• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حبشہ کا بادشاہ، نجاشی پورے جاہ و جلال کے ساتھ اپنے عالی شان دربار کے تختِ شاہی پر جلوہ افروز ہے۔ درباری، وزراء، مصاحب اور رئوسائے شہر دست بستہ صف آراء ہیں۔ مکّے کے حکم رانوں کا نمایندہ، عمرو بن العاص دربارِ شاہی میں شرفِ باریابی کا خواست گار ہے۔ بادشاہ، عطریات کے مشہور تاجر اور اپنے عرب دوست، عمرو کو خوش آمدید کہتا ہے۔ عمرو، آدابِ شاہی بجا لاتے ہوئے پہلے بادشاہ کے آگے سر بسجود ہوتا ہے، پھر اپنے ساتھی، عبداللہ بن ربیعہ کے ساتھ مل کر بادشاہ کی خدمت میں بیش بہا تحائف پیش کر کے ہاتھ باندھ کر اور سَر جُھکا کر مؤدبانہ انداز میں کھڑا ہو جاتا ہے۔’’ عمرو کیسے آنا ہوا؟‘‘ بادشاہ کی بارُعب آواز دربار میں گونجتی ہے۔ ’’بادشاہ سلامت! آپ کا تخت و تاج سلامت رہے۔ آج مَیں اپنی قوم کا نمائندہ بن کر آپ سے کچھ مانگنے آیا ہوں‘‘۔ عُمرو عاجزی و انکساری کی تصویر بنا، گُھٹنوں کے بَل جُھکتے ہوئے عرض کرتا ہے۔ ’’ہاں، ہاں، بتائو، تم کیا مانگنا چاہتے ہو؟ تمہیں ضرور ملے گا‘‘، بادشاہ عمرو سے مخاطب ہوا۔’’ عالی جاہ! ہماری قوم کے چند شرپسند ہمارے مُلک میں ایک نئے دین کی آڑ میں فساد کی آگ پھیلا کر آپ کے مُلک میں آکر چُھپ گئے ہیں۔ ہماری قوم چاہتی ہے کہ آپ ان مجرموں کو ہمارے حوالے کر دیں۔ ہم عُمر بھر آپ کے احسان مند رہیں گے‘‘۔ عمرو کی عاجزی آخری حدوں کو چُھو رہی ہے۔ ابھی عمرو نے اپنی بات ختم ہی کی تھی کہ بادشاہ کے تمام درباری(جن کے منہ عمرو نے قیمتی تحائف اور رشوت سے بھر دیے تھے) ،یک زبان ہو کر گویا ہوئے ’’بادشاہ سلامت! یہ صحیح کہتا ہے۔ ایسے شرپسندوں کو ان کے حوالے کر کے آج ہی مُلک بدر کر دیجیے‘‘۔ نجاشی کے پُررُعب چہرے پر غصّے اور فکر کے اثرات نمودار ہوئے اور کہا ’’میرے مُلک میں کسی فسادی اور ظالم شخص کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ ان سب کو نکال باہر کر دیا جائے گا‘‘۔ یہ کہہ کر بادشاہ ایک لمحے کو رُکا، دربار میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ ابھی سب نے عمرو کو مبارک باد دینی شروع ہی کی تھی کہ بادشاہ کی آواز ایک بار پھر گونجی’’ لیکن ابنِ مریمؑ کی تعلیم کی روشنی میں انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا جائے گا۔ کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے ہم اُن کا مؤقف بھی سُننا چاہتے ہیں۔ چناں چہ ہمارا حکم ہے کہ کل اُنہیں دربارِ عالیہ میں پیش کیا جائے‘‘۔

دوسرے دن صبح مسلمانوں کے نمائندے اپنے ترجمان، حضرت جعفرؓ بن ابی طالب کے ساتھ دربار میں پہنچتے ہیں اور سلام کر کے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس موقعے پر عمرو سے رہا نہ گیا۔ اُس نے کہا’’ بادشاہ سلامت! اِن کا غرور و تکبّر دیکھیے۔ اِنہوں نے آپ کو سجدہ بھی نہیں کیا‘‘۔ بادشاہ نے حضرت جعفرؓ سے مخاطب ہو کر کہا’’تم نے مجھے سجدہ کیوں نہیں کیا؟‘‘ حضرت جعفرؓ جواباً بولے’’ ہم اللہ کے سوا کسی کو سجدہ نہیں کرتے‘‘۔ پھر اُنہوں نے بادشاہ کی اجازت سے دربار میں ایک ایمان افروز تقریر کرتے ہوئے اللہ کے رسولﷺ کا تعارف، اسلام کی تعلیمات اور اللہ کے احکامات بیان کیے۔ نجاشی، جو نہایت غور سے تقریر سُن رہا تھا، گویا ہوا’’ تمہارے پیغمبر پر جو آسمانی کتاب نازل ہوئی ہے، اگر اس میں سے کچھ تمہارے پاس ہے، تو سنائو‘‘۔ اس پر حضرت جعفرؓ نے نہایت خُوب صورت اور مسحورکُن قرأت میں سورۂ مریم کی تلاوت شروع کی۔ اُدھر حضرت جعفرؓ تلاوت کر رہے تھے اور اِدھر نجاشی کی آنکھوں سے آنسوئوں کی برسات جاری تھی۔ اُس نے کلامِ الٰہی سُن کر کہا ’’بخدا! یہ تو وہی کلامِ الٰہی ہے، جو حضرت عیسیٰؑ پر نازل ہوا تھا اور یہ تو وہی پیغمبر ہیں، جن کا ذکر مقدّس انجیل میں موجود ہے‘‘۔ اس کے ساتھ ہی اُس نے عمرو سے کہا’’ اے عمرو! یہ صحیح ہے کہ تم میرے دوست ہو، لیکن مَیں انصاف کا خون نہیں کر سکتا۔ اِن کا کلام سچّا ہے اور اگر یہ ظالم ہوتے، تو اپنا مُلک چھوڑ کر یوں مارے مارے نہ پِھرتے‘‘۔ عمرو، بادشاہ کا فیصلہ سُن کر مایوس اور غم زَدہ واپس لَوٹ آیا، لیکن دوسرے دن ایک نئی چال کے ساتھ بادشاہ کے دربار میں پہنچ گیا اور بولا’’ بادشاہ سلامت! یہ لوگ ابنِ مریم ؑ کو اللہ کا بیٹا نہیں مانتے اور اُن کے بارے میں نازیبا الفاظ کہتے ہیں‘‘۔ نجاشی نے پھر مسلمانوں کو بلوا لیا’’عیسیٰ ابنِ مریم ؑ کے بارے میں تمہارا کیا نظریہ ہے؟‘‘ بادشاہ کے سوال پر حضرت جعفرؓ نے جواب دیا’’ ہم حضرت عیسیٰؑ کو اللہ کا بندہ، اس کا رسول اور اس کی روح مانتے ہیں، جسے اللہ نے اپنی قدرت سے پاک دامن بی بی مریم ؑسے پیدا کیا‘‘۔ یہ سُن کر نجاشی جھوم اٹھا اور گویا ہوا’’ خدا کی قسم! جو کچھ تم نے کہا، یہ حقیقت ہے۔ تمہارا دین بھی سچّا اور تمہارے نبی بھی سچّے نبی ہیں۔ تم سب ہماری پناہ اور حفاظت میں ہو، جب تک دِل چاہے، ہمارے مہمان کی حیثیت سے حبشہ میں رہو‘‘۔ اس کے ساتھ ہی نجاشی نے عمرو کے تمام تحائف واپس کر دیے۔ عمرو نامُراد ہو کر واپس مکّہ چلا گیا۔

وجود نورِ ایمانی سے جگمگا اٹھا

نجاشی کے محل میں ہونے والی بے عزّتی نے اُنہیں مزید مشتعل کر دیا تھا۔ غزوۂ بدر اور غزوۂ احد میں مشرکینِ مکّہ کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف اپنی بہادری کے جوہر دِکھائے۔ غزوۂ خندق میں بھی پیش پیش تھے، لیکن ایک ماہ کے محاصرے نے اُن کے دِل کی دنیا بدل ڈالی۔ بھوکے، پیاسے اور فقیر مَنش مسلمانوں کا موازنہ عیش و عشرت کے خوگر، شراب و شباب اور لہو و لعب کے دِل دادہ اپنے مشرک سرداروں سے کیا، تو حق و باطل کے فرق نے شعور کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔ عدل کے ترازو نے حق کے پلڑے کو اس قدر جُھکا دیا کہ ضمیر کے منصف کے لیے آنکھیں بند رکھ کر انصاف سے منہ موڑنا ممکن نہ رہا اور جذبات کے مدّو جزر کے ان ہی لمحات میں کہ جب بے قابو موجوں نے پورے وجود کو ہلا دیا تھا، ذہن کے لاشعور کے کسی کونے میں محمّدِ عربیﷺ کی محبّت کی کونپل پھوٹ پڑی اور یوں عشقِ مصطفیٰﷺ کی ایک چنگاری نے آتشِ شوق کے شعلوں کو مزید بھڑکا دیا۔ یوں لگا کہ جیسے پورا وجود نورِ ایمانی سے جگمگا اٹھا ہو۔ وہ غزوۂ خندق میں ناکامی کے بعد مکّہ واپس تو آگئے، لیکن اپنے دِل و دماغ کو مدینے کی مقدّس گلیوں میں چھوڑ آئے۔

