• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ 2003 ء کے اوائل کی بات ہے کہ مجھے دبئی میں پہلی بار محترمہ بے نظیر بھٹو سے ملاقات کا موقع ملا میں ان دنوں ”مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش تک“ کی کہانی پر کام کر رہا تھا۔ بھٹو صاحب اور پیپلز پارٹی پر لگنے والے الزامات کے حوالے سے ضروری تھا کہ میں محترمہ سے ان اعتراضات کا جواب لوں۔ اس دن دبئی میں گرمی کچھ زیادہ تھی۔ محترمہ اپنے مقررہ وقت سے کوئی بیس منٹ پہلے تشریف لے آئیں۔ انہیں کہیں اور جانے کی جلدی تھی اور ساتھ ہی ساتھ وہ سخت گرمی کی شکایت بھی کر رہی تھیں۔ ہم نے انہیں اے سی والے کمرے میں جانے کی درخواست کی اور اپنے کیمرے سیٹ کرنے شروع کئے۔ 20منٹ میں ہم تیار ہو گئے۔ محترمہ دوبارہ آئیں اور پھر انہوں نے اطمینان سے ہمارے سوالات کے جوابات دیئے۔ 55منٹ کے قریب دورانئے کا یہ انٹرویو پہلے کبھی شائع نہیں ہوا۔ اس کے چند منٹ کے حصے 50منٹ میں ضرور چلے ہیں۔ ”بنگلہ دیش کیوں بنا اور پیپلز پارٹی اور بھٹو صاحب کا اس سانحے میں کیا رول تھا“؟ اس حوالے سے یہ انٹرویو بہت اہم ہے۔ میں آج کے کالم میں محترمہ کے ساتھ ملاقات میں ان کے تاثرات مختصراً پیش کر رہا ہوں۔میں جاننا چاہتا تھا کہ بھٹو صاحب نے ”اُدھر تم اِدھر ہم“ کا نعرہ کیوں لگایا۔ محترمہ کا کہنا تھا کہ اس کا مطلب ”الگ الگ“ نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ”اُدھر تم منتخب ہوئے ہو تو تمہاری حکومت ہوگی، اِدھر ہم منتخب ہوئے ہیں تو ہماری حکومت ہونی چاہئے“۔ اِدھر کے لوگوں نے چھ نکات کو مسترد کر دیا تھا جبکہ اُدھر کے لوگوں نے چھ نکات کو تسلیم کیا۔ بھٹو صاحب کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ ہمیں پہلے جو آئین سازی کرنی ہے اس کے لئے اِدھر اور اُدھر دونوں طرف کے لوگ مل کر بیٹھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر کمال حسین جیسے لوگ جو بھٹو صاحب پر اعتراض کرتے ہیں انہیں یہ تو دیکھنا چاہئے کہ جب مجیب الرحمن رہا ہوئے تو ڈھاکہ پہنچ کر پہلی تقریر میں انہوں نے کہا کہ انہوں نے پوری زندگی ایک آزاد ملک قائم کرنے کے لئے جدوجہد کی۔ ان کی وہاں کی تقریر کہیں ریکارڈ میں موجود ہو گی۔ یہ تاریخ کا حصہ ہے۔ وہ تو ابتداء ہی سے دو ملک چاہتے تھے لیکن محترمہ کے بقول اس ضمن میں ایک اہم بات اور بھی تھی، وہ یہ کہ یحییٰ خان نے جو الیکشن کرائے تھے، ان کے دو مقاصد تھے۔ آئین کی تشکیل اور حکومت سازی۔ 1970ء کے الیکشن سے ایک قانون ساز اسمبلی وجود میں آئی۔ پہلے آئین بننا تھا پھر حکومت سازی ہونی تھی۔ اس وقت حکومت بنانے کی باتیں نہیں ہو رہی تھیں۔ بات اس وقت یہ ہو رہی تھی کہ آئین کیا بنے گا؟ پورے پاکستان میں چھ نکات ہوں گے یا پھر کوئی کمپرومائز کا راستہ نکلے گا؟ ان دنوں مجیب الرحمن کی اتنی قوت بھی نہیں تھی مگر باقی جماعتوں نے بائیکاٹ کیا تھا۔ اس لئے مجیب الرحمن نے مشرقی پاکستان میں سویپ کیا۔ وہ چاہتے تھے کہ 6نکات کے ذریعے ملک کو چلائیں لیکن مغربی پاکستان نے 6نکات کو مسترد کیا تھا۔
