• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صحتِ زباں: الفاظ اور محاورات کا درست استعمال (جاری ہے)

٭معنُون نہیں معنوَن

بعض اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگوں کو بھی دیکھا ہے کہ وہ معنو َن (میم پر پیش ، عین پر زبر، نون ساکن ، واوکے اوپر زبر) کو واو معروف کے ساتھ یعنی معنو ُن پڑھتے ہیںاور مثلاً یوں کہتے ہیں کہ فلاں صاحب نے اپنی کتاب کو فلاں سے ’’معنو ُن‘‘ کیا ہے۔لیکن ان معنوں میں ’’ معنو ُن‘‘ بالکل غلط ہے (بلکہ عربی کی معروف لغت’’ المنجد ‘‘کے مطابق المعنو ُ ن کا مطلب ہے دیوانہ)۔ معنوَن کا سہ حرفی مادہ ’’ع۔ ن۔ن‘‘ ہے۔ اس کے معنی ہیں عنوان لکھنا ۔ معنو َن کے معنی ہیں : عنوان کیا ہوا۔ کسی کتاب کو کسی سے معنو َ ن کرنے کامطلب ہے اس کا انتساب اس کے نام کرنا۔اس کو ’’مُعَنوَن ‘‘(مُعَن وَن )پڑھنا چاہیے۔

٭مہذِّ ب یا مہذَّب ؟

مہذَّب (ذال پرزبر، تشدید کے ساتھ) اور مہذّ ِب (ذال کے نیچے زیر، تشدید کے ساتھ ) دونوں درست ہیں، مگر دونوں کے معنی مختلف ہیں ، البتہ اب لوگ اس فرق کو سمجھے بغیر شائستہ ، بااخلاق اورآداب و تہذیب کا خیال رکھنے والے کو بھی ’’مہذِّب‘‘ (ذال کے نیچے زیر ) کہہ دیتے ہیں حالانکہ اس کا مطلب ہے تہذیب سکھانے والا، شائستگی سکھانے والا، لیکن جو تہذیب سیکھا ہوا ہو ، جس کی تہذیب کی گئی ہو یعنی تہذیب یافتہ ہو ، آداب اور شائستگی کا خیال رکھنے والاہو اُسے ’’مہذَّب ‘‘ (ذال کے اوپر زبر )کہتے ہیں۔

اکبر الہٰ آبادی نے جب ان لوگوں پر طنز کیا ،جو مغربی تہذیب کوا پنانا مہذَّب ہونے کی نشانی سمجھتے تھے تو کہا :

ہوئے اس قدر مہذَّب ، کبھی گھر کا منھ نہ دیکھا

کٹی عمر ہوٹلوں میں ، مرے اسپتال جا کر

مہذب اور تہذیب کا ذکر نکلا ہے تو بتاتے چلیں کہ لفظ تہذیب کی اصل بھی بہت دل چسپ ہے۔ احمد دین نے اپنی کتاب ’’سرگزشتِ الفاظ ‘‘ میں لکھا ہے کہ تہذیب کے لفظی معنی ، کھجور کے درخت کے تنے سے چھال کا ریشہ دور کرناہیں،گویاجب انسان سے رذیل باتوں کو چھیل کر الگ کر د یا جائے تو وہ مہذَّب یعنی تہذیب یافتہ ہوجاتا ہے۔ کہنا یہ مقصود ہے کہ جو تہذیب یافتہ ہو ،وہ مہذَّب (ذال کے اوپر زبر) ہے اور جو دوسروں کو تہذیب سکھائے، وہ مہذِّب (ذال کے نیچے زیر ) ہے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین