• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تعلیم کا ایک مقصد تحقیق اور ایجاد بھی ہوتا ہے کیونکہ تعلیم کے بغیر نہ تحقیق کا عمل آگے بڑھ سکتا ہے اور نہ ہی نت نئی سائنسی ایجادات وجود میں آسکتی ہیں۔آئیے نظر ڈالتے ہیں سائنس کی دنیا میں متعارف ہونے والی نئی ایجادات پر، جن کے موجد طالب علم ہیں۔

میڈیکل اِمیجز سے معلومات کا حصول

میڈیکل اِمیجز میں اس قدر تفصیلات شامل ہوتی ہیں کہ انہيں سمجھنا بہت مشکل ثابت ہوسکتا ہے۔ لیکن کارنیگی میلن یونیورسٹی کی27سالہ شِنجنی کنڈو کے پروگرام سے اب ان اِمیجز کی تشریح کرنا بہت آسان ہوجائے گا۔

میڈیکل امیجز کسی بھی مرض کی تشخیص میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں، لیکن ان میں جتنی تفصیل شامل کی جائے، ان کی تشریح اتنی ہی زیادہ مشکل ثابت ہوتی ہے۔ شنجنی کنڈو نے ایک ایسا مصنوعی ذہانت کا نظام تیار کیا ہے، جو ان امیجز کا تجزیہ کرکے ایسے پیٹرنز ڈھونڈ نکالتا ہے، جو کسی انسان کے لیے بہت مشکل کام ہوتا ہے۔ اس ایجاد سے کئی امراض کی نشاندہی اور علاج میں انقلاب آجائے گا۔ وہ کہتی ہیں، ’اگر پوشیدہ تبدیلیوں کی نشاندہی کا کوئی طریقہ سامنے آجائے تو ممکن ہے کہ ہمارے لیے علامات پیدا ہونے سے پہلے ہی کئی امراض کی تشخیص ممکن ہوجائے‘۔

اس وقت مصنوعی ذہانت کے ایسے الگارتھم موجود ہیں، جن کے ذریعے پیٹرنز کی نشاندہی ممکن ہے، لیکن وہ اپنی سوچ کے طریقۂ کار کی وضاحت کرنے سے قاصر ہیں۔ اس سے طبی تشخیص میں بہت بڑا مسئلہ پیش آتا ہے۔ کسی بھی مرض کی پیش رفت اور اس کی وجہ معلوم کیے بغیر اس کا حل ناممکن ہے۔ کنڈو کے سسٹم کے ذریعے انسان کمپیوٹر کی آنکھ سے دیکھ کر ایسے پیٹرنز نکال سکتا ہے، جن کے ذریعے کسی مرض کی ابتدائی پیش رفت واضح ہوسکے۔ اس کے ذریعے انسان بیماری شروع ہونے سے کئی ماہ، بلکہ کئی سال پہلے ہی ان علامات کی نشاندہی کرپائیں گے۔

