• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بابا گرو نانک جی(1469-1539) کے پانچ سو پچاسویں جنم دن سے متعلقہ شنید ہے کہ پاکستان حکومت سکھوں کے مقدس مقام اور گرو نانک جی کی آخری آرام گاہ تک راہداری (کاریڈور) کھول رہی ہے تاکہ سرحد کے دوسری طرف رہنے والے سکھ مذہب کے پیروکار اپنے بانی کے مزار تک رسائی حاصل کر سکیں۔ یہ نہایت خوش آئند پیش رفت ہوگی لیکن اس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ ہم فکری سطح پر بھی صدیوں سے بند کی ہوئی راہداری کھول کر عوام کی حقیقی تاریخ مرتب کرنے کی طرف پیش قدمی کریں۔ ابھی تک جو تاریخ لکھی گئی اور پڑھائی گئی ہے وہ فاتحین اور ان کے درباریوں کی مرتب کردہ ہے۔ اس سلسلے میں سیاسی، معاشی اور فکری ارتقا کے مراحل بیان کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ویسے اردو کے کلاسیکل شاعروں میں سے نظیر اکبر آبادی (1735-1830)نے گرو نانک جی کے بارے میں جو طویل نظم لکھی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں کے عوامی مفکرین میں گرو نانک جی کو بڑی عقیدت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔

پنجاب میں بابا فرید شکر گنج (1179-1266) کے بعد تقریباً تین صدیوں تک ہمیں کسی بڑےشاعر یا فلسفی کا سراغ نہیں ملتا۔ یہ فکری بنجر پن کا دورخود ایک سوال ہے کہ اتنے طویل عرصے تک پورے علاقے میں کیوں خاموشی طاری رہی۔ بابا فرید کی شاعری اور افکار تک بھی ہماری رسائی گرو نانک جی کی عطا کردہ ہے جنہوں نے ان کے کلام کو ترتیب دیا اور گرو ارجن داس (1563-1606)نے اسے گرو گرنتھ صاحب میں شامل کرکے ہمیشہ کے لئے امر کردیا۔بابا فرید کے کلام کو سکھ مت کے پیروکاروں نے زندہ رکھا ہے جسے وہ فرید بانی کہتے ہیں اور اس کو تواتر سے گردواروں میں گایا جاتا ہے۔ ویسے تو سرحد پار کے تمام بڑے گلوکار جن میں ہنس راج ہنس، برکت سدھو (مرحوم) اور وڈالی برادرز شامل ہیں مسلمان صوفیاء کے کلام کو ہی گانے کی وجہ سے مقبول ہیں لیکن سرحد کے اس طرف گرو نانک کے فلسفےکو سمجھنے کی کوئی سنجیدہ کو شش نہیں کی گئی۔ گرو نانک کی زندگی کا پس منظر باقی صوفی شعراء سے کسی حد تک مختلف ہے۔صوفیاء میں سے اکثریت کی تعلیم و تربیت روایتی مدرسوں میں ہوئی تھی۔ ان بزرگوں نے روایتی مدرسوں سے تعلیم لینے کے بعد ا نکے فکری ڈھانچے کی نفی کی تھی۔ لیکن بابا گرو نانک جی نے فکری سفر شروع کرنے سے پہلے سماجی نظام کا عملی تجربہ کیا تھا۔ وہ رائے تلونڈی (حالیہ ننکانہ صاحب) میں پیدا ہوئے جہاں ان کے والد پٹواری کی سطح کی کوئی ملازمت کرتے تھے۔ اس کے بعد وہ جوانی کے آغاز میں ہی اپنی بہن، بی بی نانکی کے پاس سلطان پور لودھی تعلیم کے لئے چلے گئے۔ شہنشاہ اورنگ زیب کی تعلیم بھی سلطان پور لودھی میں ہوئی تھی جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ جگہ تعلیمی لحاظ سے اہمیت کی حامل تھی۔ بابا گرو نانک جی اپنے بہنوئی کے توسط سے سلطان پور کے نواب دولت خان لودھی کے محکمہ مالیات کے انچارج بن گئے۔اس سارے پس منظر کو اس لئے جاننا ضروری ہے کہ گرونانک جی کو اپنے والد کے پیشے سے لے کر اپنی ملازمت کے زمانے تک ریاستی امور ، بالخصوص معاشی پیچیدگیوں کے متعلق براہ راست آگاہی تھی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے افکار کی بنیاد پر سیاسی تحریک نے جنم لیا اور ان کے پیروکاروں نے ریاست کے اداروں پر قبضہ کرنا شروع کردیا۔بابا گرونانک جی کی ابتدائی زمانے سے ہی مسلمانوں کے ساتھ قربت تھی اور بعض روایات کے مطابق وہ مسلمانوں کے ساتھ با جماعت نماز بھی پڑھ لیا کرتے تھے۔ اگر یہ روایت مبالغہ آرائی بھی ہو تو یہ حقیقت ہے کہ ان کے ساتھ ہمیشہ رہنے والے اور ہم سفر ’بابا مردانہ‘ مسلمان تھے۔ بابا گرو نانک جی کا کلام ان کے فلسفیانہ افکار ـ’جپ جی‘ سے شروع ہوتا ہے۔ جپ جی کا آغاز کلمہ شہادت کے قریب ترین ہے۔ وہ فرماتے ہیں’’اک اونکار، ست نام ، کرتا پرکھ، نر بھو، نر ویرــ ۔۔‘‘ یعنی خدا ایک ہے، اس کا نام سچا ہے، انسانوں کا خالق ہے، وہ خوف اور عداوت سے پاک ہے۔ اسی طرح وہ بت پرستی کے خلاف لکھتے ہیں’’تھاپیا نہ جاوے، کیتا نہ ہووے، آپے آپ نرنجن سوئیــ‘‘ یعنی خدا کو گھڑا نہیں جا سکتا (جیسے بتوں کو کیا جاتا ہے) ، اس کو بنایا نہیں جا سکتا اور وہ اپنی ذات میں خود عیاں ہوتا ہے۔ ان کی وحدانیت کے فلسفے کی بنیاد پر ہی ان کے ذات پات اور جنسی تفریق کے خلاف تصورات تخلیق ہوئے ہیں۔ یعنی ایک خدا نے سب انسانوں کو برابر پیدا کیا ہے۔ اسی لئے سکھ مرد عورتوں کے نام ایک ہی جیسے ہوتے ہیں: مرد کے نام کے ساتھ سنگھ (جیسے بلراج سنگھ) اور خواتین کے نام کے ساتھ کور (جیسے بلراج کور) لگایا جاتا ہے۔

بابا گرو نانک جی نے اپنے زمانے کے تاریخی واقعات اور سماجی اداروںپر کھل کر تنقید کی ہے۔ اس پہلو سے ان کا کلام تاریخ دانی کا ایک بہت بڑا ذریعہ جس سے استفادہ نہیں کیا جا رہا۔ انکی ایک نظم ’بابر بانی‘ ہے جس میں وہ شہنشاہ ظہیرالدین بابر کے ہندوستان پر حملوں کے المناک پہلوئوں کو اجاگر کرتے ہیں۔ اس سے پیشتر کہ ہم ’بابر بانی‘ کے بارے میں مزید بات کریں یہ بتا دینا ضروری ہے کہ جب بابر نے حملہ کیا تھاتو ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت تھی اور ابراہیم لودھی اس کے فرماں روا تھے۔ اس وقت تک مسلمان تین صدیوں سے پنجاب پر حکومت کر تے آئے تھے لیکن عام مسلمانوں کی حیثیت وہی تھی جو لگ بھگ اچھوتوں کی ہوتی ہے۔ اس پورے عرصے میں پنجاب کے شہروں اور قصبوں میں کاروبار پر ہندوئوں کا ہی قبضہ تھا جو 1947ءتک جاری رہا۔ نوکر شاہی میں ہندوئوں کے ساتھ باہر سے آنے والی فارسی دان اشرافیہ شامل تھی۔ نیچی ذاتوں اور پسے ہوئے طبقات نے صوفیاء کے اثر کے تحت اسلام قبول کیا تھا۔ ان نو مسلموں کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا تھااور ان کو اصطبلوں جیسے کاموں کے علاوہ سرکاری نوکری نہیں دی جاتی تھی۔ مشہور تاریخ دان ضیاء الدین برنی تو یہاں تک کہتا ہے کہ یہ مسلمان گھٹیا نسل کے ہیں اور ان کو صرف نماز پڑھنے کے طریقوں اور چند دعائیہ آیات سے زیادہ تعلیم نہیں دینا چاہئے۔ بنیادی مسئلہ یہ تھا کہ باہر سے آئی ہوئی اشرافیہ یہ نہیں چاہتی تھی کہ مقامی مسلمان سرکاری نوکریوں میں ان کے مقابلے میں آئیں۔ یہ تھا وہ سماجی پس منظر جس میں بابر نے ہندوستان پر حملہ کیا تھا اور بابا گرونانک نے اسے تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ : ’’پاپ کی جنج لے کابلوں دھایا، جوری منگے دان وے لالو‘‘ یعنی گناہوں کی بارات لے کر وہ حملہ آور ہوا ہے اور زبردستی ٹیکس وصول کرتا ہے۔ اس پوری نظم اور اس کے ترجمے کی تو اس کالم میں گنجائش نہیں ہے لیکن اس کا مختصر مفہوم یہ ہے کہ اس حملے میں مذہب اور اخلاقیات ایک طرف چپ سادھے کھڑے ہیں اور جھوٹ ’پردھان‘ بنا پھر رہا ہے۔بابر کو روکنے کے لئے مسلمان اپنے دم درود اور ہندو اپنے جادو ٹونے کر رہے ہیں لیکن اس نے کسی بھی ذات کے ہندو یا مسلمان کو نہ بخشا۔ نظم کے اختتام پر وہ کہتے ہیں کہ آؤ اس بارات پر خون کے گیت گائیں۔ اس نظم میں بابا گرو نانک جی نے مسلمانوں اور ہندوئوں کے مذہبی رہنماؤں کو ایک ساتھ تنقید کا نشانہ بنایا اور ہر مذہب کے عوام کی تباہی کا نوحہ لکھا۔ اس طرح بابا گرو نانک جی بیرونی حملہ آوروں کے خلاف قوم پرستی کی علامت بنے اور انکے پیروکاروں نے شمال سے ہونے والے حملوں کا ہمیشہ کیلئے راستہ بند کردیا۔ بابا گرو نانک جی اس خطے کے فکری ارتقا میں بنیادی حیثیت کے حامل ہیں اور ان کو پڑھے بغیر تاریخی عمل کو سمجھا نہیں جا سکتا۔

تازہ ترین