• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سچی بات یہ ہے کہ عطاء الحق قاسمی کے یادگار کالم کے بعد شیخ الاسلام پر کچھ لکھنا کار لاحاصل ہے۔ اشفاق احمد کو بہت بعد میں اندازہ ہوا تھا کہ ”گڈریا“ کے نام سے انہوں نے کیا افسانہ تخلیق کر دیا ہے۔ کل دلّی سے قاسمی صاحب کا فون آیا تو میں نے کہا ”یار عزیز! آپ کو کچھ وقت گزر جانے کے بعد پتہ چلے گا کہ آپ نے کالم نگاری کا کیا شاہکار تخلیق کیا ہے“۔
مجبوری وہی ہے جو غالب کی تھی
ہر چند ہو مشاہدہٴ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
سو ان دنوں حضرت شیخ الاسلام کے مشکبو تذکرے سے دامن بچاتے ہوئے کچھ لکھنا ممکن ہی نہیں۔ حضرت کینیڈا کے برف زاروں سے لاہور کے مرغزاروں میں تشریف لا چکے ہیں۔ آج شام اقبال پارک میں ان کا فقید المثال جلسہ ہونے جا رہا ہے جس کی تعداد انہوں نے 50 لاکھ سے کم کر کے 25 لاکھ کر دی ہے۔ آج کا اقبال پارک کبھی منٹو پارک ہوا کرتا تھا۔ 23 مارچ 1940ء کو اسی پارک میں قائداعظم کی سیادت وقیادت تلے مسلم لیگ کا وہ تاریخی کنونشن منعقد ہوا تھا جس نے قرارداد پاکستان کی منظوری دی تھی۔ یہ اپنے عہد کے ایک عظیم سیاستدان کی بے مثل سیاسی جدوجہد کا ثمر تھا کہ صرف سات برس بعد سیاست کے بطن سے ایک ریاست نے جنم لیا۔ آج اسی پارک میں حضرت شیخ الاسلام بتائیں گے کہ اس ریاست کو بچانا ہے تو سیاست کو طویل عرصے کیلئے گہری قبر میں دفن کرنا ہو گا۔
ہمارے ایک کالم نگار دوست نے شیخ الاسلام کو مشورہ دیا ہے کہ اگر وہ واقعی انقلاب اور تبدیلی کے آرزو مند ہیں تو انہیں عمران خان کا ساتھ دینا چاہئے۔ مجھے یہ مشورہ نہایت مناسب لگا اس حوالے سے میں نے اپنے دماغ پر تھوڑا زور ڈالا تو مجھے شیخ الاسلام اور عمران خان کے درمیان کمی، مماثلتیں اور مشابہتیں نظر آئیں، دونوں کا باہمی اشتراک عمل عین فطری ہو گا۔
اہم ترین بات یہ ہے کہ دونوں انقلاب کے داعی ہیں۔ تبدیلی دونوں کا مطلوب ومقصود ہے۔ دونوں جوانی کی حدوں سے آگے نکل چکے ہیں مگر جوانوں بلکہ نوجوانوں کا سا رنگ ڈھنگ رکھتے ہیں۔ خان صاحب عمر میں شیخ الاسلام سے کچھ کم ہیں۔ وہ اکسٹھویں برس کا سفر شروع کر چکے ہیں جبکہ شیخ الاسلام باسٹھویں سال میں ہیں۔ سو دونوں کو ہم عمر کہا جا سکتا ہے۔ دونوں خاندان سیاست کا کوئی پس منظر نہیں رکھتے۔ خان صاحب کرکٹ کے ذریعے اور میڈیا کے توسط سے ہیرو بنے اور شیخ الاسلام کے عالمانہ بانکپن نے بھی الیکٹرونک میڈیا کے زور پر دلوں کی عقیدت گاہوں میں گھر بنایا۔ خان صاحب کے شوکت خانم میموریل اسپتال کی نمو میں شریف خاندان کا اہم کردار رہا۔ برسوں سنگ بنیاد پر کندہ نواز شریف کا نام اسپتال کی دیوار کی زینت بنا رہا۔ اسی طرح علامہ طاہر القادری نے اتفاق مسجد کی خطابت سے ہوتے ہوئے منہاج القرآن کی بنیاد ڈالی۔ انہیں بھی شریف خاندان کی فراخدلانہ سرپرستی حاصل رہی۔ ایک عرصہ تک دونوں میاں صاحبان کے بڑے مداحوں میں شمار ہوتے رہے۔ دونوں کے درمیان ایک قدر مشترکہ یہ ہے کہ اپنے اداروں کے لئے چندہ جمع کرنے اور لاکھوں ڈالر کے عطیات کا ہنر جانتے ہیں۔