محترمہ نے کہا اس وقت جنرل یحییٰ نے کہا تھا کہ وہ اسمبلی کو 120 دن کی مہلت دیں گے اور اگر 120دن میں آئین نہ بنا تو وہ اسمبلی ختم کر دیں گے۔ بھٹو صاحب نے ان سے کہا کہ آپ 120 دن کی پابندی نہ لگائیں کیونکہ آئین بنانا نازک کام ہے کہ اس کے لئے انڈر سٹینڈنگ میں وقت لگے گا۔ اسمبلی کے سر پر یہ تلوار نہیں لٹکنی چاہئے کہ جنرل سر پر بیٹھا ہے اسے اڑانے کے لئے۔
میں جاننا چاہتا تھا کہ ”اگر واقعی بھٹو اور مجیب مل کر بیٹھ جاتے تو کیا کسی متفقہ آئین پر سمجھوتا ہو سکتا تھا“۔ محترمہ نے کہا کہ اگرچہ یہ کہنا قیاس آرائی ہو گا لیکن یحیٰی خان کا دباؤ غلط تھا۔ ان کے خیال میں اس کی نیت خراب تھی۔ اس نے ہر حال میں اسمبلی کو اڑانا تھا۔ 120دن گزرنے کے بعد اس نے الزام لگادینا تھا کہ ہم نے سیاستدانوں کو موقع دیا تاکہ یہ آئین بنا سکیں لیکن یہ اہل نہیں اس لئے اسمبلی توڑ دی گئی۔ جمہوریت کے ساتھ گیم کھیلا گیا اور اسی وجہ سے ملک کی سالمیت کو نقصان پہنچا۔
میں محترمہ سے کہا کہ ”مشرقی پاکستان کے بہت سے دانشوروں کا کہنا تھا کہ مجیب الرحمن چھ نکات سے ہٹنے کو تیار تھے۔ ان کا مطالبہ یہ تھا کہ غیر ملکی امداد کا 55فیصد حصہ مشرقی پاکستان پر خرچ ہو، وہ مشرقی پاکستان کے استحصال کی بات کرتے تھے اور اسے ختم کرانا چاہتے تھے“۔ محترمہ کا کہنا تھا کہ اگر اسمبلی کو آزادانہ طور پر موقع دیا جاتا تو بہتر ہوتا۔ لیکن پھر بڑے پیمانے پر نسل کشی شروع ہو گئی۔ ریاست کا ڈھانچہ تباہ ہو چکا تھا۔ شیخ مجیب کے رضاکار پولیس اور عدالت کو سنبھال رہے تھے۔ بھٹو اور دوسرے سیاستدانوں کا اسمبلی جانا ممکن نہیں تھا۔ فوج کو جانا پڑتا تاکہ سیاستدانوں کے اسمبلی جانے کے لئے راستہ بن سکے۔ ریاست کا کنٹرول تو بالکل ختم ہو چکا تھا اس وقت تک پورا ملک مجیب الرحمن کی ملیشیا کے قبضے میں تھا۔
میرے اس سوال کے جواب میں کہ ”بھٹو صاحب نے پولینڈ کی قراراد پھاڑ کر یو این او سے بائیکاٹ کر دیا، اگر دوسرے ملک کچھ کر بھی سکتے تھے تو اس کا راستہ ہی رک گیا، بی بی سی اور دوسرے ممالک کے میڈیا نے یہ منظر بار بار دکھایا“۔ محترمہ کا کہنا تھا کہ ایسا کچھ نہیں ہوا وہ وہاں بھٹو صاحب کے ساتھ موجود تھیں۔ جب بھٹو صاحب وہاں پہنچے تو اس وقت تک جنرل نیازی نے سرنڈر کر دیا ہوا تھا۔ اس زمانے میں ٹرنک کال ہوا کرتی تھی۔ بھٹو صاحب یہ پیغام دے رہے تھے کہ جنرل نیازی کو کہیں کہ لڑیں، ابھی سرنڈر نہ کریں۔ جنرل یحییٰ نے بھی جنرل نیازی کو کہا کہ اتنی جلدی سرنڈر نہیں کریں۔ ”ہم نے اقوام متحدہ میں بہت کوشش کی کہ سیز فائر ہو جائے لیکن چونکہ جنرل نیازی نے سرنڈر کر دیا تھا اس لئے سکیورٹی کونسل کو یہ معلوم تھا کہ اب پاکستان زیادہ دیر کھڑا نہیں رہے گا۔ وہ وقت گزاری کررہے تھے“۔ سوویت یونین انڈیا کی بھرپور حمایت کر رہا تھا۔ بھٹو صاحب نے جب یہ دیکھا کہ سکیورٹی کونسل کا مدد کا کوئی ارادہ نہیں ہے تو انہوں نے اپنی تقریر کی۔ ان سے پہلے جو لوگ وہاں تقریر کر رہے تھے بھٹو صاحب اس کے نوٹس لے رہے تھے۔ انہوں نے پولیش قرارداد نہیں بلکہ اپنے نوٹس پھاڑے۔ ”میں خود اس وقت وہاں ٹیبل پر تھی۔ بھٹو صاحب نے کہا کہ میرے لوگ مر رہے ہیں، اسلحے کے زور پر انہیں دو حصوں میں تقسیم کیا جا رہا ہے لیکن آپ لوگ یہاں وقت گزاری کر رہے ہیں“۔ وہ بطور احتجاج وہاں سے اٹھے، انہوں نے ان لوگوں کو غیرت دلانے کے لئے واک آوٹ کیا۔ پھر بھٹو صاحب نے مغربی پاکستان کے لوگوں کو حوصلہ دیا، خیال تو یہ تھا کہ پہلے مشرقی پاکستان اور پھر مغربی پاکستان کو توڑا جائے گا۔ بھٹو صاحب نے صدر نکسن کو آمادہ کیا کہ وہ ساتواں بیڑہ روانہ کریں۔ اس کے بعد لوگوں نے کہا کہ امریکہ نے پاکستان کے حق میں موقف تبدیل کیا اور مغربی پاکستان بچ گیا ورنہ اس وقت پورے پاکستان کو خطرہ تھا۔ یہ بھٹو صاحب تھے جنہوں نے اس مشکل وقت میں دلیری دکھائی۔ ملک ٹوٹا لیکن اس کی سب سے بڑی ذمہ داری جنرل یحییٰ پر آتی ہے حالانکہ 50ء کی دہائی سے اسٹیبلشمنٹ اور ڈکٹیٹرز کی پالیسی تھی کہ جس نے ملک میں جمہوریت کو جڑ نہیں پکڑنے دیا۔ مشرقی پاکستان کے لوگوں کو نظر انداز کرنا اور ناانصافی اور پھر جنرل یحیٰی کے اقدامات نے ملک کے دو ٹکڑے کر دیئے۔
جب بھٹو صاحب صدر بن گئے تھے اور انہوں نے شیخ مجیب کو رہا کر دیا تھا۔ وہ کہنے لگیں کہ بھٹو صاحب نے شیخ مجیب سے درخواست کی کہ وہ کوئی طریقہ ڈھونڈیں کہ ہم دونوں حصے ساتھ رہ سکیں، بھٹو صاحب نے شیخ مجیب کی منت کی اور مجیب الرحمن نے وعدہ کیا کہ وہ ڈھاکہ جا کر اپنے رفقاء سے مشورہ کریں گے اور پھر اکٹھے رہنے کا کوئی راستہ سوچیں گے، پھر وہ لندن چلے گئے پھر جیسے ہی مجیب الرحمن نے ڈھاکہ کی سرزمین پر قدم رکھا تو انہوں نے کہا کہ ان کی پوری جدوجہد ایک آزاد ملک کے لئے تھی سو ان کی آرزو پوری ہو گئی۔ محترمہ نے کہا کہ مجیب الرحمن کی آرزو کبھی پوری نہ ہوتی اگر اسٹیبلشمنٹ نے ناانصافیاں نہ کی ہوتیں۔
وہ کہنے لگیں کہ بنگال کی آبادی زیادہ تھی لیکن ان کو 55 فیصد حصہ دینے کو کوئی تیار نہ تھا اور کہا جاتا تھا کہ برابری ہو گی کیونکہ یہاں کا رقبہ زیادہ ہے، جب وہ الگ ہوئے تو کسی نے نہیں کہا کہ بلوچستان کی آبادی کم لیکن رقبہ زیادہ ہے اس لئے اس کو بھی زیادہ حصہ دیا جائے۔ ہم نے اپنی قومیتوں کو پاکستانی نہیں سمجھا۔ جب ہم سب سندھی، مہاجر، بلوچ، پٹھان اور پنجابی کو برابر کا پاکستانی سمجھیں گے تب ہی بہتری آئے گی۔
وہ کہنے لگیں کہ جب وہ ہارورڈ کی طالبہ تھیں تو بھٹو صاحب نے انہیں ایک خط لکھا جو بعد میں کتاب بنا ”دی گریٹ ٹریجڈی“ مشرقی پاکستان کے الگ ہونے کے جو واقعات ہیں ایک لیڈر کی نظر سے وہ سب اس میں شامل ہیں ”میں سمجھتی ہوں کہ تاریخ جاننے کے لئے وہ پڑھنا بہت ضروری ہیں“۔
تازہ ترین