• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تذکرہ کاتبینِ وحی حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ

شب کا پچھلا پہر گزر چُکا ہے۔ رات بھر فضا میں چاندنی بکھیرتا چاند بھی ستاروں کے جُھرمٹ میں واپسی کے سفر پر گام زَن ہے۔ یثرب کے ایک سرسبز کھجور کے باغ کے درمیان واقع ،خُوب صورت حویلی کے اسٹڈی روم میں یہودیوں کے سب سے بڑے عالم، امام اور سردار، حصین بن سلام توریت کے مطالعے میں مصروف ہیں۔ آج پھر اُن کی سوچ کا محور توریت کا وہی حصّہ ہے کہ جہاں مکّے میں آخری نبیﷺ کے ظہور کی بشارت تحریر ہے۔ حصین کچھ عرصے سے محسوس کررہے ہیں کہ وہ جب بھی توریت کی ان آیات کا مطالعہ کرتے ہیں، تو اُنہیں ایک عجیب کیفیت سے گزرنا پڑتا ہے۔ اُنہیں توریت میں تحریر کردہ آخری نبی کی آمد کی تمام نشانیاں پوری ہوتی نظر آتی ہیں۔ اور پھر ایک جگہ یہ بھی تحریر ہے کہ’’ اُن کے لوگ، اُنہیں مکّے سے ہجرت پر مجبور کردیں گے اور وہ یثرب میں مسقل قیام کریں گے۔‘‘ تو کیا مَیں اللہ تعالیٰ کے اس آخری رسولﷺ کا دیدار کرنے کا شرف حاصل کرسکتا ہوں؟ یہ سوال ایک شدید خواہش کے رُوپ میں ڈھل کر اُنہیں بے چین و بے قرار کردیتا ہے۔

سلسلۂ نسب

حصین بن سلام کا شمار یہودیوں کے سب سے بڑے عالم، امام اور سرداروں میں ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ دُور دُور سے یہودی اُن سے فیض یاب ہونے کے لیے آتے تھے۔ اُنھیں توریت اور انجیل پر مکمل عبور حاصل تھا۔ رسول اللہ ﷺ کے مدینہ منورہ آنے کے فوراً بعد، اُنہوں نے اسلام قبول کیا اور آنحضرت ﷺنے اُن کا نام، عبداللہ رکھا۔ حضورﷺ فرماتے تھے کہ ’’عبداللہؓ بن سلام اہلِ جنّت میں سے ہیں۔‘‘ آپؓ کی علمی قابلیت کو مدّ ِ نظر رکھتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے آپؓ کو’’ کاتبِ وحی‘‘ کے منصب پر فائز کیا۔ آپؓ کا نام، عبداللہ، کُنیت ابو یوسف اور لقب، جر ہے۔ آپؓ یہودیوں کے ایک قبیلے، بنو قینقاع کے ایک فرد تھے، جس کا سلسلہ حضرت یوسف علیہ السّلام سے ملتا ہے۔ آپؓ کا سلسلۂ نسب یوں ہے۔ عبداللہؓ بن سلام بن حارث۔

زیارتِ رسول ﷺ کے لیے بے تاب

یہ 11نبوی کی بات ہے کہ جب بنو خزرج کے چھے افراد مکّہ مکرّمہ گئے اور رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ پر اسلام قبول کرکے یثرب واپس آگئے۔ حصین بن سلام کو اطلاع ملی، تو اُنہوں نے اُن افراد سے ملاقات کی اور رسول اللہ ﷺ کے بارے میں تفصیل معلوم کی۔ وہ لوگ جیسے جیسے تفصیل بیان کرتے جاتے، حصین کی آنکھوں میں توریت کی تحریر کردہ علامتیں حقیقت کا رُوپ دھار کر آتشِ شوق بھڑکاتی جارہی تھیں۔ اب ایک علامت کی تصدیق اور باقی تھی اور وہ تھی، یثرب کی طرف ہجرت۔ حصین بن سلام اللہ سے دُعا مانگتے تھے کہ’’ اے خداوندِ قدّوس! مجھے اتنی زندگی عطا فرما کہ مَیں شہرِ یثرب میں تیرے آخری نبی ﷺ کی زیارت کرکے اُن کے ہاتھ پر بیعت کرلوں۔‘‘ اب ان مسلمانوں سے ملاقات نے اُن کی بے چینی اور بے قراری میں مزید اضافہ کردیا۔ وہ زیارتِ رسول ﷺ کے لیے بے تاب رہنے لگے تھے۔

