• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہر لحاظ سے بگڑی ہوئی قوم کو راہ راست پہ ڈالنا، قعر مذلت سے نکال کر عظمت کی بلندیوں پہ لے جانا، بدکردار ہجوم کو باکردار قوم بنا دینا، بہرحال آسان کام نہیں۔ میرے نزدیک یہ ایک معجزہ ہوتا ہے اور معجزے پیغمبروں اور نبیوں کے مرہونِ منت ہوتے ہیں۔ ہم ریاست ِ مدینہ کے حوالےسے جس انقلاب اور کردار سازی کی بات کرتے ہیں، وہ نبی کریم ﷺ کا ایک معجزہ تھا جو تائید ِ ایزدی اوررضائے الٰہی سے رونما ہوا ۔ اس طرح کی انقلابی کردار سازی سیاسی لیڈروں کے بس کا روگ نہیں اور خاص طور پر جمہوری ممالک میں تو قیادت سے کسی بنیادی تبدیلی کی توقع ہی خام خیالی ہے کیونکہ چند برسوں کے لئے منتخب ہو کر برسراقتدار آنے والا لیڈر سینکڑوں مسائل میں الجھا ہوتاہے۔ وہ چند ایک کارنامے بھی سرانجام دے دے تو تاریخ کے صفحات پر نام چھوڑ جاتا ہے۔ ہماری حالیہ تاریخ میں اس طرح کا انقلابی کارنامہ یاتو مائوزے تنگ نے سرانجام دیا جس کا جان لیوا لانگ مارچ بادشاہت کوشکست دے کر کمیونسٹ پارٹی کے اقتدار کا باعث بنا یا پھر اس طرح کا کارنامہ قائداعظم محمد علی جناح نے سرانجام دیا جنہوں نے ایک بکھرئے ہوئے بے سمت ہجوم کی قومی خطوط پر تشکیل کی اور پھر اسے ایک علیحدہ آزاد ملک لے کر دیا۔ بقول سٹینلے والپرٹ، تاریخ میں کوئی ایسی مثال ہی موجود نہیں کہ ایک شخص نے بیک وقت تاریخ کا دھارا بدلا ہو، دنیا کا نقشہ تبدیل کیا ہو اور ایک قومی ریاست قائم کی ہو۔ کیا مائوزے تنگ یا قائداعظم محمد علی جناح چند برسوں کے لئے منتخب کردہ لیڈر تھے؟ ہرگز نہیں۔ کیاوہ کسی ملک کے وزیراعظم یا صدر تھے جب انہوںنے یہ تاریخی معجزے سرانجام دیئے؟ جی نہیں۔

انسانی کردار کی عظمت، قوم کے لئے حد درجہ ایثار کا جذبہ وخلوص، قابلیت و اہلیت اور عزم و بہادری انسان کو لیڈر بنا دیتی ہے اور لیڈر شپ میں وہ کرشمہ پیدا کردیتی ہے جس کی طرف عوام کھنچے چلے آتے ہیں۔ جب عوام کو یقین آ جائے کہ ان کا لیڈر عظمت ِ کردار اور اخلاص کااعلیٰ نمونہ ہے، تو وہ اس کے اشارے پر بڑی سے بڑی قربانی دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ یہی مائوزے تنگ اور قائداعظم کی کامیابی کاراز تھا۔ کتابیں لکھنے والے بتاتے ہیں کہ مائوزے تنگ کے پاس کل دو تین جوڑے کپڑے تھے، عام شہری کی مانند سادہ زندگی گزارتا اور قوم کے لئے ایثار کرتا تھا۔ قائداعظم بحیثیت صدر مسلم لیگ سارا خرچہ اپنی جیب سے ادا کرتے تھے اورمرتے وقت جتنی جمع پونجی تھی وہ بھی قوم کو دے گئے۔ ان کے کردار کے سبب لوگ ان کی محبت کے اسیر تھے۔ انہوں نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں سے قوم میں اتنا جذبہ پیدا کردیا تھا کہ لوگ ان کے اشارے پر ہر قسم کی قربانی دینے کےلئے تیار رہتے تھے۔ دراصل لیڈر کی تعریف ہی یہی ہے کہ وہ قوم میں اتنا جذبہ پیدا کردے کہ عوام اس کے اشاروں پر عمل کرنے کے لئے بے قرار رہیں۔ 1970کی دہائی تک چین کے اردگرد آہنی حصار (Iron Curtain) موجود تھا، اس لئے چین دوسری اقوام کے لئے ایک معمہ تھا۔ پاکستان کی کوششیں رنگ لائیں اور یحییٰ خان نے امریکہ کے سیکرٹری آف اسٹیٹ ہنری کسنجر کو خفیہ انداز سے بیجنگ بھجوایا جس کے بعد چین میں مغربی ممالک کے صحافیوںکا آنا جانا شروع ہوا۔ چاردہائیاں قبل مجھے امریکہ کے ایک صحافی کی کتاب پڑھنے کا موقع ملا۔ اس نے اپنے مشاہدات میں لکھا تھا کہ میں نے بیجنگ کے بازار میں دوتین نوجوانوں کو دیوانہ وار اچھلتے کودتے دیکھا تو حیرت زدہ رہ گیا۔ پوچھنے پر مترجم نے بتایاکہ آج کل چین میں مکھی مارمہم شروع ہے۔ یہ نوجوان مکھیوں کا پیچھا کر رہے ہیں۔ بات معمولی سہی لیکن یہ دیوانہ وار جذبے کی علامت ہے جوقیادت کی عظمت ِ کردار، خلوص اور ایثار سے پیدا ہوتا ہے۔ عظمت ِکردار کاتصور اصول پرستی، شفافیت اور بہادری جیسے اوصاف سے جنم لیتا ہے۔ اگر قائد بااصول اور شفاف شخصیت کا حامل نہ ہو تو پھر لوگوں سے توقع عبث..... دوسری اہم بات ذہن میں رہے کہ سچے قائد کو ایک منظم جماعت کی حمایت حاصل ہوتی ہے جس کے کارکن جذبے سے معمور ہوتے ہیں۔ وہی جذبہ جس کی ایک جھلک امریکی صحافی نے بیجنگ میں دیکھی۔ اس طرح کے بے شمار واقعات ہماری تحریک ِپاکستان کی تاریخ کا حسن ہیں جنہیں پڑھ کر نہ صرف خون رگوں میں تیزی سے دوڑنے لگتا ہے بلکہ ایمان بھی تازہ ہوجاتا ہے۔

