• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فاروق عادل،عیسٰی خیل، میاں والی

دریائے سندھ کے غربی کنارے پر آباد قصبہ، عیسیٰ خیل منفرد تاریخ لیے ہوئے ہے، تو دوسری طرف، دنیائے ادب میں بھی اس کا کردار کافی جان دار ہے۔ دریائے سندھ کی طغیانیاں، تلوک چند محرومؔ اور جگن ناتھ آزادؔ کے فکرو فن کو جِلا بخشتی رہیں۔ محرومؔ اور آزادؔ سے پہلے اُردو ادب، خصوصاً اُردو شاعری کے میدان میں عیسیٰ خیل میں کوئی نمایاں شخصیت نظر نہیں آتی۔ تقسیمِ ہند کے بعد محرومؔ کا گھرانہ بھارت نقل مکانی کر گیا۔ ان دو شاعروں کی نقل مکانی کی وجہ سے تھمنے والے ادبی سلسلے کو تھوڑے توقّف کے بعد، عتیلـؔ عیسیٰ خیلوی ہی نے آگے بڑھایا۔

عتیلؔ عیسیٰ خیلوی کا اصل نام، محمّد اکرم تھا اور عتیل تخلّص کرتے تھے۔ غریب خاندان سے تعلق رکھتے تھے، لیکن اُنھوں نے غربت کو اپنے فکرو فن کے راستے میں حائل نہ ہونے دیا۔ قناعت اور مستقل مزاجی کا زادِ راہ لیے عتیلـؔ علم وادب کے سفر پر رواں دواں رہے۔ احسان دانش نے عتیلؔ کے شعری مجموعے’’ رسوائیاں ‘‘کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کچھ اس طرح سے کیا’’اس مختصر مجموعے سے عتیلؔ کے فکرو فن اور قد و کاوش کا پتا چلتا ہے۔ مَیں نے اس مجموعے کو جستہ جستہ دیکھا اور محسوس کیا ہے کہ عتیلؔ تو سیکڑوں شاعروں سے اچھا شعر کہتے ہیں۔ جو اشعار اس مجموعے میں شامل ہیں، اُن میں سے بیش تر ایسے ہیں، جو پروپیگنڈے کے بَل پر بامِ شہرت پر پہنچنے والے شعراء کے ہاں نہیں ملتے۔‘‘1980میں جب جگن ناتھ آزادؔ اپنے آبائی وطن، عیسیٰ خیل تشریف لائے، تو عتیلؔ کو سینے سے لگا کر کہا’’ مجھے فخر رہے گا کہ میرے وطن میں میرا ایک ہم وطن آج بھی فکرو فن کی وہ روشنی بانٹ رہا ہے۔‘‘جگن ناتھ آزادؔ کے اعزاز میں عتیلؔ نے جو کلام پڑھا تھا، وہ بہ قول آزادؔ، بھارت کے کئی اخبارات کی زینت بنا۔ وہ اشعارکچھ یوں تھے’’کیوں چھوڑ گئے دیس کے سب سَروسمن کو…آزادؔ تمھاری تو ضرورت تھی چمن کو…جب فصلِ بہار آئی تو کِھلنے لگیں کلیاں…ایک طائرِ آزاد بھی لَوٹا ہے چمن کو…گو ہم سے بہت دُور ہے اب آپ کا مسکن…بھولے نہیں ہم لوگ مروّت کے چلن کو…آزادؔ سے کہنا کہ کبھی فر صت ہو تو آ جائے…پیغام دیا سندھ نے سورج کی کرن کو۔‘‘اس کے بعد جگن ناتھ آزادؔ خط و کتابت کے ذریعے عتیلؔ کی رہنمائی کرتے رہے۔ وہ اپنے خطوط میں عتیلؔ کو" محبِ صادق" کہہ کے مخاطب ہوتے۔

بلاشبہ عتیلؔ کے الفاظ کا چنائو انتہائی سادہ، مگر دِل نشین ہے۔ آقائے دو عالم ﷺ کی شان میں ہدیۂ عقیدت کچھ اس طرح پیش کرتے ہیں؎ ’’ سلگ اٹھی میرے دِل میں دُعا مدینے کی…مجھے نصیب ہو، آب و ہوا مدینے کی…کُھلے ہیں مِرے لا شعور کے عقدے…شعور خیز ہے کتنی، فضا مدینے کی۔‘‘ عتیلؔ نے اپنے خیالات اور جذبات کے اظہار کے لیے جہاں اُردو زبان کا سہارا لیا، وہیں اپنے علاقائی ادب کو پروان چڑھانے کے لیے سرائیکی زبان میں بھی باکمال شاعری کی۔ اُن کے سرائیکی کلام کا مجموعہ " پُھل کلیاں "کے نام سے شایع ہوا اور بڑی دادِ تحسین سمیٹی۔ عتیلؔ نے صحافتی میدان میں بھی خدمات سرانجام دیں اور روزنامہ’’ نوائے وقت، لاہور‘‘ سے منسلک ہو کر اپنے علاقے کی محرومیوں اور مسائل کو ایوانِ بالا تک پہنچانے میں کردار ادا کرتے رہے۔وہ ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ شعر و شاعری کے ساتھ، فنِ خطاطی میں اُنھیں خاص ملکہ حاصل تھا اور اس فن میں اُن کے کئی شاگرد آج بھی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔نیز، دست شناسی سے بھی لگاؤ رکھتے تھے اور اس فن میں پختگی کے لیے، ایم اے ملک اور سیف الدّین حسام سے رہنمائی لیتے رہے۔ گو کہ اب وہ ہمارے درمیان نہیں رہے اور شعرو سخن کی تمام رعنائیاں اُن کے ساتھ دفن ہو گئیں، پھر بھی امید واثق ہے کہ علم وادب کی جو ذمّے داری عتیلؔ نے اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھائے رکھی، ادب کا یہ بارِ گراں اب عیسیٰ خیل کا کوئی اور فرزند اٹھائے گا۔ 

تازہ ترین