دربارِ رسالتﷺ میں حاضری

حصین کہتے ہیں کہ’’ ایک صبح مَیں اپنے باغ میں درختوں سے کھجوریں اُتروا رہا تھا۔ میری چچی، خالدہ بنتِ حارث بھی میرے ساتھ تھیں۔ مَیں نے سُنا کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی مدینہ منورہ آمد اور قُبا میں قیام کا اعلان کرتا پِھر رہا ہے۔ اِس خبر نے میرے جسم میں بجلی سی دَوڑا دی اور بے اختیار میرے منہ سے نکلا’’ اللہ اکبر، اللہ اکبر‘‘۔ چچی نے یہ سُن کر مجھے بُرا بھلا کہا اور بولیں’’ موسیٰ بن عمران علیہ السّلام کی آمد کا سُنتا تو یہ نعرہ لگاتا۔‘‘ مَیں نے اُنہیں سمجھایا’’ چچی! خدا کی قسم یہ اللہ تعالیٰ کے آخری رسول ﷺ ہیں، جو موسیٰ بن عمرانؑ کے بھائی ہیں۔‘‘ چچی بولیں ’’اچھا، جن کے بارے میں تم ہمیں توریت کی آیات پڑھ کر سُناتے رہے ہو؟‘‘ مَیں نے کہا’’ ہاں، یہ وہی ہیں۔‘‘ حصین کہتے ہیں کہ’’ مَیں نے بوڑھی چچی کو گھر چھوڑا اور قُبا کی جانب چل پڑا۔ جب وہاں پہنچا، تو مَیں نے دیکھا کہ جانثاروں کا مجمع لگا ہوا ہے۔ مَیں کسی نہ کسی طرح اندر پہنچ گیا۔ مَیں نے سُنا کہ اللہ کے رسول ﷺ فرمارہے ہیں’’ لوگو! سلام کو پھیلائو، کھانا کھلائو، جب رات میں لوگ محوِ خواب ہوں، تو عبادت کرو اور اللہ کی جنّت میں سلامتی سے داخل ہوجائو۔‘‘ حصین کہتے ہیں کہ’’ جب مَیں نے اللہ کے رسول ﷺ کے چہرۂ انور کی جانب دیکھا، ایمان کی روشنی سے منور چہرہ، مہ و خورشید سے زیادہ چمکتی پیشانی، نورِ الٰہی سے روشن، خُوب صورت بڑی آنکھیں کہ جنھیں دیکھ لیں، اُسے اپنا گرویدہ بنالیں، دندانِ مبارک، جیسے سفید شفّاف موتی، شبِ تاریک میں جو ستاروں سے زیادہ چمکتے، میانہ قد، سُرخ و سفید رنگت، بات کریں، تو لبوں سے پھول جھڑیں۔ مُسکرائیں، تو فضا میں نغمگی بکھر جائے۔ جہاں موجود ہوں، وہ مقام مُشک وعنّبر سے مہک جائے، تو مَیں نے جان لیا کہ یہ ہی اللہ کے آخری اور سچّے نبی ﷺ ہیں۔‘‘

نبی کریم ﷺ سے تین سوال

بخاری شریف میں ہے کہ آپؓ نے خدمتِ نبویﷺ میں حاضر ہوکر عرض کیا’’ یارسول اللہﷺ! مَیں تین باتیں دریافت کرنا چاہتا ہوں۔(1)علاماتِ قیامت میں سے پہلی علامت کون سی ہے۔(2)اہلِ جنّت کو پہلی چیز کھانے کو کیا ملے گی۔(3) کیا وجہ ہے کہ بچّہ کبھی تو ماں کی شکل پر ہوتا ہے اور کبھی باپ کی شکل پر؟ سرکارِ دو عالمﷺ نے تینوں سوالوں کے جواب اس طرح دیئے۔(1) قیامت کی پہلی نشانی ایک آگ ہوگی، جو لوگوں کو مشرق سے مغرب کی جانب ہنکا لے جائے گی۔(2) اہلِ جنّت کی پہلی خوراک، مچھلی کی کلیجی پر جو ٹکڑا ٹِکا رہتا ہے، وہ ہو گا۔(3) ماں کا مادۂ تولید غالب ہو، تو بچّہ ماں کی شکل پر اور اگر باپ کا غالب ہو، تو باپ کی شکل پر ہوتا ہے۔‘‘