کالم کی تنگ دامنی کے پیش نظر اختصار سے کام لینا پڑے گا۔ پی ٹی آئی کی حکومت آئی تو عمران خان نے اسلام آباد میں صاف پاکستان کی مہم کا آغاز کرتے ہوئے جھاڑو دیا اور گرین پاکستان کی مہم کا آغاز درخت لگا کر کیا۔ پھر اس کے بعد آپ نے کبھی ان ارادوں کا ذکر سنا؟ پارٹی یا کارکن یا حکومتیں حرکت میںآئیں؟ کہیں کوئی جذبے کا مظاہرہ دیکھا؟ لیڈر کےپاس وقت نہیںہوتا مگر اس کے کارکن اور پیرو لیڈر کے مشن کو آگے بڑھاتے ہیں۔

پاکستان جیسے جمہوری اور منقسم ملک میں قوم کی کردار سازی نہایت کٹھن کام ہے اور صاحبان ِ اقتدار سے ایسی توقعات وابستہ کرنامحض دل شکنی اور مایوسی کو دعوت دینا ہے۔ بچوں کی تربیت گھروں میں اور طلبہ کی تربیت اسکولوں میں ہوتی ہے۔ معاشرے کی اقدار نوجوانوں کو پروان چڑھاتی ہیں۔ ہمارے یہ تینوں خانے کمزور ہیں۔ معاشرتی اقدار ایک سانچے کی مانند ہوتی ہیں جن میں بچے ڈھل کر جوان ہوتے ہیں۔ اگر محض وعظ سے قوم کااخلاق سنورتا اور کردار سازی ہوتی تو پاکستانی دنیا کی بہترین قوم ہوتے اور آپ کوکہیں بھی جھوٹ، بداخلاقی، گندگی، چوری چکاری، ملاوٹ، جعل سازی، عہدشکنی، حرص و ہوس اور لاقانونیت وغیرہ نظر نہ آتی۔

کردار سازی کے لئے طویل المدتی منصوبوں کی ضرورت ہوتی ہے جو ہماری حکومتوں کی ترجیح نہیں۔ البتہ پاکستان جیسے نابالغ جمہوری ملک میں فوری تبدیلی لانے کے لئے چند بنیادی اقدامات کئے جاسکتے ہیں۔ جن میں اہم ترین صحیح معنوں میںقانون کی حکمرانی ہے۔ قانون کا انسانی برابری کے اصول پر سختی سے نفاذ پہلا قدم ہے اور دوسرا قدم ذاتی مثالیں ہیں۔ عوام لیڈر کی مثالوں سے بہرحال متاثر ہوتے ہیں اگر قیادت اعلیٰ کردار، قانون کی سختی سے پابندی، میرٹ، انصاف، شہری برابری، ایمانداری، سادگی وغیرہ کو خلوص نیت سے اپنائے اور اس کی عملی مثالیں پیش کرے تو اس کے بہرحال مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں اور کچھ نہ کچھ تبدیلی بھی آتی ہے لیکن اگر حکمرانوں کے رویے اور کارکردگی سے منافقت کی بُو آئے تو پھر تبدیلی کا خواب شرمندئہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ میرے مشاہدے کے مطابق قول و فعل کا تضاد یعنی منافقت حسنِ تدبیر کی دشمن اور ناکامی کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔

تازہ ترین