مکّے کے جگر گوشے مدینے میں

وہ مکّے کی ایک خوش گوار صبح تھی۔ مشرق سے نکلتے سوج کی کرنیں ابھی نمودار نہ ہوئی تھیں کہ مکّے سے مدینے جانے والے راستے پر ایک سوار اپنا گھوڑا سَرپٹ دوڑائے چلا جا رہا تھا۔ کچھ دُور اُسے ایک اور شہ سوار ملا۔ دونوں ایک دوسرے کے واقف اور دوست تھے۔ پہلے سوار، عُمرو بن العاص نے دُوسرے سوار، خالد بن ولید سے پوچھا’’ اے ابو سلیمان! کہاں کا ارادہ ہے؟ اتنی صبح کہاں جا رہے ہو؟‘‘ جواب ملا’’ عمرو! مَیں محمّد(ﷺ) کے ہاتھوں پر بیعت کرنے جا رہا ہوں۔‘‘ بہادر جرنیل نے پُرعزم لہجے میں اپنے فیصلے سے آگاہ کر دیا۔’’ ابو سلیمان! عجیب اتفاق ہے کہ مَیں بھی اسی مقصد کے لیے مدینہ جا رہا ہوں۔‘‘ابنِ عاص بولے۔ دونوں دوست بارگاہِ رسالتؐ میں حاضر ہو کر مشرف بہ اسلام ہو گئے۔دو نہایت زیرک اور تجربے کار جرنیلوں کے قبولِ اسلام کے موقعے پر حضور رسالت مآبﷺ نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا’’ آج مکّے نے اپنے جگر گوشے ہماری طرف اچھال دیے ہیں‘‘۔ایک موقعے پر حضرت عُمر فاروقؓ نے فرمایا’’ اے عمرو! آپؓ کی عقل و دانش اور فہم و فراست کو جب دیکھتا ہوں، تو میرے دل میں خیال آتا ہے کہ آپؓ کو سب سے پہلے دائرۂ اسلام میں داخل ہو جانا چاہیے تھا۔‘‘ آپؓ کی علمی قابلیت کے پیشِ نظر حضورﷺ نے آپ ؓکو کتابتِ وحی جیسے اہم کام پر بھی مامور فرمایا۔

سلسلۂ نسب

عمروؓ بن العاص بن وائل بن ہاشم بن سعید بن سہم بن عمرو بن حصیص بن کعب بن لوئی بن غالب القرشی۔حضرت عمرو ؓبن العاص، واقعۂ نیل کے چھے سال بعد مکّے میں پیدا ہوئے۔ آپؓ کے والد، قریش کے رئیس، مکّے کے سردار اور مسلمانوں کے بدترین دشمن تھے۔ عِطریات کے بڑے تاجر تھے، اس لیے گھر میں دولت کی ریل پیل تھی، دنیا گھومے تھے۔ علم کی قدر و منزلت سے آگاہ تھے۔ چناں چہ صاحب زادے، کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجّہ دی۔ عمروؓ بچپن ہی سے نڈر اور بہادر تھے اور کم عُمری ہی میں شہ سواری، تیر اندازی، شمشیر زنی میں ماہر ہو گئے تھے۔ ذہانت و فطانت خاندانی میراث تھی، چناں چہ والد کی طرح جلد ہی عرب کے کام یاب تاجروں میں شمار ہونے لگا۔ اعلیٰ قسم کی عِطریات لے کر شام، مِصر، یمن اور حبشہ جایا کرتے تھے، جہاں کے حکم رانوں سے قریبی تعلقات تھے۔

کر گئے وہ داستاں رقم، مردانِ حق، غازیانِ صف شکن

حضرت عمرو ؓبن العاص پیدائشی جرنیل تھے۔ جنگی مہارت، حکمتِ عملی، حُسنِ تدبّر، محاذ پر اچانک اور فوری فیصلوں پر قدرت رکھتے تھے۔ دشمن کی نقل و حرکت، اس کی مکّارانہ چالوں اور نفسیاتی حملوں کو خُوب سمجھتے اور موقع محل کے حساب سے اس کا جواب دینے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔آپؓ کا شمار قرونِ اولیٰ کے اُن شجاعت مند بہادر اور عظیم جرنیلوں میں ہوتا ہے کہ جنہوں نے مملکتِ اسلامیہ کی سرحدوں کو عرب کے ریگستانوں سے نکال کر افریقا اور یورپ کی دہلیز پر پہنچا کر دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔فتحِ مکّہ کے فوری بعد رسول اللہﷺ نے مکّے کے قرب و جوار میں نصب بُتوں کو گرانے کے لیے مختلف صحابہؓ کو منتخب کیا۔ چناں چہ حضرت خالد ؓبن ولید کو’’ عزیٰ‘‘، حضرت سعد بن زیدؓ کو’’منات‘‘ اور حضرت عمروؓ بن العاص کو ’’سواع‘‘ نامی بُت گرانے کی ذمّے داری دی گئی۔

بہترین جنگی حکمتِ عملی

8ہجری میں جنگِ موتہ کے بعد رسول اللہﷺ کو اطلاع ملی کہ مدینے سے دس دن کی مسافت پر واقع، وادی القریٰ میں مقیم، قبیلہ قفاء کے مشرکین نے مدینے پر حملے کی تیاری کر لی ہے۔ آنحضرتؐ نے اس مہم کے لیے حضرت عمروؓ بن العاص کو منتخب فرمایا، کیوں کہ اُن کی دادی اسی قبیلے سے تعلق رکھتی تھیں۔ آپؓ تین سو مجاہدین کا لشکر لے کر محاذ پر پہنچے، تو معلوم ہوا کہ مشرکین نے بہت بڑی فوج جمع کی ہوئی ہے۔ آپؓ نے فوری حضورﷺ کو اطلاع بھجوائی۔ چناں چہ حضرت ابوعبیدہ بن جراحؓ مزید دو سو مجاہدین کی کُمک لے کر پہنچے، جن میں سیّدنا ابوبکرؓ، سیّدنا عُمرؓ سمیت سردارانِ انصار بھی تھے۔ کمک آجانے کے بعد حضرت عمروؓ نے ایک بھرپور حملہ کر کے قفاء کے پورے علاقے کو فتح کر لیا۔ ابنِ اسحاق کا بیان ہے کہ’’ مسلمان، قبیلہ جزام کی سرزمین میں واقع ’’سلسل‘‘ نامی ایک چشمے پر اُترے تھے۔ اسی لیے اس مہم کا نام’’ذات السلال‘‘ پڑ گیا۔‘‘ اس جنگ میں حضرت عمروؓ کی سیاسی بصیرت اور جنگی حکمتِ عملی کے تین اقدامات کو رسول اللہﷺ نے بہت سراہا ۔(1) آپؓ راتوں کو سفر کرتے اور دن میں اپنی فوج کو گھاٹیوں میں چُھپا دیا کرتے تاکہ دشمن پر اچانک حملہ آور ہوں۔(2) سخت سردی کے باوجود کسی کو آگ جلانے کی اجازت نہیں دی تاکہ دشمن کو ان کی کم تعداد کا علم نہ ہو سکے۔(3) جنگ جیتنے کے بعد دشمن کے تعاقب سے منع کر دیا تاکہ اَن جان علاقوں میں بھٹک کر مجاہدین کی جانیں تلف نہ ہوں۔

حاکمِ عمّان

عرب کے جنوب میں واقع ریاست، عمّان میں دو مجوسی بھائیوں کی حکومت تھی، جو آگ کی پوجا کیا کرتے تھے۔ فتحِ مکّہ کے بعد رسول اللہﷺ نے حضرت عمروؓ کو ایک خط دے کر عمّان روانہ کیا۔ حضرت عمروؓ خط لے کر دربار میں پہنچے اور اُن کے سامنے نہایت بصیرت افروز تقریر کی۔ اپنے مکارمِ اخلاق، حُسنِ تدّبر، سیاسی بصیرت اور جہدِ مسلسل کے نتیجے میں چند ہی دنوں میں نہ صرف دونوں بھائی مسلمان ہو گئے، بلکہ پوری رعایا بھی مشرف بہ اسلام ہو گئی۔ حضور اکرمﷺ نے مسرّت کا اظہار فرما کر اُنہیں عمّان کا امیر مقرّر کر دیا۔ نبی کریمﷺ کے رحلت فرمانے تک آپؓ عمان کے امیر کی حیثیت سے اسے علم کا گہوارا بنانے میں مصروف رہے۔پھر رسول اللہﷺ کی رحلت کے بعد واپس مدینہ آگئے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے خلیفہ بننے کے بعد حضرت عمروؓ کو بنو قضاء کے مرتدین اور منکرینِ زکوٰۃ کی سرکوبی پر مامور فرمایا، تو آپؓ نے اس معرکے میں بھی کام یابی حاصل کی اور مدینہ تشریف لے آئے۔ حضرت ابوبکرؓ نے اُنہیں دوبارہ عمّان کا حاکم بنا کر واپس بھیج دیا۔

جن کے نام سے لرزتے تھے قیصرو کسریٰ…

12 ہجری میں رومی اور ایرانی حکومتوں نے مسلمان علاقوں پر حملوں کا آغاز کیا، تو حضرت ابوبکرؓ نے اُنہیں عمّان سے واپس بلا کر مجاہدین کے ایک لشکر کا امیر مقرّر کر کے فلسطین روانہ کر دیا۔ جہاں رومیوں کا ایک لشکر اُن کا منتظر تھا،تاہم آپؓ نے صدیقِ اکبرؓ کو خط لکھ کر مزید کمک منگوا لی۔ جلد ہی حضرت ابو عبیدہ بن جراحؓ، حضرت شرجیل ؓ، حضرت یزید بن ابی سفیانؓ اور حضرت خالد بن ولیدؓ کی قیادت میں اسلامی فوجیں اُن سے آملیں۔ حضرت عمروؓ نے گھمسان کی جنگ میں رومیوں کو شکستِ فاش دی۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے انتقال کے بعد حضرت عُمرؓ خلیفہ بنے، تو اُنھیں فوج کا سپہ سالار بنا کر مِصر روانہ کر دیا۔ مِصر دنیا بھر میں رومیوں کی پہچان تھا۔ حضرت عمروؓ نے بہترین حکمتِ عملی اور جنگی بصیرت کی بنا پر بہت جلد پورے مِصر پر قبضہ کر لیا۔ اُنھوں نے ایک نیا شہر بسایا، جس کا نام ’’فسطاط‘‘ رکھا۔ امیر المومنین، سیّدنا عُمر فاروقؓ نے’’ فسطاط‘‘ کو مِصر کا دارالحکومت قرار دے کر حضرت عمروؓ بن عاص کو مِصر کا حاکم مقرّر کر دیا۔حضرت عمروؓ بن عاص ہی کے دَور میں یہاں دریائے نیل کے خشک ہونے کا مشہور واقعہ پیش آیا، جو عمر فاروقؓ کا خط ڈالنے کے بعد دوبارہ بہنا شروع ہوا۔حضرت عمروؓ بن عاص نے اپنے دورِ حکومت میں یہاں بہت سی اصلاحات کیں۔ نئے شہر آباد کیے، نہریں کھدوائیں، زراعت کو وسعت دی، مدارس، مساجد، مسافر خانے، سڑکیں، پارک اور باغات بنوائے، جس کی بنا پر مصر خوش حال ممالک میں سرِفہرست آگیا۔ مصر کے حاکم کی حیثیت سے حضرت عمروؓ نے شہر فسطاط کے قریب دریائے نیل سے بحیرۂ قلزم تک 69 میل لمبی ایک نہر’’نہرِ امیر المومنین ‘‘ تعمیر کروائی۔ سیّدنا فاروق اعظمؓ کی شہادت کے بعد، حضرت عثمان غنیؓ خلیفہ بنے، تو اُنہوں نے حضرت عمروؓ بن العاص کو بدستور مِصر کے حاکم کی حیثیت سے برقرار رکھا، بلکہ اُنہیں دفاع اور خزانے کے محکمے بھی دے دیے۔

وفات

حضرت عمروؓ بن العاص نے اپنی زندگی کا بڑا حصّہ میدانِ جنگ میں گزارا۔ 34ہجری میں حضرت امیر معاویہؓ کے دورِ خلافت میں یمن، عراق، شام، فلسطین اور مِصر کے فاتح اور ملّتِ اسلامیہ کے یہ عظیم جرنیل کہ’’جن کے نام سے لرزتے تھے قیصر و کسریٰ‘‘ اس دارِ فانی سے رخصت ہوئے۔

تازہ ترین