• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پی ٹی آئی کے 100دن ہوئے ابھی 30دن بھی نہیں گزرے ہیں کہ مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے اراکین میں تلخ جملوںکی لے دے شروع ہوگئی ہے۔ خاص طور پر محترمہ مریم اورنگ زیب کا کہنا ہے یہ حکومت جھوٹی ہے اور اس نے معیشت کا بھٹہ بٹھادیا ہے جبکہ ہماری حکومت نے 5سال میں ملکی معیشت کو مضبو ط بنایا تھا ۔جواب میں وزیراطلاعات فواد چوہدری فرماتے ہیں اُس سچی حکومت نے پورے پاکستان کے Assetsآئی ایم ایف کو گروی رکھ کر پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ قرضے لئےاور کرپشن کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے اور اب اس ڈر سے کہ جیل کی ہوا نہ کھانی پڑے،اسحاق ڈار لندن میں نا م نہاد بیمار بن کر نیب اور عدلیہ سے منہ چھپا رہے ہیں ۔رانا ثناء اللہ اپنا سارا بخار شیخ رشید پر اتارتے ہوئے ان کو بنارسی ٹھگ قرار دیتے ہیں تو جواب میں شیخ رشید سعد رفیق پر جملے کستے ہیں کہ اتنی کرپشن ریلوے میں کی کہ صرف ریل کی پٹریاں رہ گئی ہیں ۔شہباز شریف کے جیل جانے کے بعد مسلم لیگ ن سکتے میں ہے کیونکہ اب حمزہ شہباز کا نمبر بھی نزدیک نظر آرہا ہے اس کی وجہ ایف آئی اے نے اُن کو قطر جانے سے روک دیا ہے ۔فی الحال نوازشریف ،مریم نواز اور صفدر گم صم ہیں اور 24 دسمبر کا انتظار کررہے ہیں کہ عدلیہ سے اُن کے کیسوں کا فیصلہ آنے والا ہے ۔ پی پی پی کے سربراہ آصف علی زرداری اور فریال تالپور صاحبہ کا بھی 24دسمبر کوفیصلہ متوقع ہے مگر زرداری صاحب بہادری کا مظاہرہ کرکے اب اداروں کو للکار رہے ہیں جبکہ فواد چوہدری میڈیا پر برملا کہہ چکے ہیں کہ میاں نوازشریف اورآصف علی زرداری کی سیاست ختم ہوچکی ہے ۔ بقیہ دن اُن کو اب جیل میں ہی گزارنا پڑیں گے ۔قوم کو ان کے جیل آنے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کھربوں کی کرپشن کے پیسے کیسے وصول ہونگے ۔سب اس کرپشن سے منکر ہیں اور اس کو سیاسی انتقام کا نام دے رہے ہیں اور تو اور اب تو ہمارے چند مقبول ترین لکھاری بھی بزنس ٹائیکون سمیت سب کو بے قصور سمجھ کر اُن پر کئی کالم بھی لکھ چکے ہیں ۔قوم حیران پریشان ہے ہر روز ایک نئی کرپشن کی کہانی میڈیا سے سننے کو ملتی ہے۔ اب انور مجید کیس سب سے بڑا کرپشن کیس بن کر سامنے آیا ہے لیکن وہ بھی انکاری ہیں ۔

11سال میں حکومت سندھ کی مہربانیوں سے ایک شوگر مل سے 11شوگر ملیں اور 10بڑی انڈسٹریاں ،پائور پلانٹس کیسے وجود میں آگئے ۔اب تو سندھ کے وزیراعلیٰ مُراد علی شاہ اور سابق وزیراعلیٰ قائم علی شاہ کانام بھی سرفہرست ہے جنہوں نے انور مجید اینڈ کمپنی پر مہربانیاں کرکے ان کو پاکستان کی سب سے امیر شخصیت بنادیا ہے۔نیب اب اسپیکر سندھ اسمبلی سراج دُرانی اور ان کے خاندان کے اثاثے جمع کرنے میں لگا ہوا ہے۔ نثار کھوڑوبھی اس کی لپیٹ میں آتے نظر آرہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے ان 10سالوں میں آج تک کھربوں کے کرپشن کیسوں میں ایک سیاست دان کو سزا ہوئی نہ کوئی پیسہ اُن سے وصول ہوا تو پھر اس اُتار چڑھائو کا قوم کو کیا فائدہ ہوا؟۔قوم پر توصرف قرضوں میں اضافہ ہی ہوا ۔ہمارے قانونی جھول سے سب نے فائدہ اُٹھا یااور اب یہ پختہ کرپشن پروف ہوچکے ہیں ۔چند ماہ اخبارات ،ٹیلی وژن کی سرخیاں عوام کو دیکھنے کو ملتی ہیں اور پھر ٹائیں ٹائیں فش ۔فی الحال مولانا فضل الرحمٰن اور عبدالصمد اچکزئی، جے یو آئی کی مرکزی قیادت جن پر میاں نواز شریف نے اپنے دُور اقتدار میں عنایتوں کی بارشیںکی تھیں، ابھی تک ایف آئی اے اور دیگر اداروں کی گرفت سے دُور ہیں ۔پی ٹی آئی سے محاذ آرائی سے اجتناب کررہے ہیں البتہ بیچ بیچ میں خورشید شاہ کو لقمہ دیتے رہتے ہیں ۔اب میں آتاہوں تبدیلیوں کی طرف ۔پی ٹی آئی کی ٹیم جس کو پہلی احتسابی میٹنگ میں اپنے مرکزی وزراء کو 100فیصد نمبر دے کر اور مغرور کردیا ہے اور اتحادیوں پر تنقید کرکے اُن کو فرار کا راستہ دکھا دیا ہے ۔یہی عمل صوبائی سطح پر پنجاب میں دہرایا گیا ہے ابھی تک یہ نہیں معلوم ہوسکا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کون ہیں ؟اگر مرکزی وزراء کی کارکردگی 100فیصد تھی تو 2مرتبہ بجلی ،گیس ،پیٹرول ،ڈیزل کے دام کیوں بڑھائے گئے ۔ڈیزل اور پیٹرول دنیا میں سستا اور بقول وزیرخزانہ سعودی عرب سے اُدھار تیل کے علاوہ 2ارب ڈالر اُدھار مل چکے ہیں تو تیسری مرتبہ 130ارب کا اضافی بوجھ عوام پر کیوں ڈالا جارہا ہے اور ڈالر کو بے لگام کیوں چھوڑ دیا گیا ہے۔یہ کیسا وزیر خزانہ ہے جس کو ڈالر کے بڑھنے کا بھی علم پوری طرح نہ ہو،باہر کے باہر اسٹیٹ بینک از خود ایک رات میں 140روپے کی سطح تک وزیرخزانہ کی منظوری کے ہیجان برپا کردیتا ہے ۔دوسری اہم تبدیلی یہ ہے کہ اس ڈالر کی وجہ سے صنعت کاری رُک گئی ہے تمام بازار اور کاروبار ٹھپ ہوچکے ہیں ۔عوام کی قوت برداشت ختم ہوتی جارہی ہے ۔ایک بڑا غلط فیصلہ توڑپھوڑ کا برداشت کرلیا مگر ایسا ہی دوسرا فیصلہ عوام کو سڑکوں پر لے آئے گا ۔کب تک پی ٹی آئی مصنوعی کندھوں پر بیٹھ کر حکومت چلائے گی کوئی مثبت تبدیلی نظر تو آنی چاہئے ۔وزیراعظم عمران خان اور وزیرخزانہ جلد خوشخبریوں کی روزِاول سے نویدیں سُنا سُنا کر کب تک عوام کو تسلیاں دیتے رہیں گے ۔ایک قدم آئی ایم ایف کی طرف بڑھاتے ہیں دوسرے دن جھٹلاکر قوم کو بیوقوف بناتے ہیں ۔ہمارے وزیراطلاعات فواد چوہدری کی زبان اور مسلم لیگ ن کی وزیراطلاعات مریم اورنگ زیب کی زبانوں میں کوئی فرق نہیں لگتا سوائے مذکر اور مونث کے ۔کیا ایسی ہی گفتار کے لئے پی ٹی آئی کو ووٹ دیئے تھے ۔سابق صدر آصف علی زرداری کہتے ہیں فوری الیکشن کرانے کا اشارہ ملا ہے ۔اب تک کی گورننس دیکھ کر تو پی ٹی آئی کا اقتدار ختم ہوسکتا ہے اس کی وجہ بھی پی ٹی آئی والوں کی نااہلی ہوگی ۔عوام انہیں اب ووٹ نہیں دیں گے یہ ایک سیاسی المیہ ہوگا ۔دوبارہ لٹیرے ایک جان بن کر اقتدار میں آئیںگے ۔یہ نادانی ہوگی جس نے بھی عمران خان کو الیکشن کروانے کا مشورہ دیا ہے وہ اندر سے اُن کا بدترین دشمن ہی ہوسکتا ہے ۔

عمران خان کو چاہئے پہلی فرصت میں اپنے اقتصادی مشیروں کو فارغ کرکے فیڈریشن اسٹاک ایکسچینج کے صدر اور چیمبرز آف کامرس کے صدور کا پینل تشکیل دیں اور ان سے مشاورت کرکے آئندہ کا لائحہ عمل بنائیں یہ وزیر خزانہ کے بس میں نہیں ان کو 20کروڑ آبادی والے ملک کا بجٹ بنانے اور چلانے کا کوئی تجربہ نہیں ہے ۔وہ جس ادارے سے وابستہ تھے اس کو بھی بینک کرپشن کا منہ دیکھنا پڑا تھا کیا وہ تجربہ اس ملک پر کرنا چاہتے ہیں؟

تازہ ترین