مصنوعی ذہانت سے ہسپتال کے ڈیٹا کا استعمال

33سالہ مارزہ غریمی کا تعلق ٹورنٹو یونیورسٹی سے ہے۔ انہوں نےاپنےپی ایچ ڈی کے مطالعہ کے دوران بیتھ اسرائیل ڈیکانس میڈیکل سینٹر(Beth Isreal Deaconess Medical Centre) کے شعبہ انتہائی نگہداشت کےڈاکٹروں سے اشتراک کے بعد یہ محسوس کیا کہ ان کا سب سے بڑا چیلنج انفارمیشن اوورلوڈ تھا۔ لہٰذا انہوں نے مشین لرننگ کا استعمال کرتے ہوئے بکھرے ہوئے کلینکل ڈیٹا کو مفید بنانے کی ٹھانی تاکہ مریض کو اپنے ہسپتال کے قیام کے دوران اخراجات کا اندازہ ہو سکے، یہ کوئی آسان کام نہ تھا۔ مشین لرننگ کے لیے احتیاط سے لیبل کیے گئے ڈیٹا سیٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسری طرف میڈیکل ڈیٹا مختلف شکلوں میں آتا ہے جو کہ روز مرہ کے تحریر کردہ ڈاکٹروں کے نسخے سے لے کرخون کے ٹیسٹ اور مسلسل دل کی نگرانی کے اعداد و شمار کی صورت میں ہوتا ہے۔ اسپیشلسٹ ڈاکٹرز تشخیص یا مریض کے علاج کے حوالے سے مختلف رائے رکھ سکتے ہیں۔ ان چیلنجوں کے باوجود، مارزہ غزیمی نےمشین لرننگ کے لیے الگورتھم تیار کیا، جو متعدد طبی ڈیٹا اکٹھا کرتا ہے اور چیزوں کو درست طریقے سے پیش کرتا ہے، جیسے ہسپتال میں مریضوں کو کتنے دنوں تک رہناہے، موت کے امکانات اور مریضوں کے لیے خون کی منتقلی یا وینٹیلیٹرز کی ضرورت وغیرہ۔ مارزہ غزیمی اس سلسلے میں یونیورسٹی آف ٹورنٹو اور وِکٹر انسٹی ٹیوٹ کو جوائن کر رہی ہیں جہاں وہ مقامی ہسپتالوں میں اپنے الگورتھمز ٹیسٹ کرنے کی امید رکھتی ہیں۔

مشینوں کی انسانی طرز پر تربیت

31سالہ برینڈن ایلیک کا تعلق نیویارک یونیورسٹی سے ہے۔ برینڈن لیک نے ایک مصنوعی ذہانت کا پروگرام تیار کیا ہے، جو کہ ہاتھ سے لکھے ہوئے کریکٹرز کو نئے طریقے سے سیکھ سکتا ہے، جیسا کہ انسان صرف ایک مثال کو دیکھنے کے بعد سیکھتے ہیں۔ یہ چیز ایک ایسی دنیا میں عام سی لگتی ہے جہاں مصنوعی ذہانت خود ہی ڈرائیونگ کاروں کو کنٹرول کرتی ہے اور دنیا کے بہترین کھلاڑیوں کو شکست دیتی ہے۔ دوسری طرف ایک انسان جس نے ایک بار غیر معمولی چیز کو دیکھا ہےایک نئی مثال کو پہچاننے، اسے اپنی طرف متوجہ کرنے اور اس کے مختلف حصوں کو سمجھنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ لہٰذایلیک نےنفسیات سے مدد لی۔ انہوں نے اپنے پروگرام کوہزاروں حروف کی مثالیں دینے کے بجائے یہ سکھایا کہ ہاتھ کی لکھائی کیسے کام کرتی ہے۔ اس نے اپنے ماڈل کو حروف تہجی کی ریکارڈنگ دکھائی تاکہ یہ جان سکیں کہ اسٹروک بنانے کے لیے قلم کس طرح استعمال کیا جاتا ہے، کتنے اسٹروک عام طور پر ہوتے ہیں، اور کس طرح اسٹروکس منسلک ہوتے ہیں۔ جب ماڈل کو کوئی کردار غیر معروف حروف تہجی سے دکھایا جاتا ہے تو ماڈل اس کردار کوایک انسان کی طرح پہچان لیتا ہے اوراسے دوبارہ بنا سکتا ہے۔ انہوں نے ایک مثال کو سُننے کے بعد مشینوں کو ایک مثال کوپہچاننے اور بولے جانے والے الفاظ کو دوبارہ بنانے کے لیے ایک ہی نقطہ نظر کا اطلاق کیا ہے اور اس چیز کو بھی ذہن میں رکھا کہ لوگ مسئلہ حل کرتے وقت کس طرح تخلیقی سوال پوچھتے ہیں۔

تازہ ترین