• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہنر کی بے حرمتی ہردور میں ہوتی رہی ہے اس لئے ہمیں اس وقت قطعاً حیرت نہیں ہوتی جب ہم کسی انتہائی ہونہار سپورٹس مین کو اپنا اصل کام چھوڑ کر کسی معمولی نوکری بلکہ کلرکی کی طرف بھاگتا دیکھتے ہیں۔ اس روگردانی کے پیچھے فکرمعاش بھی کارفرما ہوتی ہے۔ بے توّکلی بھی اور کفرانِ نعمت بھی البتہ چند مثالیں ہماری نظر سے ایسی بھی گزری ہیں کہ جہاں یہ سب کچھ تو نہیں ہوتا مگر کچھ نہ کچھ اور ضرور ہوتاہے۔ بعض معاملات میں اس کی وجہ کسی کی بددعا ہوتی ہے اوربعض میں فقط اللہ کی رضا ہوتی ہے۔
کچھ ایسے بھی ہیں کہ جنہوں نے کسی عذر کے تحت اپنے ہنر کی بے حرمتی توکرلی مگر انہیں اس کا فائدہ بہت ہوا۔ ہمارا ایک عزیزدوست زمانہ ٴ طالب علمی میں بہت عمدہ سنگراور گٹارسٹ تھا اور اگر وہ اس کام کو جاری رکھتا تو بہت سے سپرسٹار اس کے آگے آج پانی بھرتے مگر اسے نجانے کیا سوجھی کہ یہ سب کچھ ایک طرف رکھ کرفزکس اور کیمسٹری پرپل پڑا۔ آج وہ ایٹمی سائنسدان ہے اور زندگی سے بے حد مطمئن بھی۔
ہمارے ملک میں تین سینئر صحافی اگر شاعری کے خدا داد ہنرکی بے حرمتی نہ کرتے توآج ان کا شمار اردونظم کے عظیم ترین شعرا میں ہوتا۔مگر ستم ظریفی دیکھئے کہ یہ بے حرمتی ان تینوں کو کس قدر راس آئی کہ آج تینوں ہی صف اول کے کالم نگارہیں۔ ان میں سے دو تو خاصے ہیوی ویٹ صحافی اور ایڈیٹر بھی ہیں جبکہ تیسرے بزرگوارکالم نگاری کے ساتھ ساتھ ٹی وی سکرین پربھی جلوہ افروز ہوتے رہتے ہیں۔
شاعری میں ایک معتبر نام اقبال ساجد بھی ہے مگرآپ نے باوجود نہ صرف شاعری بلکہ زندگی کی بے حرمتی بھی کماحقہ  کی۔ مرحوم نے اگر اپنے ہنرکے ساتھ تھوڑی سی بھی وفا کی ہوتی تو اردو غزل آج ان کے بغیر نامکمل ہوتی۔ ذرا دو عدد مطلعے ملاحظہ فرمایئے:
درِ قفس جو کھلا، آسمان بھول گئے
رہا ہوئے تو پرندے اُڑان بھول گئے
پھر کہتے ہیں:
جہاں بھونچال بنیادِ فصیل و در میں رہتے ہیں
ہمارا حوصلہ دیکھو ہم ایسے گھر میں رہتے ہیں
ہمارے محترم دوست شعیب بن عزیز کا شمار بھی شاعری جیسی لطیف چیز کے بے حرمتوں میں ہوتا ہے۔ یہ کفران ان سے نجانے شعوری طورپر سرزد ہوا یا لاشعوری طورپر مگر کل کا محقق یہ سوال ضرور اٹھائے گا کہ:
اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
جیسا عظیم الشان شعر کہنے والے شخص کی وجہ شہرت شاعری نہیں بلکہ کچھ اور کس طرح ہوگئی۔ شاعری کے حوالے سے کفرانِ نعمت کرنے والوں کی فہرست میں ایک اہم نام فیصل عجمی# بھی ہے۔ آپ کی اُٹھان بڑی لاجواب تھی جس کا اندازہ اس مطلع سے بخوبی لگایا جاسکتاہے:
سوچتا ہی رہتا ہوں وہ جہان کیسا ہے
دوسری طرف سے یہ آسمان کیساہے!
جس طرح شعیب کی شاعری نوکری کی نذرہوگئی بالکل اسی طرح فیصل عجمی کا وسیع و عریض کاروبار دیگر اشیاء کے ساتھ ساتھ ان کی شاعری کو بھی لے ڈوبا۔
شاعر متمول ہوتو ایک بات طے ہے کہ اس کی ہر آنے والی کتاب کا کم ازکم ”گیٹ اپ“ یعنی بناؤ سنگھار اس کی پچھلی کتابوں سے بہتر ہوتا ہے۔ عجمی# صاحب کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔
اس حوالے سے ناصرہ زبیری کا تذکرہ بنتا تو نہیں کیونکہ موصوفہ کی نئی کتاب ان کی پچھلی کتاب سے نہ صرف ”گیٹ اپ“ کے اعتبارسے بہترہے بلکہ شاعری میں بھی پختگی اور نکھار خاصا واضح ہے۔ اسی لئے ہم ان کی نئی کتاب ”کانچ کا چراغ“ کو ان کے گزشتہ شعری مجموعے ”شگون“ کی نسبت زیادہ سراہتے ہیں۔ اس کا ایک بے مثل شعر دیکھئے:
یہ تری جدائی کی یادگار ہے ورنہ
ایک زخم بھرنے میں دیر کتنی لگتی ہے!
لیکن یہاں ایک بات کئے بغیرہم بھی نہیں رہ سکتے کہ کتاب کا حجم اوراہتمام دیکھ کر یہ خواہش بھی پیدا ہوتی ہے کہ اس جیسے اور اس سے بہتر شعر بھی اس مجموعے سے مزید برآمد ہوں مگر ہماری نظر میں اس کتاب کا قلم توڑ شعر یہی ہے۔ موصوفہ کا تعلق چونکہ صحافت سے ہے اس لئے عین ممکن ہے کہ یہ بھی شاعری کے حقوق پورے کرنے میں ناکام رہتی ہوں۔ آپ ہمارے عزیز دوست شہاب زبیری کی اہلیہ ہیں اور”شہاب شناس“ لوگ جانتے ہیں کہ یہ بذات ِ خود ایک فل ٹائم جاب ہے اور یہ ناصرہ ہی کی ہمت ہے کہ انہوں نے شاعری اورشہاب# دونوں کو ہی شامل سفر رکھا ہے یقینا دونوں ایک دوسرے کے آڑے آتے رہتے ہوں گے اور اگر خدانخواستہ تنگ آ کر انہیں دونوں کو ادھورا چھوڑنا پڑے تو ہماری دلی گزارش ہوگی کہ شاعری بہت بڑی نعمت ہے خدارا اس کا کفران مت کیجئے گا شہاب# کی خیر ہے!!!
تازہ ترین