• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پروفیسر محمد فاروق قریشی، لاہور

 1984ء میں امریکا سے پاکستان واپسی کا ارادہ کیا، تو راستے میں بیت اللہ شریف اور روضۂ رسول ﷺُ پر حاضری کی خواہش دل میں مچلنے لگی کہ اللہ رب العزت نے موقع دیا ہے، تو کیوں نہ اس سے فائدہ اٹھایا جائے۔ دنیا کمانے کے ساتھ دین کی فکر بھی ضروری ہے۔ جو خوش حالی دیتا ہے، رزق میں کشادگی پید اکرتا ہے، اسے یاد کرنا اور اس کا شُکر ادا کرنا انسان پر لازم ہے۔ یہی سوچ کر نیویارک میں سعودی قونصلیٹ کے ویزا سیکشن میں عمرہ ویزے کے لیے درخواست جمع کروادی، لیکن ایک ہفتے بعد معلوم ہوا کہ انہوں نے بغیر کسی وجہ کے ویزا دینے سے انکار کردیا ہے۔ سخت مایوسی اور صدمہ ہوا کہ کیا ایک مسلمان کو بغیر کسی معقول جواز کے حرمین شریفین کی زیارت سے محروم کیا جاسکتا ہے۔بہت غصّہ آیا اور افسوس بھی ہواکہ حرمین شریفین جانا اور عمرہ و حج ادا کرنا توہر مسلمان کا حق ہے۔ پھر خیال آیا کہ نہیں، اللہ کے گھر ہر کوئی نہیں جاسکتا، وہی جاتا ہے، جس کا بلاوا ہو، جسے خانہ ٔ خدا اور دیارِ حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی حاضری کی سعادت نصیب ہو۔ کیا خوب کہا گیا ہے کہ؎جسے چاہا در پہ بلا لیا، جسے چاہا اپنا بنالیا .....یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے ،یہ بڑے نصیب کی بات ہے۔سو، رب کے حضور گڑگڑ ا گڑگڑا کے دعا کی کہ ’’اے اللہ! اب جب کہ تُونے ہمیں اپنے گھر جانے کی استطاعت دےدی ہے، تو اس نعمت سے محروم کیوں کررہا ہے؟‘‘اورسچّے دل سے نکلی ہوئی صدا ربِ کریم نے سن لی۔ بلاشبہ، وہ سمیع وعلیم و خیبر ہے، اس ربِ کریم نے ہمیں پاکستانی قونصلیٹ کا راستہ سجھادیا۔ چناں چہ ہم سیدھے وہاں جاپہنچے اور اپنی مشکل بیان کی، تو انہوں نے تحمّل سے عرض داشت سنی اور درخواست کے ساتھ ایک تعارفی خط لگاکر دوبارہ درخواست جمع کروانے کی ہدایت کی۔ ہم نے فوری ہدایت پر عمل کیا اور پھر چند ہی دنوں میں ویزا مل گیا۔اللہ پاک کا شُکر ادا کیاکہ شاید غیرممالک میں عمرہ ویزے کے حصول کا یہی طریقہ ٔ کار مروّج ہو، جس کا ہمیں علم نہ تھا۔

