• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کرتارپور راہداری پر کام کے رسمی آغاز کے بعد پاک بھارت تعلقات میں خیر سگالی کا عنصر نمایاں ہونے اور عوامی رابطوں کی صورت میں باہمی تعاون بڑھنے کی قوی امید پیدا ہوئی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے ہاتھوں کرتار پور راہداری کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں شرکت کیلئے آنے والے تین رکنی بھارتی وفد کے پرجوش تاثرات سے ایسے اقدامات کی اہمیت واضح ہوئی جو عوام سے عوام کے براہ راست رابطوں میں اضافے کا ذریعہ بنیں کیونکہ اس طرح بعض غلط فہمیوں کو دور کرنے اور مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے کی ضرورت کا حقیقی احساس اجاگر ہوتا ہے۔ وطن عزیز میں جولائی کے مہینے میں منعقدہ الیکشن 2018ء کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے جو تقریر کی اس میں بھارت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے مذاکرات کی دعوت دی گئی تھی۔ اس باب میں پیشرفت کے جو فوری اشارے بھارت کی طرف سے سامنے آئے وہ اس ہمسایہ ملک میں جاری انتخابی مہم کی سیاسی ضروریات کے باعث پس منظر میں دھکیل دیئے گئے کیونکہ ہمسایہ ملک میں پاکستان کے بارے میں منافرت پھیلانے کو انتخابات میں کامیابی کی کلید سمجھا جاتا ہے۔ اگست کے مہینے میں وزیراعظم عمران خان کی حلف برداری کی تقریب میں بھارتی سیاستدان اور سابق کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو کو ان کی استدعا پر کرتار پور راہداری کھولنے کی جو یقین دہانی کرائی گئی اس کے بعد ایسی صورتحال بنتی چلی گئی جس میں موجودہ حکومت کی پیشکش کو اس طرح سرد خانے کی نذر کرنا ممکن نہ رہا، جس طرح ماضی میں اس طرح کی پیشکشوں کو پس پشت ڈالا جاتا رہا ہے۔ بھارتی پنجاب اسمبلی میں منظور کردہ قرارداد کے بعد انڈین حکومت نے بھی کرتار پور راہداری کو عملی شکل دینے کی منظوری دیدی۔ یوں 28نومبر کو پاکستانی سرحد کے اندر اس راہداری کی تعمیر کا سنگ بنیاد وزیراعظم عمران خان نے رکھ دیا جبکہ اس سے دو روز پہلے بھارتی سرحد کے اندر بھی راہداری تعمیر کرنے کے لئے سنگ بنیاد رکھا جا چکا ہے۔ یہ راہداری ضلع نارووال کے علاقے کرتار پور میں واقع گوردوارہ دربار صاحب کو بھارت کے ضلع گوداسپور سے ملا دے گی۔ اس وقت تک صورتحال یہ رہی ہے کہ بھارت کے سکھ یاتریوں کو ویزا کے مراحل سے گزرنے کے بعد واہگہ کے راستے لاہور آنا اور پھر تقریباً 130کلومیٹر کا سفر نارووال تک طے کرنا پڑتا ہے۔ یہ فاصلہ راہداری کی تعمیر کے بعد بہت تھوڑا رہ جائے گا۔ بھارت سے وزیر خوراک ہرسی مارات کور بادل اور وزیر ہائوسنگ ہردیپ ایس پوری پر مشتمل جو وفد صوبہ پنجاب کے وزیر نوجوت سنگھ سدھو کی قیادت میں پاکستان آیا، اس کی جانب سے اس موقع کو 12کروڑ نفوس پر مشتمل سکھ برادری کے لئے انتہائے مسرت کا موقع قرار دیا گیا ہے۔ نوجوت سنگھ سدھو نے مذکورہ راہداری کو امن کی راہداری قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے مزید راستے کھلنے کے امکانات پیدا ہوئے ہیں، سیاسی عزم ہو تو پانی کے مسئلے سمیت ہر گتھی کو سلجھایا جا سکتا ہے، دونوں ملکوں میں کرکٹ کے رشتے بحال ہونے چاہئیں۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، قائد اعظم محمد علی جناح سے لے کر وزیراعظم عمران خان تک سب کے سامنے یہ مقصد رہا ہے کہ پاکستان اور بھارت میں رہنے بسنے والوں کو امریکہ اور کینیڈا کی طرح اپنے اپنے ملکوں میں اپنے طریقے سے رہتے ہوئے باہمی تعاون سے ترقی خوشحالی کی شاہراہ پر پیش قدمی کرنا چاہئے۔ صدر مملکت عارف علوی نے منگل کو کراچی میں دفاعی نمائش آئیڈیاز 2018ء سے خطاب میں درست طور پر نشاندہی کی کہ جنگیں بھوک اور غربت کا پیش خیمہ بنتی ہیں، اسلام آباد اور نئی دہلی کو خطے کے مسائل حل کرنے کیلئے مذاکرات کی میز پر آنا ہو گا۔ کیا ہی اچھا ہو کہ جنوبی ایشیا کے دونوں بڑے ممالک کی قیادتیں کشیدگی میں اپنا مفاد دیکھنے کے بجائے مفاہمت کا راستہ اپنائیں، کشمیر سمیت تمام دیرینہ تنازعات پرامن طور پر طے کریں اور ترقی و خوشحالی کے خوابوں کی وہ عملی تعبیر سامنے لائیں جس کا انتظار خطے کے عوام سات عشروں سے کر رہے ہیں۔

تازہ ترین