قبولِ اسلام

حضرت عبداللہؓ بن سلام فوری طور پر مشرف بہ اسلام ہوگئے۔ آنحضرت ﷺ نے آپ کا نام، حصین سے تبدیل کرکے، عبداللہ رکھا۔ وہ گھر تشریف لائے اور تمام اہلِ خانہ کو اسلام کی دعوت دی، جس پر سب نے اسلام قبول کرلیا، اُن میں آپؓکی چچی، حضرت خالدہؓ بھی شامل تھیں، لیکن آپؓ نے گھر والوں کو ہدایت کی کہ فی الحال چند دنوں کے لیے اپنے مسلمان ہونے کو ظاہر نہ کریں۔ گھر والوں کو مشرف بہ اسلام کرکے آپ ؓواپس نبی کریم ﷺ کی مجلس میں تشریف لے گئے۔

یہودی سرداروں کو دعوتِ اسلام

حضرت عبداللہؓ بن سلام نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا’’ یارسول ﷺ! سب یہودی جانتے ہیں کہ مَیں اُن کا سردار اور اُن کے سردار کا بیٹا ہوں۔ اُن سب سے زیادہ عالم ہوں اور اُن سب سے زیادہ علم رکھنے والے کا بیٹا ہوں۔ آپ ﷺ اُن سے میرا حال تو دریافت فرمایئے۔‘‘ رسول اللہ ﷺ نے یہودیوں کو بلوا لیا۔ یہودی آئے، تو حضرت عبداللہؓ بن سلام گھر کے اندر چُھپ گئے۔ رسول اللہ ﷺنے یہودیوں کو اسلام کی دعوت دی، مگر اُنہوں نے قبول کرنے سے انکار کیا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے اُن سے پوچھا’’ اچھا یہ بتائو کہ حصین بن سلام تم لوگوں میں کیسا آدمی ہے؟‘‘، اُنہوں نے کہا’’ وہ ہمارا سردار ہے، ہمارے سردار کا بیٹا ہے۔ ہم سب سے زیادہ عالم اور ہم سب سے زیادہ عالم کا بیٹا ہے۔ وہ ہم سب سے بہتر اور ہم سب سے بہتر آدمی کا بیٹا ہے۔‘‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا’’ اگر وہ مسلمان ہوجائے؟‘‘یہودی کہنے لگے’’ وہ ہرگز مسلمان نہیں ہوگا۔‘‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا’’ اے ابنِ سلام باہر آئو‘‘۔حضرت عبداللہؓ باہر آئے اور کہا’’ اے یہودیو! اللہ سے ڈرو، تم جانتے ہو کہ یہ اللہ کے رسولﷺ ہیں اور حق کے ساتھ آئے ہیں۔‘‘ یہودیوں نے کہا’’ تم جھوٹ بولتے ہو۔ تم سب سے بدتر اور سب سے بدتر آدمی کے بیٹے ہو۔‘‘

جنّت کی بشارت

حضرت سعد ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اُن کی زندگی ہی میں اُن کے لیے جنّت کی بشارت دے دی تھی(بخاری)۔ حضرت عبداللہؓ بن سلام کے چہرے سے خشوع ظاہر ہوتا تھا۔ ایک دن اُن سے کہا گیا’’ لوگ کہتے ہیں آپؓ جنّتی ہیں۔‘‘ کہنے لگے’’ اللہ کی قسم! کسی کو یہ سزاوار نہیں کہ وہ ایسی بات کہے، جس کا اُسے علم نہ ہو۔ مَیں تمہیں بتاتا ہوں کہ اِس کی وجہ کیا ہے۔ ایک مرتبہ مَیں نے خواب میں دیکھا کہ مَیں ایک باغ میں ہوں۔ جو بہت وسیع اور سرسبز و شاداب تھا۔ اُس کے درمیان لوہے کا ایک ستون تھا، جس کا اوپر کا حصّہ آسمان میں تھا۔ اس کے اوپر ایک کڑا لگا ہوا تھا۔ مجھ سے کہا گیا کہ ’’چڑھو‘‘، مَیں نے کہا’’ مَیں نہیں چڑھ سکتا۔‘‘ پھر ایک خادم آیا، اُس نے پیچھے سے مجھے اٹھایا۔ پھر مَیں اُس پر چڑھ کر اُس کی بلندی تک پہنچ گیا اور وہ کڑا پکڑ لیا۔ پھر مجھ سے کہا گیا’’ مضبوطی سے پکڑے رہو۔‘‘ پھر میں جاگ گیا۔ مَیں نے یہ خواب رسول اللہ ﷺ سے بیان کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا’’ وہ باغ اسلام ہے اور وہ ستون، اسلام کا ستون ہے۔ وہ کڑا، مضبوط کڑا ہے۔ تم اسلام پر قائم رہو گے، یہاں تک کہ تمہیں موت آئے‘‘( صحیح بخاری)۔