ویزا ملتے ہی سفر کی تیاری شروع کردی۔ احرام بھی خرید لیا، لیکن پہنا نہیں۔ جدّے میں مقیم اپنے کزن، ڈاکٹر مسعود احمد قریشی کو، جو کنگ عبدالعزیز یونی ورسٹی میں پروفیسر تھے، فون پر اپنی آمد سے مطلع کیا اور پھرجس روز ہم جدّہ ائرپورٹ پر اترے، وہ ہمارے استقبال کے لیے پہلے سے موجود تھے۔ رات کا وقت تھا، گاڑی دو رویہ شاہ راہ پر تیز رفتاری سے دوڑ رہی تھی۔ ہمارا ارادہ تھا کہ رات ڈاکٹر صاحب کے گھر گزار کر اگلے دن احرام باندھ کر عمرے کے لیے مکّہ معظمہ جائیں گے۔ ہمیں یقین تھا کہ ہم اپنے کزن ہی کے گھر جارہے ہیں، مگر آدھا گھنٹہ گزرگیا، آبادی کے آثار تک نظر نہ آئے، تو ہم نے تجسّس کے عالم میں کزن سے پوچھا ’’ہم کہاں جارہے ہیں؟‘‘ انہوں نے جواب دیا ’’مدینہ منوّرہ۔‘‘ دراصل، ڈاکٹر صاحب، اختتامِ ہفتہ پر دو چھٹیاں ہونے کے باعث مدینہ منوّرہ جانے ہی کے لیے تیار ہوکر آئے تھے۔ مدینے کا نام سنتے ہی یک دَم عقیدت و محبت، خوشی و مسّرت کے جذبات غالب آگئے۔ یعنی ہم پہلے اپنے پیارے آقا و مولا، ہادئ برحق، حضرت محمد ﷺُ کے درِاقدس پر حاضری دیں گے۔ درود و سلام پیش کریں گے۔ مسجد نبوی ؐ میں نمازیں اور ریاض الجنّہ میں نوافل پڑھیں گے۔ یوں بھی ادب آداب کا یہی تقاضا تھا کہ اللہ کے گھر حاضری سے پہلے اللہ کے محبوب ؐ کے گھر حاضری دی جائے۔ آپؐ پر لاکھوں کروڑوں سلام اور اللہ کی رحمتیں ہوں۔ آپ ؐ اللہ کے افضل ترین بندے اور امام الانبیاء ہیں۔؎ لایمکن الثّناء کما کان حقّہ ......بعد از خدا بزرگ توئی، قصّہ مختصر

یہ ہماراارضِ مقدس کا پہلا سفر تھا۔ مدینہ منورہ جاتے ہوئے مسلسل لبوں پر بہترین ذکر، درود شریف کا ورد جاری رہا۔ راستے میں ایک جگہ رُکے، وہاں پیٹرول اسٹیشن کے علاوہ ایک مطعم اور مسجد بھی موجود ہے۔ وہیں کھانا کھایا اور تازہ دم ہوکر آگے چل پڑے۔ جوں جوں شہرِمدینہ قریب آتا جارہا تھا، دل میں جذبات کا تلاطم بڑھتا جا رہا تھاکہ جن کے لیے ہمیشہ درود و سلام پڑھتے رہے، آج ان ؐ کے درِ اقدس اور روضےکی زیارت نصیب ہورہی تھی۔ ان گلیوں میں چلنے کی سعادت حاصل ہورہی تھی، جہاں سرور کونین ؐ، آپ ؐ کے اہل بیت ؓ اور صحابہؓ قدم رنجہ فرماتے رہے۔یہی سوچ سوچ کر دل بے اختیار بھر آیا۔

