• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سبحان اللہ قدرت نے جب کوئی تاریخی اور عظیم کارنامہ سرانجام دینا ہوتا ہے تو کیسے کیسے وسائل مہیا کر کے راستہ بنا دیا جاتا ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح 25دسمبر 1876ء کو پیدا ہوئے اور علامہ اقبال 9نومبر 1877ء کو دنیا میں آئے۔ گویا علامہ اقبال محمد علی جناح سے ایک سال چھوٹے تھے۔ قائداعظم سے تقریباً ساڑھے نو برس قبل علامہ اقبال 21اپریل 1938ء کو انتقال کر گئے جبکہ قائداعظم گیارہ ستمبر 1948ء کے دن اللہ کو پیار ے ہوئے۔ علامہ اقبال فلاسفر شاعر تھے تو قائداعظم سیاستدان۔ علامہ فکر تھے تو جناح عمل۔ جب فکر اور عمل یکجا ہوئے تو قدرت نے دنیا کے نقشے پر ایک نئی مسلمان مملکت کی پیدائش کی نوید سنا دی۔ دونوں اپنا اپنا کام کر کے اور اپنے اپنے مشن کی تکمیل کے بعد دنیا سے رخصت ہوئے۔ قدرت کو علامہ اقبال سے مسلمان عوام کی بیداری، ان میں شعور اجاگر کرنے اور قائداعظم کو ایک آزاد مسلمان مملکت کے مطالبے پر آمادہ کرنے کا کام لینا تھا جبکہ قائداعظم سے پاکستان بنانے اور مسلمانوں کے صدیوں پرانے خواب کی عملی تعبیر کا کام لینا تھا۔ دونوں سرخرو ہو کر اپنے مالک حقیقی کے پاس چلے گئے۔ پاکستانی قوم دونوں کی احسان مند ہے۔ دونوں کی قلبی محبت کے سوتے مسلمان قوم کی محبت سے پھوٹتے تھے اور دونوں کی منزل ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے ایک آزاد خطہ زمین کا حصول تھا جہاں وہ اپنے مذہب اور ثقافت کے مطابق زندگی گزار سکیں۔

دسمبر 1930ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے الٰہ آباد اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے علامہ اقبال مسلمانوں کی منزل کی نشاندہی کرتے ہیں اور واضح کرتے ہیں کہ نہ ان کا کوئی سیاسی لیڈر ہے اور نہ ہی سیاسی جماعت لیکن جب محمد علی جناح 1933ء کے اواخر یا 1934ء کے آغاز میں جلاوطنی ترک کر کے انگلستان سے واپس ہندوستان آتے ہیں اور سیاسی سرگرمیوں کے ذریعے مسلم لیگ کے تنِ مردہ میں نئی روح پھونکنے کے لئے جدوجہد کرتے ہیں تو چند ہی برسوں میں علامہ اقبال یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ اس وقت مسلمانوں کے پاس جناح سے بہتر کوئی سیاسی راہنما نہیں۔ سید نذیر نیازی ’’اقبال کے حضور میں‘‘ کئی مقامات پر ذکر کرتے ہیں کہ علامہ اقبال، محمد علی جناح سے متاثر ہو کر فرماتے تھے کہ جناح مسلمانوں کا نجات دہندہ ہے۔ جس روز محمد علی جناح نے بندے ماترم کو کافرانہ ترانہ قرار دیا اس روز بقول نذیر نیازی علامہ بہت خوش ہوئے۔ پنجاب مسلم لیگ کے حوالے سے بھی علامہ اقبال محمد علی جناح کو مسلسل آگاہ کرتے رہے اور پھر دونوں میں ذہنی ہم آہنگی اتنی پختہ ہوگئی کہ علامہ اقبال نے محمد علی جناح کو فکری راہنمائی مہیا کرنے کا فیصلہ کیا۔ اسی سلسلے کی فیصلہ کن کڑی وہ خطوط تھے جو علامہ اقبال نے 1936-37-38کے دوران قائداعظم محمد علی جناح کو لکھے۔ یہ خطوط کتابی صورت میں چھپ چکے ہیں۔ بہت سے شواہد سے صرفِ نظر کرتے ہوئے صرف دو واقعات کا حوالہ دے رہا ہوں جن سے احساس ہوتا ہے کہ علامہ اقبال محمد علی جناح کو مسلمانوں کا واحد لیڈر سمجھتے تھے اور ان کے کردار سے حد درجہ متاثر تھے۔ یہی ان کی باہمی عقیدت اور محبت کی بنیاد تھی۔ 1936ء میں ایک روز علامہ اقبال کے ہاں محمد علی جناح کی دیانت، امانت اور قابلیت کا ذکر ہورہا تھا تو علامہ نے فرمایا ’’مسٹر جناح کو خدا تعالیٰ نے ایک ایسی خوبی عطا کی ہے جو آج ہندوستان کے کسی مسلمان میں مجھے نظر نہیں آتی۔ حاضرین میں سے کسی نے پوچھا تو علامہ نے انگریزی میں کہا:

He is incorruptable and unpurchaseable.