سیّدنا عثمانؓ کے محاصرے پر پُرجوش خطاب

سیّدنا عثمانِ غنیؓ کے گھر کا محاصرہ طول پکڑ گیا ہے۔ باغیوں نے شہرِ مدینہ کے امن و امان کو تہس نہس کردیا ہے۔ حضرت علی المرتضیٰ ؓاپنی سی سب کوششیں کرچُکے ہیں۔ حضرت عثمانؓ باغیوں سے جنگ پر آمادہ نہیں اور باغی اُنھیں شہید کیے بغیر واپس جانے پر راضی نہیں۔ اہلِ مدینہ خوف کے عالم میں اپنے گھروں میں بند ہیں۔ مدینے کے گلی کوچوں میں برہنہ تلواریں لیے باغیوں کا راج ہے، جو حضرت عثمانؓ کی حمایت میں بولے گا، اُس کا سرقلم کردیا جائے گا، لیکن اس سب کے باوجود سیّدنا علی المرتضیٰ ؓ کے نورِ نظر، سیّدہ فاطمۃ الزھراؓ کے لختِ جگر، نبی کریم ﷺ کی آنکھوں کے تارے، حسنین کریمینؓ، حضرت عثمانؓ کے گھر کے دروازے پر پہرے پر مامور ہیں۔ حضرت طلحہ ؓاور حضرت زبیرؓ کے فرزندِ ارجمند بھی پہرے داروں میں شامل ہیں۔ حضرت ابوہریرہ ؓ بھی باغیوں کے سر کچلنے کو تیار ہیں، لیکن سیّدنا عثمان غنیؓ کا سختی سے حکم ہے کہ اُن کی خاطر نبیؐ کے شہر میں خون نہ بہایا جائے گا۔ بالآخر ایک دن حضرت عبداللہؓ بن سلام باغیوں کو مخاطب کرتے ہیں’’ اے لوگو! مدینے والے میرے نام سے بہت اچھی طرح واقف ہیں۔ بے شک، خدا کے غضب کی تلوار میان میں ہے اور فرشتے اس شہر کی مجاورت کرتے ہیں۔ پس تم اس شخص کے قتل میں اللہ سے ڈرو۔ اللہ کی قسم، اگر تم ان کو قتل کرو گے، تو فرشتے تمہاری ہم سائیگی سے چلے جائیں گے اور اللہ کی بند تلوار تم لوگوں پر کھنچ جائے گی۔ پھر قیامت تک میان میں نہ ہوگی‘‘ (ترمذی)۔حضرت عبداللہؓ بن سلام کی اس پُرجوش تقریر کا باغیوں پر کچھ اثر نہ ہوا اور اُنہوں نے حضرت عثمانؓ کو شہید کردیا۔ اُنھیں حضرت عثمانؓ کی شہادت کا بے حد دکھ ہوا اور فرمایا’’آہ! آج عرب کی قوّت کا خاتمہ ہوگیا۔‘‘

غزوات میں شرکت

حضرت عبداللہؓ بن سلام نے غزوۂ بدر اور اُحد میں شرکت کی یا نہیں، اس سلسلے میں سیرت نگاروں میں اختلاف پایا جاتاہے، تاہم طبقات ابنِ سعد میں اُن کے دونوں غزوات میں شریک ہونے کی تصدیق ملتی ہے۔ البتہ غزوہ ٔخندق کے بعد ہونے والے غزوات میں وہ شریک رہے۔

علمی فضیلت

اپنے وقت کے بہت بڑے فقہیہ اور قرآنِ پاک کے عالم، حضرت معاذ بن جبلؓ کا جب آخری وقت قریب آیا، تو لوگوں نے اُن سے وصیّت کی درخواست کی۔ اُنہوں نے کہا’’ یاد رکھو! علم اور ایمان دو ایسی چیزیں ہیں کہ اگر کوئی شخص ان کا طلب گار ہو، تو یہ چیزیں اُسے مل جاتی ہیں۔ تمہیں اگر علم کی طلب ہو، تو اسے چار لوگوں سے حاصل کرو، عبداللہ بن مسعودؓ، سلمان فارسی، ؓابو الدرداءؓ اور عبداللہؓ بن سلام ۔‘‘ پھر فرمایا’’ عبداللہؓ بن سلام وہ شخص ہیں، جو یہودی تھے، پھر مسلمان ہوئے۔ مَیں نے رسول اللہ ﷺ سے سُنا ہے کہ’’ عبداللہؓ بن سلام’’ عشرہ مبشرہؓ ‘‘ کی طرح ہیں‘‘ (ترمذی)۔

یہودی قبائل پر اثرات

مدینہ منورہ میں برسوں سے آباد یہودی معاشی، معاشرتی اور سیاسی اعتبار سے بہت طاقت وَر حیثیت کے حامل تھے۔ نبی کریمﷺ کو اس بات کا احساس تھا کہ مدینہ ہجرت کے بعد اگر کوئی بڑی قوّت مسلمانوں کو زِک پہنچا سکتی ہے، تو وہ یہودی ہوں گے۔ رسول اللہ ﷺ حالات کی بہتری کے لیے دُعا فرماتے رہتے۔ ہجرت کے فوراً بعد یہودیوں کے سردار، امام اور سب سے بڑے عالم کا مسلمان ہو جانا، اللہ کی جانب سے ہجرت کے بعد مسلمانوں کو پہلا تحفہ تھا۔ ابنِ سلام کے اس فیصلے نے یہود کو ہلاکر رکھ دیا اور اُن کے مذموم عزائم خاک میں مل گئے۔ چناں چہ اس فیصلے نے یہودیوں کو فوری طور پر مسلمانوں کے خلاف کسی بڑی سازش سے باز رکھا۔ عبداللہؓ بن سلام کے ساتھ اُن کے خاندان اور قبیلے کے کئی سرکردہ یہودی بھی مسلمان ہوچُکے تھے۔ اس طرح اسلام کا انقلابی پیغام اُن کے گھروں کے اندر داخل ہوچُکا تھا۔ خاص طور پر یہودیوں کی نوجوان نسل کو اسلام کے انقلابی نظریئے میں بہت زیادہ کشش محسوس ہوتی تھی۔ حضرت عبداللہؓ بن سلام کے قبولِ اسلام نے یہود کے ناقابلِ تسخیر تصوّر کیے جانے والے اتحاد کی بنیادیں ہلادیں۔ چناں چہ بنو عوف سمیت یہودی قبائل بنی قینقاع، بنی نفیر، بنی قریظ اور قرب و جوار کے دیگر یہودی مسلمانوں سے معاہدہ کرنے پر مجبور ہوگئے، لیکن اس کے باوجود بنی نفیر سمیت اکثر انتہا پسند یہودی مدینے سے خیبر منتقل ہوگئے۔ رسول اللہ ﷺ، عبداللہؓ بن سلام سے بہت محبّت کرتے تھے اور دربارِ رسالت ﷺ میں اُن کا خاص مقام تھا، جن کی وجہ سے یہودی ہجرت کے ابتدائی دنوں میں مسلمانوں کے خلاف کوئی بڑی سازش کرنے میں ناکام رہے۔

قرآن میں گواہی

اللہ جل شانہ نے قرآنِ کریم میں بھی آپؓ کا ذکر کیا ہے۔ مفسّرین کے مطابق، سورۂ رعد کی آخری آیت اور سورۂ احقاف کی دسویں آیت میں حضرت عبداللہؓ بن سلام ہی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

وفات

حضرت عبداللہؓ بن سلام نے43ہجری میں حضرت امیر معاویہؓ کے دورِ حکومت میں مدینہ منورہ میں وفات پائی۔

تازہ ترین