علی الصباح تین بجے ڈاکٹر صاحب نے ایک مسجد کے سامنے گاڑی روکتے ہوئے بتایا کہ یہ مسجدِ قبا ہے۔ اسلام کی یہ پہلی مسجد، مدینے سے چند کلو میٹر دورایک نواحی بستی میں واقع ہے۔ اس کی بنیاد حضور نبی اکرم ؐ نے ہجرت کے سفر میں رکھی اور وہاں نماز ادا کی۔ اس مسجد میں نماز ادا کرنے کی بڑی فضیلت ہے، دو نفل پڑھنے کا ثواب مقبول عمرے کے برابر ہے۔ دنیا بھر کے زائرین مدینے میں داخل ہونے سے پہلے خیر و برکت کے لیے یہاں نوافل ادا کرتے ہیں۔ ہم نے بھی دو نفل ادا کیے۔ تصور میں حضور پُرنور ؐ کی ہجرت کا منظر آگیا۔ اس وقت کی ایک چھوٹی سی مسجد، اب ایک وسیع و عریض، شان دار مسجد میں تبدیل ہوچکی ہے۔ یہاں سے کچھ ہی آگے گئے تھے کہ ایک مسجد کے مینار نظر آئے۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا ’’یہ مسجد نبوی ؐ کے مینار ہیں۔‘‘ یہ سن کر فرطِ مسّرت سے جسم کا رواں رواں کانپ اٹھا۔ اللہ اللہ، اشتیاق اور بڑھ گیا۔ حضورؐ کی قربت کے احساس نے دل کو مضطرب ساکردیا۔ ؎جب مسجد نبویؐ کے مینار نظر آئے .....اللہ کی رحمت کے آثار نظر آئے ۔اب گنبدِ خضریٰ نگاہوں کے عین سامنے تھا۔ ہم جس وقت مسجد کے قریب پہنچے، فجر کی اذان ہو رہی تھی۔ عجب سحر انگیز فضا تھی۔ مسجد نبوی ؐروشنیوں میں جگمگاتی اپنی طرف بلا رہی تھی کہ ’’آئو اور سرورِ کونین، فخرِ موجودات، محبوبِ خدا کی قدم بوسی کرو۔ اپنے آقا، معلمِ انسانیت، تاج دارِ مدینہ کے دامنِ رحمت میں پناہ لے لو۔‘‘ ہمارے پاس بس اتنا وقت تھا کہ گاڑی پارک کرکے نماز میں شریک ہوجائیں۔ امام صاحب کی آواز صاف اور توانا اور تلاوت دل چھولینے والی تھی۔ بلاشبہ، مسجد نبویؐ میں اس پہلی نماز کا سرور اور مسّرت، زندگی بھر بھلائی نہیں جاسکتی۔ نماز کے بعد ہم سلام پیش کرنے کے لیے روضہ رسول ؐکے سامنے سے گزرنے والے زائرین میں شامل ہوگئے۔ سب خاموشی اوراحترام کے ساتھ آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہے تھے۔ آخر ہم بھی روضہ ٔ رسولؐ کی جالیوں کے سامنے پہنچ گئے۔ ایک دیرینہ اور مقدّس خواہش کی تکمیل ہو رہی تھی۔ وہاں با ادب کھڑے ہو کر سلام و درود کے نذرانے پیش کیے۔ جتنی دیر وہاں رکنے کی اجازت ملی، روضے کی جالیوں ہی کو تکتے رہے۔نبی پاک ؐ کے وصال کے بعدروضے پر حاضری ہی ان سے ملاقات کے مصداق ہے۔ پھر قبلہ رو ہو کرتہہ دل سے دُعا مانگی۔ اس وجد آفریں کیفیت میں جو کچھ یاد آیا، مانگ لیا۔

مدینہ منورہ میں دو دن قیام کے دوران ساری نمازیں حرمِ نبویؐ میں پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ ریاض الجنّہ اور اصحابِ صفّہ کے چبوترے پر نوافل ادا کیے اور قرآن کی تلاوت بھی کی۔ اُس وقت آج کل کی طرح ہجوم اور دھکم پیل نہیں تھی۔ تمام مقدّس مقامات پر آسانی اور اطمینان کے ساتھ عبادات اور روح کی سیرابی کا موقع ملا۔ بابِ جبریل ؑ سے باہر ایک پوری مارکیٹ تھی۔ قطاروں میں لکڑی کے اسٹالز یا کھوکھے لگے ہوئے تھے، جن پر کھجوریں، ٹوپیاں، تسبیحیں، عطر، اسکارف اور عبایا دستیاب تھے۔ مارکیٹ سے آگے آبادی تھی، عام سے گھر، کچّی گلیاں، سڑک کے پار جنّت البقیع واقع ہے۔ ہم نے وہاں مدفون صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعینؓ کی قبروں کے نشانات بھی دیکھے۔ سب مرحومین کے لیے فاتحہ پڑھی۔ دوسرے دن مدینہ منورہ کے مقاماتِ مقدّسہ کی زیارات کے لیے گئے۔ جبلِ اُحد، شہدائے اُحد کے مزارات، سبعہ مساجد، مسجد قبلتین، بئرعثمان کی زیارت کی۔ ڈاکٹر صاحب اس سفر میں ہمارے گائیڈ تھے۔ عشاء کی نماز اور روضہ مبارک پر حاضری کے بعد ہم نے مکّہ معظمہ کی طرف واپسی کا سفر شروع کردیا اور مدینہ منورہ سے چند کلو میٹر باہر میقات سے احرام باندھ لیا۔ چار گھنٹے کے مسلسل سفر کے بعد ہم اللہ کے حرم کے سامنے تھے۔ حرم کے اندر آہستہ آہستہ چلتے گئے اور اچانک بیت اللہ کے سامنے پہنچ گئے۔ جس خانہ کعبہ کی طرف منہ کرکے نمازیں پڑھتے رہے، وہ آج نظروں کے سامنے تھا۔ قدم وہیں رُک گئے۔ دستِ دُعا بلند ہوگئے۔ کیا مانگا، کیا نہیں مانگا، لفظوں کے پیرائے میں سمونا ممکن نہیں، بس ناقابلِ بیان ہے۔ ؎کعبے پہ پڑی جب پہلی نظر.....کیا چیز ہے دنیا، بھول گیا ۔یوں محسوس ہوتا تھا، وقت تھم گیا۔ ہے۔ زندگی کی ساری بھاگ دوڑ اور کشا کش رک گئی۔ آخری منزل آگئی، جس سے آگے کچھ نہیں۔ یہ اللہ کا گھر ہے۔ وہ اپنے مہمانوں سے کہتا ہے۔ ’’مانگو، کیا چاہتے ہو؟ جو مانگو گے، ملے گا، بہ شرط یہ کہ میرا بندہ بن کر عاجزی، خلوص سے مانگو۔‘‘ ربِ کائنات ایسا قادرِ مطلق اور غنی ہے کہ اپنے آگے ہاتھ پھیلانے والے کو ضرور عطا کرتا ہے، کسی کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتا۔ دعا کے بعد صحنِ کعبہ میں داخل ہوئے اور طواف شروع کردیا۔ اپنے محبوب خالق کے گھر کے سات چکّر، دعائیں پڑھتے ہوئے۔ رکنِ یمانی کو چھوتے ہوئے۔ آخر میں حجر اسود کو بوسہ دیا۔ ملتزم سے لپٹ کر دعائیں مانگیں۔ اشکِ ندامت بہائے۔ مقام ابراہیم ؑ پر امام الانبیا سیّد المرسلین، فخرِ موجودات، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جدِ امجد، حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نقشِ پا ملاحظہ کیا اور مقامِ ابراہیم ؑ پر دو نفل ادا کیے۔ پھر چاہِ زم زم پر جا کر آبِ زم زم نوش کیا۔ کیا خوش ذائقہ مشروب ہے۔ ڈاکٹر صاحب طواف کے بعد واپس چلے گئے اور ہم عمرے کی تکمیل میں مصروف ہوگئے۔