پھر یوں ہوا کہ خان صاحب کا دل صحت وتعلیم کے فلاحی منصوبوں سے اکتا سا گیا۔ عین انہی دنوں شیخ الاسلام نے بھی سوچا کہ تبلیغ واشاعت دین کے لئے صرف منہاج القرآن کا حجرہٴ تقدیس کافی نہیں۔ دونوں نے تقریباً ایک ساتھ ہی سیاست کا رخ کیا، دونوں نے اپنی اپنی جماعتوں کو تحریک کا نام دیا۔ ایک نے پاکستانی تحریک انصاف (PTI) کا پرچم اٹھایا۔ دوسرے نے پاکستان عوامی تحریک (PAT) کا علم بلند کیا۔ شیخ الاسلام نے اپنی تحریک کے سیکڑوں امیدواروں کو1990ء کو انتخابی اکھاڑے میں اتارا،کوئی ایک بھی کامیاب نہ ہوا۔ خان صاحب نے1997ء میں اپنے سیکڑوں عشاق کو پی ٹی آئی کے ساتھ معرکہ حق وباطل میں اتارا، کوئی ایک بھی کامیاب نہ ہوا۔ خود خان صاحب نے آٹھ حلقوں سے انتخاب لڑا، آٹھوں میں ہار گئے، آٹھوں میں ضمانتیں ضبط ہو گئیں۔ باقی چھ کی تفصیل مجھے معلوم نہیں لیکن انہوں نے لاہور کے حلقہ 95 سے میاں نواز شریف کے 50592 ووٹوں کے مقابلے میں 5365 ووٹ حاصل کئے۔ حلقہ94 سے اداکاری و صداکاری سے شہرت پانے والے طارق عزیز50227 ووٹ لیکر جیت گئے ان کے مقابلے میں خان صاحب 4594 ووٹ لے پائے۔
دونوں انقلابی رہنماؤں میں ایک بڑی مماثلت یہ ہے کہ اکتوبر1999ء میں پرویز مشرف نامی ’مردحق“ نے انقلاب نو کا پرچم اڑاتے ہوئے جمہوریت پر کاری وار کیا اور منتخب وزیراعظم کو اٹک قلعے میں ڈال کر ایک نیک وپاکباز ”سیاست“ کی بنیاد ڈالی تو دونوں پر وجد کی کیفیت طاری ہو گئی۔ دونوں نے قوم کو بتایا کہ جس مسیحا کی راہ دیکھی جا رہی تھی وہ نمودار ہو چکا ہے۔ تاریخ کے سب سے شرمناک ریفرنڈم کا ڈنکا بجا تو دونوں اس والہانہ پن کے ساتھ دوڑ میں شامل ہوئے کہ باقی سب گردِپا ہو گئے۔ دونوں کی ایک اور مماثلت یہ ہے کہ سیاست کے دشت بے اماں کی لمبی مسافتوں کے بعد، مشرف کے سایہٴ شفقت تلے ہونے والے2002ء کے انتخابات میں دونوں انتخابات جیت کر قومی اسمبلی میں پہنچ گئے۔ جانے یہ کس سرگوشی کا اثر تھا کہ دونوں کے دل میں وزارت عظمیٰ کا جگنو جگمگانے لگا پھر یوں ہوا کہ مسلم لیگ (ق) پیا کو بھا گئی۔ دونوں شکست خواب کے آزار کا شکار ہو کر مشرف سے دل برداشتہ اور اسمبلی سے بیراز ہو گئے۔ شیخ الاسلام نے دو سال بعد استعفیٰ دے دیا، خان صاحب عملاً تارک الپارلیمان ہو گئے۔
آج لمحہ موجود میں دونوں شخصیات کی قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں انقلاب اور تبدیلی کے علمبردار ہیں۔ دونوں نواز شریف کے خون کے پیاسے ہیں۔ خان صاحب، انقلاب بذریعہ سیاست کے قائل ہیں لیکن شیخ الاسلام کا کہنا ہے کہ سیاست رہی تو ریاست نہیں رہے گی۔ دونوں کے بارے میں پرویز مشرف نے نیک تمناؤں کا اظہار کیا ہے میرے دوست کا مشورہ صائب ہے کہ شیخ الاسلام انقلاب تبدیلی کے لئے خان صاحب کا ساتھ دیں لیکن ہر خوشہٴ گندم کو جلا ڈالنے اور کاخ امرا کے درودیوار ہلا ڈالنے کے درپے شیخ الاسلام شاید یہ مشورہ نہ مانیں البتہ یہ امکان خاصا روشن ہے کہ انتخابات کے بعد خان صاحب کو بھی کشت ویران کی بے ثمری کا اندازہ ہو جائے گا تو ان کا سونامی بھی شیخ الاسلام کے سیل بے پناہ میں جذب ہوجائے گا اور اس کی ہر موج آب ”سیاست نہیں ریاست“ کا لقمہ جانفزا الاپ رہی ہو گی۔ عین ممکن ہے کہ دونوں کو پرویز مشرف جیسا کوئی نجات دہندہ مل جائے اور وہ اس کی کشتِ آرزو کو شاداب کر رہے ہوں۔
تازہ ترین