(بحوالہ اقبال کے خطوط جناح کے نام مرتبہ محمد جہانگیر عالم ص24) پھر 21جون 1937ء کے خط بنام جناح میں لکھا ’’اس وقت جو طوفان شمال مغربی ہندوستان اور شاید پورے ہندوستان میں برپا ہونے والا ہے اس میں صرف آپ کی ذات گرامی ہی قوم کی راہنمائی کا حق رکھتی ہے‘‘۔

علامہ اقبال کے خطوط بنام محمد علی جناح پڑھیں تو احساس ہوتا ہے کہ کس طرح علامہ اقبال نے قائداعظم کی فکری راہنمائی کی اور انہیں مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ وآزاد وطن کے قیام کا مطالبہ کرنے پر آمادہ کیا۔ تاریخ کا ذرا گہری نظر سے مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ خود قائداعظم بھی اس حقیقت کے قائل تھے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کا مستقبل ایک آزاد وطن کے قیام میں مضمر ہے۔ مسئلہ اس کے مطالبے کے لئے موزوں وقت کا تھا جس پر علامہ نے اپنے خطوط میں زور دیا۔ Fateful Yearsمیں مصنف لکھتا ہے کہ میں نے قائداعظم سے پوچھا ’’آپ کو مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ آزاد وطن کا خیال کب سوجھا؟‘‘ قائداعظم نے فوراً جواب دیا ’’1930ء‘‘۔ یہی خطبہ الٰہ آباد کا سال ہے۔ علامہ نے اپنے خط مورخہ 28مئی 1937ء میں واضح کیا کہ مسلمانوں کے معاشی مسائل کا حل اسلامی شریعت کے نفاذ میں موجود ہے لیکن شریعت اسلام کا نفاذ ایک آزاد مسلم ریاست کے بغیر ناممکن ہے.... مسلمانان ہندوستان کے مسائل کو حل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ملک کو ایک یا زیادہ مسلم ریاستوں میں تقسیم کیا جائے جہاں مسلمانوں کی واضح اکثریت ہو۔ کیا آپ کی رائے میں اس مطالبہ کا وقت نہیں آپہنچا؟‘‘ اسی پس منظر میں دونوں لیڈروں کے درمیان طے ہوا کہ مسلم لیگ کا اجلاس بلایا جائے۔ قائداعظم محمد علی جناح مسلم لیگ کا اجلاس کسی مسلمان اقلیتی صوبے میں منعقد کرنا چاہتے تھے لیکن علامہ کے مشورے پر یہ اجلاس لاہور میں منعقد کرنے کا فیصلہ ہوا حتیٰ کہ علامہ نے اس اجلاس کے لئے موزوں وقت اور موسم بھی تجویز کیا۔ یہی وہ تاریخی اجلاس تھا جو مارچ 1940ء میں لاہور میں ہوا اور جس میں قرارداد لاہور یعنی قرارداد پاکستان منظور کی گئی۔ ان خطوط کے پیش لفظ میں قائداعظم نے لکھا کہ ان کے خیالات مکمل طور پر میرے خیالات سے ہم آہنگ تھے اور بالآخر ہندوستان کے دستوری مسائل کے حل کے لئے میں انہی نتائج پر پہنچا.... یہی خیالات مسلمانوں کی متحدہ خواہش کی صورت میں آل انڈیا مسلم لیگ کے 23مارچ 1940ء کی قرارداد میں جلوہ گرہوئے۔ اسی پس منظر میں قرارداد پاکستان کی منظوری کے بعد قائداعظم نے فرمایا تھا آج اقبال زندہ ہوتے تو بہت خوش ہوتے۔ ہم نے وہی کر دکھایا جو وہ چاہتے تھے۔ دونوں کی ذہنی ہم آہنگی کااندازہ اس سے کیجئے کہ 21اپریل 1938ء کو علامہ اقبال کی وفات پر قائداعظم نے فرمایا ’’وہ میرے ذاتی دوست، فلاسفر اور راہنما تھے اور وہی میری ذہنی اور روحانی راہنمائی کا بڑا ذریعہ تھے‘‘ (قائداعظم کی تقاریر جلد IIخورشید یوسفی ص 795) قراردادِ پاکستان کی منظوری کے دو دن بعد 25مارچ 1940ء کو لاہور میں یوم اقبال منایا گیا جس میں تقریر کرتے ہوئے قائداعظم نے کہا کہ اگر مجھے کسی مسلمان ریاست کی حکمرانی اور کلامِ اقبال میں انتخاب کی پیشکش کی جائے تومیں کلامِ اقبال کو حکمرانی پرترجیح دوں گا (خورشید یوسفی ص 1188) مختصر یہ کہ تصور پاکستان کی تشکیل میں علامہ اقبال اور قائداعظم کی گہری ذہنی وفکری ہم آہنگی اور علامہ کی روحانی راہنمائی نے اہم کردار سرانجام دیا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین