• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صدیوں کی ریاضت کے بعد مفکرین اور سیاستدان اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ پارلیمان جیسا ادارہ ہی عوام کی اُمنگوں خواہشات اور ان کے حقیقی مسائل کا جائزہ لے سکتا ہے۔ تجزیہ کر سکتا ہے اور پریشانیوں کو دور کرنے کے لیے قانون سازی کر سکتا ہے۔ اسی لیے اسے مقننہ کا نام بھی دیا گیا۔

ہماری پارلیمان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے پارلیمنٹ کے اندر بیٹھے معزز ارکان بھی بیزار ہو رہے ہیں۔

زبان بگڑی سو بگڑی تھی، خبر لیجئے دہن بگڑا

صدیوں سے کہا جاتا تھا کہ یہ غیر پارلیمانی لفظ ہے۔ اسے حذف کر دیں۔ اب پارلیمنٹ میں وہی غیر پارلیمانی الفاظ حاوی ہو گئے ہیں۔

تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا

مہذب ملکوں میں پارلیمنٹ واقعی بہت مقدس، بہت نمائندہ ہوتی ہے۔ اس میں مباحثے کا معیار بلند ہوتا ہے۔ موضوعات دیانتداری اور ذمہ داری سے چُنے جاتے ہیں۔ وہاں انتخابی نظام کو مسلسل بہتر بناتے ہوئے یہ اعتماد حاصل ہو گیا ہے کہ اب پارلیمنٹ میں وہی افراد پہنچتے ہیں جو اس کے حقدار ہوتے ہیں۔ پھر وہ اپنے علاقے کی اجتماعی دانش کی نمائندگی بھی کرتے ہیں۔ اپنے حلقے کے مسائل کو قومی اور بین الاقوامی تناظر میں دیکھ کر ان کا حل بھی تجویز کرتے ہیں۔ پارلیمنٹ کے اس درجہ فعال، معیاری اور مخلص ہونے کے باوجود ان مہذب جمہوری ملکوں میں پارلیمنٹ کے باہر موجود دانش اور صلاحیتوں سے بھی فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ مقصد ملک کو آگے لے جانا اور عوام کی زندگی کو آسان سے آسان اور محفوظ سے محفوظ تر بنانا ہوتا ہے۔ آج وہاں کے پُرسکون اور آگے بڑھتے معاشرے کی کشش ہی پاکستان اور دوسرے پسماندہ ملکوں سے نوجوانوں کو ان ملکوں میں لے جاتی ہے۔ یہ سکون اور آگے بڑھنے کا رُجحان اچانک حاصل نہیں ہو گیا۔ اس کے پیچھے برسوں کی مسلسل کوششیں ہیں۔ متفقہ طور پر روڈ میپ طے کر لیے گئے ہیں۔ حکمران اور اپوزیشن اس متفقہ طور پر طے شدہ روڈ میپ پر تسلسل سے عمل کرتے ہیں۔ دوسرے اختلافات اپنی جگہ رہتے ہیں لیکن جن قومی مفادات کا تعین کر لیا گیا ہے ان پر عملدرآمد کے لیے سب پورے خلوص اور تندہی سے دن رات مصروف رہتے ہیں۔ پارلیمنٹ سے باہر بکھری دانشمندی کو امور مملکت میں بروئے کار لانے کے لیے ایسے محکمے موجود ہیں جو اخبارات کے اداریوں، ایڈیٹر کے نام خطوط، ٹی وی چینلوں کے مباحثوں، یونیورسٹیوں میں تحقیقی مقالات اور سیمینارز کے اہم نکات کو قلمبند کرتے ہیں۔ متعلقہ وزیروں تک پہنچاتے ہیں۔ ہر مہذب ملک میں کوئی نہ کوئی ایسا ادارہ ہے جہاں قومی سمت کا تعین کیا جاتا ہے۔ National Directions Centreقائم کیے گئے ہیں۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ جماعتی جانبداری اور وابستگی سے بالاتر تجاویز اور منصوبے مل سکیں۔ یہ ایک فطری امر ہے کہ کسی پارٹی سے وابستہ سیاسی رہنما، رکن پارلیمنٹ اپنی پارٹی لائن سے ہٹ کر نہیں بول سکتا۔ پاکستان میں تو اٹھارہویں ترمیم کی تلوار سر پر لٹکتی رہتی ہے۔ ترقی یافتہ جمہوری ملکوں میں پارلیمنٹ کے ارکان بھی اپنے اپنے حلقے کے مدبرین، دانشوروں، پروفیسروں اور دیگر صاحبان رائے سے وقفے وقفے سے ملتے رہتے ہیں۔ اب تو اطلاعات اور مواصلات جدید ترین اور تیز ترین ہو گئے ہیں۔ بالمشافہ ملاقات نہ بھی ہو تو واٹس ایپ ہے، ای میل ہے۔ یہ ارکان جب پارلیمنٹ کے مباحثوں میں اظہارِ خیال کرتے ہیں تو ان ملاقاتوں کا حاصل ان کی تقریروں میں جھلکتا ہے۔

پارلیمنٹ سے باہر کی دانش خالصتاً حبِ وطن اور قومی مفادات کی پاسداری، جماعتی سیاست سے بالاتر اور کسی مالی فائدے کا لالچ نہیں ہوتا ہے۔

پاکستان میں جہاں پارلیمنٹ، ناقص انتخابی نظام، سماجی رُجحانات، جاگیردارانہ سماج، شہروں میں برادری، ٹرانسپورٹ، واٹر، لینڈ مافیائوں کے سبب اتنی نمائندہ نہیں ہے‘ ارکان اتنے دیانتدار، روشن خیال نہیں ہیں۔ پھر وہ اپنے علاقے کے پڑھے لکھے نوجوانوں، علماء، پروفیسرز، ریٹائرڈ بیورو کریٹوں، جنرلوں، بریگیڈئیروں سے ملنا بھی کسر شان سمجھتے ہیں۔ البتہ کسی حاضر سروس میجر سے بھی ملاقات ہو جائے تو ان کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ ڈپٹی کمشنر اذن باریابی دے تو اسے اپنا فخر خیال کرتے ہیں۔ جہاں وزرا اپنے شعبے کے سابق وزرا سے رہنمائی نہیں لیتے، ریٹائرڈ سیکرٹریوں سے تبادلہ خیال نہیں کرتے۔ وہاں پارلیمنٹ سے باہر موجود غیر سیاسی، غیر جماعتی، غیر متعصب دانش سے فائدہ اٹھانا اور بھی زیادہ ضروری ہے۔ وقت للکار رہا ہے۔ تاریخ خطرے کی گھنٹی بجا رہی ہے۔ محکموں کا معیار گر رہا ہے۔ حکمرانی ابتر ہو رہی ہے۔ سب یہ برملا کہہ رہے ہیں۔ اس لیے اور بھی ناگزیر ہو گیا ہے کہ حکومتیں پارلیمنٹ سے باہر لاکھوں دانشوروں، پروفیسروں، وکلاء، علماء، ڈاکٹروں، ادیبوں، شاعروں، محققین اور ٹیکنو کریٹس کی درد مندی، صلاحیتوں اور تجربات سے استفادہ کریں۔

ہوا یہ ہے کہ پہلے باری لینے والی دونوں پارٹیاں اپنے آپ کو عقل کُل سمجھتی تھیں اور ایسے لوگوں سے بات کرنا چاہتی تھیں جو اپنا دماغ استعمال نہ کرتے ہوں۔ ایک صاحب کے سامنے جب کسی بھی مشاورت، سینیٹ کے ٹکٹ یا کسی کلیدی عہدے پر تعین کے لیے فہرستیں لائی جاتی تھیں تو وہ اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ قابل اور اہل شخص کے نام پر یہ کہہ کر سرخ کاٹا لگا دیتے تھے کہ نہیں، یہ اپنی عقل استعمال کرتا ہے۔ یہ ہمارے ساتھ نہیں چلے گا۔ دوسری قیادت ہر شخص کے بارے میں یہ پوچھتی تھی کہ ایہہ ساڈے نال ہے کہ نہیں۔

اب جب نئے حکمران یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ وہ دوسروں سے مختلف ہیں اور تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ پارلیمنٹ سے باہر بکھری دانش اور درد مندی سے فائدہ اٹھانے کا کوئی باقاعدہ نظام تشکیل دیں۔ یہ اپنے اپنے شعبے کے ماہر ہیں۔ پاکستان کی معیشت کو سمجھتے ہیں۔ ہماری ناکامی کے اسباب کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کرتے ہیں۔ مقالات لکھتے ہیں۔ کتابیں تصنیف کر چکے ہیں۔ بین الاقوامی کانفرنسوں اور سیمیناروں میں شرکت کرتے ہیں۔ ان کا ذہنی افق وزرا اور سیاسی رہنمائوں سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔

آپ جب ڈیم بنانے، قرض اتارنے، اسپتال تعمیر کرنے میں باہر سے چندہ مانگتے ہیں تو تھوڑی سی دانش، تھوڑی سی مثبت تجاویز بھی پارلیمنٹ کے باہر سے مانگ کر دیکھیں، کتنے مالا مال ہو جائیں گے آپ۔ یہ بھی جان لیجئے کہ ہر پاکستانی ملکی ناکامیوں سے کرب میں مبتلا ہے۔ ہر ہم وطن کے پاس کچھ اچھی تجاویز ہیں۔ یہ جو تعلیم، معیشت، ارضیات، پٹرولیم، مالیات، سیاحت، صحت، زراعت اور دوسرے شعبوں کے اساتذہ ہیں ان کے خیالات بہت قیمتی ہیں۔ انہوں نے پوری زندگی ان علوم کی جدید و قدیم کے مطالعے میں گزاری ہے۔ پنجاب، سندھ، کے پی، بلوچستان، گلگت، آزاد جموں و کشمیر سب جگہ ایسی محترم ہستیاں موجود ہیں جو چلتی پھرتی لائبریریاں ہیں، جو سراپا تھنک ٹینک ہیں، مجسم توانائیاں ہیں۔ کوئی ایسا نیٹ ورک، سافٹ ویئر بنائیں کہ ان کا درد، ان کی دانش، اعلیٰ ترین حکومتی سطح تک پہنچے۔ اس سے کابینہ کی رہنمائی کریں۔ ارکان پارلیمنٹ ان سے روشنی حاصل کریں۔ بہت سے مخلص پاکستانی یہ تجاویز لیے اللہ کو پیارے ہو گئے۔ پارلیمنٹ سے باہر کی دانش جرنلوں، کتابوں اور مقالات میں سسکیاں لے رہی ہے۔ ماہ و سال کی گرد اس پر جم رہی ہے اور ادھر وحشتیں دندنا رہی ہیں۔ جہل کے لشکر ہماری روایات کو روند رہے ہیں، ہماری تہذیب کو مسلکی تعصبات سے کچلا جا رہا ہے۔ پاکستان کی اکثریت اب اس موڑ کو تاریخ کا فیصلہ کن موڑ بنانا چاہتی ہے اور یہ سب کچھ مل جل کر ہی ہو سکتا ہے۔

تازہ ترین