آپ کا یہ مقالہ جلد ہی انڈیا اور پاکستان سے ’’فقیہ اسلام‘‘ کے نام سے شائع ہوا، جس میں باب پنجم میں412 کتب کا احاطہ کیا،جو ان کی تحقیق کے مطابق 50 علوم و فنون پر لکھی گئی ہیں،جب کہ آپ نے اپنے ہی مقالے کے ساتویں باب میں 240 حواشی کتب کا بھی ذکر کیا ہے،جو انہوں نے مختلف علوم و فنون کی کتب پر تحریر کیے تھے۔ گویا ڈاکٹر حسن نے مجموعی طور پر 666 کتب و حواشی کی تفصیل اپنے مقالے میں قلم بند کی ہے۔امام احمد رضاؒ پر تحقیق کا سلسلہ جاری ہے اور آپ کی تصانیف کی فہرست میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ چناںچہ ایک اور تحقیق سامنے آئی جس میں مولانا محمد عبدالمبین نعمان قادری رضوی نے آپ کی کتب کی فہرست کو ’’المصنّفات الرضویۃ‘‘ یعنی ’’تصانیف امام احمد رضا‘‘ کے نام سے مبارک پور، انڈیا سے 2006ء میں شائع کیا۔ اس فہرست میں 685 کتب اور حواشی امام احمد رضا شامل کیے گئے ہیں۔

آپؒ کی کتب پر ایک اور فہرست محقق عصر مولانا عبدالستار ہمدانی برکاتی (پور بندر، ہندوستان) نے بھی مرتب کی تھی، جس کی ایک کاپی مولانا حافظ عبدالکریم رفاعی کو حاصل ہوئی جو ان دنوں چاٹگام بنگلہ دیش میں ایک مدرسے کے مہتم بھی ہیں۔ آپ نے یہ فہرست ادارہ تحقیقات امام احمد رضا انٹرنیشنل کے صدر نشین وجاہت رسول قادری کو ان کے بنگلہ دیش کے دورے کے دوران عنایت کی تھی،جو ادارہ تحقیقات امام احمد رضاؒ نے اپنے سال نامے میں شائع کی تھی۔ اس فہرست میں کتب و رسائل کے نام حروفِ ابجد کے اعتبار سے درج کیے گئے ہیں اور اس میں کل 578 رسائل شامل ہیں،جب کہ امام احمد رضاؒ کے حواشی کی الگ فہرست دی گئی ہے،جس میں کل 168 حواشی کو حروف تہجی کے اعتبار سے شائع کیا گیا ہے۔اس لحاظ سے اب یہ کل تعداد کتب و حواشی کی 869 ہوگئی ہے۔اب صرف 130 کتب اور حواشی کی تلاش ہے، تاکہ یہ تعداد جوہزار سے زیادہ بتائی جاتی ہے،قلمی اعتبار سے بھی لوگوں کے سامنے پہنچ جائے۔ان 869 کتب و حواشی میں سے اکثر کتب اور رسائل تو شائع ہوچکے ہیں،البتہ حواشی ابھی شائع ہونے باقی ہیں۔