اب باری تھی سعی کی۔ صفا سے شروع کرکے مروہ تک سات چکّر دعائیں پڑھتے مکمل کیے۔ پھر حرم سے باہر نکل کر سر کے بال قصر کروائے۔ ہوٹل جا کر نہائے اور دوسرے کپڑے پہنے۔ اگلے روزمسجدِ عائشہؓ سے دوبارہ احرام باندھ کردوسرا عمرہ ادا کیا۔ اس بار ہم نے سرکا حلق کروایا۔ باقی وقت حرم میں نمازیں اور نوافل پڑھنے، تلاوت اور ذکر میں صرف کیا۔ مغرب کے بعد صحنِ حرم کی پُرکیف و پُرنور فضا میں بیٹھ کر کعبے کے دیدار سے شرف یاب ہوتے اور ساری دنیا سے آئے متوالوں کو دیوانہ وار طواف کرتے دیکھتے رہے۔ اس میں بھی ایک ناقابلِ بیان لطف تھا۔ حقیقت میں جو تسکینِ نظر اور سکونِ قلب یہاں آکر ملا وہ پاکستان میں میسّر تھا، نہ پیرس اور نیویارک میں۔؎فضائے حرم اور میں اللہ اللہ..... یہ لطف و کرم اور میں، اللہ اللہ .....صدائے خلیل اور لبیک امّت.....یہ لطف و کرم اور میں، اللہ اللہ.....طوافِ حرم میں ہیں دونوں ہی بے خود .....میری چشمِ نم اور میں، اللہ اللہ.....سیاہ پیرہن و بصد ناز و غمزہ .....نہاں وہ صنم اور میں، اللہ اللہ

تیسرے دن کعبہ کے مالک و مکین سے اجازت لی، طوافِ رخصت کیا اور جدّہ آگئے۔ ڈاکٹر صاحب رخصت کرنے آئے۔ ہم نے ان کا شکریہ ادا کیاکہ اُن کی وجہ سے ہمارا حرمین شریفین کا سفر اور قیام انتہائی سہل ہوگیا تھا۔ قربان جائوں اس مالک ارض و سماء کے، جس کے عطا کرنے کے طریقے نرالے ہیں۔ اس نے ہمارے سفرِ امریکا کو ارضِ مقدّس کے سفر کا ذریعہ بنادیا۔

تازہ ترین