آپ نے اکثر کتب یا رسائل مستفتی کے سوال کے جواب میں لکھے ہیں۔ بہت کم کتب ایسی ہیں جو بغیر کسی استفتاء کے لکھی گئی ہوں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ اپنے زمانے میں عوام ہی کے نہیں،بلکہ خواص اور خواص الخواص علماء و مشائخ کے بھی مرجع تھے۔اس لیے ہر کوئی آپ کی طرف رجوع کرتا۔ امام احمد رضاؒ سائل کے سوالوں کے حجم کو نہ دیکھتے،بلکہ اپنے علوم سے لوگوں کو سائل کے سوال کی حدود سے کہیں زیادہ اس کا تفصیلی جواب دے دیتے،جس کے باعث وہ فتویٰ ایک رسالے کی شکل اختیار کرلیتا اور اسے زمانے کی ضرورت کے اعتبار سے الگ سے شائع کردیا جاتا،ان ہی رسائل میں سے بہت سے رسائل فتاویٰ رضویہ میں بھی شامل ہیں۔ فتاویٰ میں شامل رسائل بھی اردو،عربی اور فارسی زبان میں ہیں۔ چناںچہ راقم نے بھی ایک چھوٹی سی کوشش کی تھی اور 1988ء تک فتاویٰ رضویہ کی جتنی جلدیں شائع ہوچکی ہیں،ان پر ایک ’’موضوعاتی جائزہ‘‘کے نام سے مقالہ لکھا تھا جو بعد میں علیحدہ سے بھی شائع ہوا۔اس موضوعاتی جائزے میں ایک کوشش یہ بھی کی گئی کہ ان تمام رسائل،جو اس وقت تک فتاویٰ کی جلدوں میں شائع ہوچکے تھے،کو جلد کے اعتبار سے ترتیب دے دیا جائے۔ آپ کے فتاویٰ پر پچھلی دہائی میں مفتی محمد عبدالقیوم قادری ہزاروی ؒ نے اہم کارنامہ انجام دیا اور وہ یہ کہ آپ نے ایک ٹیم تشکیل دے کر امام احمد رضاؒ کے 12 مجلدات پر مشتمل فتاویٰ رضویہ پر نہ صرف تخریج کا کام کروایا، بلکہ جو رسائل عربی اور فارسی میں تھے یا جو عبارتیں فارسی اور عربی میں تھیں،ان سب کا ترجمہ بھی کروایا۔ اس طرح فتاویٰ رضویہ کی 12 جلدوں کو 30 جلدوں میں شائع کروا کر اہم ترین علمی کارنامہ انجام دیا۔

(حیات وخدمات…ایک نظر میں)

٭…آپ کا نام ’’محمد‘‘ رکھا گیا،دادا رضا علی خاں ؒ نے ’’احمد رضا‘‘ نام تجویز کیا،تاریخی نام ’’المختار‘‘ جب کہ ’’عبدالمصطفیٰ‘‘ اپنے نام کے ساتھ اضافہ کرتے۔٭… دس شوال 1272ھ بمطابق 1856ء کو بھارت کے شہر بریلی میں پیدا ہوئے۔٭…بنیادی دینی تعلیم اپنے والد حضرت نقی علی خاں ؒ سے حاصل کی،چودہ سال کی کم عمری میں پہلا فتویٰ دے کر مسندِ افتاء پر فائز ہوئے۔٭…آپ نسباً پٹھان، مسلکا حنفی قادری تھے۔1294ھ بمطابق 1877ء میں حضرت شاہ آل رسول کے ہاتھ پر سلسلۂ قادریہ میں بیعت فرمائی۔٭…ایک ماہ کی قلیل مدت میں قرآن کریم حفظ کیا ۔ کنزالایمان کے نام سے قرآن کریم کا اردو زبان میں ترجمہ تحریر کیا۔٭…نعتیہ کلام بنام حدائق بخشش کے ذریعے تاج دار حرمﷺ کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا۔٭…دو مرتبہ زیارت حرمین شریفین سے مستفیض ہوئے،سفرحرمین ہی میں تاج دار مدینہ ﷺ کی زیارت بابرکت سے فیض یاب ہونے کا شرف پایا۔٭… عقیدہ ختم نبوت اور ناموس رسالت کے تحفظ کے سلسلے میں اہم کردار ادا کیا۔٭…پچاس سے زائد علوم وفنون پر کامل دسترس حاصل تھی،دس ہزار سے زائد فتاویٰ دیے،ایک ہزار کے قریب کتابیں اور سیکڑوں کی تعداد میں رسائل تحریر فرمائے۔٭…فتاویٰ رضویہ جو کہ بلاشبہ فقہ حنفی کا انسائیکلوپیڈیا ہے،تحریر کیا،جسے رضا فاونڈیشن نے بہ تخریج حوالہ جات، عربی اور فارسی عبارتوں کے ترجمہ کے ساتھ تیس ضخیم جلدوں میں شائع کیا۔٭…متعدد اسکالرزنے فاضل بریلویؒ کی علمی اوردینی خدمات پر پی ایچ ڈی کیا، جو آپ کی کثیر الجہتی شخصیت کا آئینہ دار ہے۔ ٭…25صفرالمظفر 1340ھ بمطابق1921ء بروز جمعہ جب موذن نے ’’حی علیٰ الفلاح‘‘ کی صدا بلند کی،امام احمد رضا بریلویؒ کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔

تازہ ترین