• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بلور خاندان میں آج ماتم ہے کیونکہ ایک اہم ستون گر گیا ہے۔ بشیر بلور کی موت حاجی غلام احمد بلور کے بیٹے کے قتل کے بعد دوسرا بڑا سانحہ ہے۔ اس قتل میں پیپلز پارٹی کے پشاور کے لیڈر قمر عباس کو مورد الزام ٹھہرایا گیا تھا اور کچھ عرصے بعد جب قمر عباس کو قتل کیا گیا تو کہنے والے کہتے ہیں بلور خاندان میں سکون آ گیا کہ بدلہ لے لیا گیا ہے۔ میرا تعلق پشاور سے ہے اور میری ساری عمر پشاور کی گلیوں اور سڑکوں پر گزری ہے۔ بہت سے آج کل کے بڑے بڑے لیڈروں کو میں اسکول اور کالج کے زمانے سے جانتا ہوں اور پرانی دوستیاں بھی ہیں۔ میرے ساتھ پڑھنے والوں میں چند نام اب بہت بڑے اور کچھ بدنام بھی ہو گئے ہیں۔ سلیم سیف اللہ اور ان کے سارے بھائی، آفتاب شیرپاؤ، شجاع خانزادہ اور بھی کئی سیاست میں نام کما رہے ہیں۔ باقی بھی اپنے اپنے شعبوں میں بہت اوپر تک پہنچے۔ 1968ء میں جب میں نے ایک صحافی کے طور پر پہلی نوکری کر لی تو 19-20 سال کے نوجوان ہونے کے باوجود جن قد آور سیاستدانوں سے واسطہ رہا ان میں باچا خان، ولی خان، بھٹو صاحب، مولانا مفتی محمود، مولانا ہزاروی، خان قیوم خان، اصغر خان، حیات خان شیر پاؤ سے ذاتی تعلق رہا اور پوری 1970ء کی انتخابی مہم میں نے اکیلے کراچی کے سب سے بڑے انگریزی اخبار اورPPI خبر رساں ایجنسی کے لئے کور کی۔
بلور خاندان سے اس وقت سے ہی واقفیت ہے اور واسطہ رہتا ہے۔ اکثر مجھے افسوس بھی ہوتا ہے اور کچھ تلخ حقائق یاد کر کے ندامت بھی ہوتی ہے کہ کس طرح سیاست میں لوگ اور خاندان آگے بڑھتے ہیں۔ بلور خاندان خاص اور پشاوری زبان میں جسے ”ٹھیٹ“ کہتے ہیں، ”پشوری“ لوگ تھے اور ہیں۔ چار بھائیوں غلام، الیاس، بشیر اور عزیز کے والد بلور دین تھے، جنہوں نے بعد میں دین نکال کر اپنے نام کے ساتھ خان لگا لیا۔ غلام ان سب بھائیوں میں سب سے بڑے تھے اور شریف بھی۔ قصہ خوانی بازار کے ختم ہوتے ہی بازار والگراں شروع ہوتا ہے، جہاں ان لوگوں کی دال اور آٹے کی دکان تھی۔ باچا خان اور ولی خان کے ساتھ غلام بلور نے سیاست شروع کی مگر کیونکہ چارسدہ کی پشتون سیاست میں پشوری پوری طرح فٹ نہیں ہوتے تھے، بلور ہمیشہ دوسرے درجے کے شہری ہی رہے۔ پھر 1970ء کے الیکشن کے بعد NAP اور JUI کی مخلوط حکومت بنی اور ارباب سکندر خان جو ایک انتہائی شریف آدمی اور سادہ ترین لیڈر تھے گورنر بنے اور مولانا مفتی محمود وزیراعلیٰ۔ نیب کے دروازے جب حکومتی خزانوں اور مواقع پر کھلے تو سب کے وارے نیارے ہونا شروع ہو گئے۔ بلور خاندان کے بھی، دکان سے آٹے کے مل لگ گئے اور تجارت شمال، جنوب، مغرب اور مشرق چاروں طرف پھیل گئی۔ بلور خاندان کو معلوم تھا کہ مال کمانا اور جائز طریقے سے کمانا کتنا مشکل ہوتا ہے۔ سو انہوں نے اچھی سرمایہ کاری کی۔ ولی خان کے خاندان پر بے دریغ خرچہ کیا گیا اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ بلور خاندان اور خاص کر غلام بلور صوبہ سرحد کے سب سے پرانے اور سینئر سرخ پوش یعنی حکیم عبدالجلیل جو خدائی خدمتگار موومنٹ میں پیش پیش تھے اور غفار خان کے ساتھ تھے ان کو پیچھے چھوڑ گیا۔ حکیم جلیل حاجی عدیل کے والد تھے اور عدیل جو خیبر پختونخوا میں ایک موٹر سائیکل کی ایجنسی چلاتے تھے، دیکھتے ہی رہ گئے اور بلور کوسوں دور آگے نکل گئے۔ میرا دفتر عدیل کے دفتر سے ایک بلڈنگ دور تھا اور ہم اکثر بیٹھ کر سیاست اور صحافت پر بحث مباحثہ کرتے تھے، مگر حقیقت یہ تھی کہ پشتون اور چارسدہ کی طاقت کو کوئی پشاوری لیڈر چیلنج نہیں کر سکتا تھا۔ باچا خان اور ولی خان جیسی بھی سیاست کرتے تھے اور جن نظریات کے حامل تھے بدعنوان اور کرپٹ نہیں تھے اور بلور خاندان نے ان کی مالی طور پر جتنی خدمت کی وہ کسی غرض اور انعام کیلئے نہیں تھی، نہ ان کو وہ انعام کبھی مل سکا۔ جب NAP یا بعد میں ANP کی قیادت نسیم ولی خان اور خاص کر اعظم ہوتی کے ہاتھ آئی تو اس پارٹی کا مزاج اور رنگ ہی بدل گیا۔
اگر کسی کو عوامی نیشنل پارٹی کا زرداری کہا جائے تو اعظم ہوتی لسٹ میں پہلے نمبر پر آئیں گے۔ پھر وزارت مواصلات میں جتنی گاڑیاں تیز چلتی ہیں اور جتنی سڑکیں ہر سمت میں نکلتی ہیں، اعظم ہوتی نے سب کا سفر کیا۔ نسیم ولی خان نے ان کو شہ دی اور اسفند یار ولی کو دھکے کھانے کیلئے چھوڑ دیا۔ آج بھی وہ زخم کہیں نہ کہیں نظر آ جاتے ہیں۔ اس دوران بلور خاندان دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتا گیا۔ سب بھائی سیاست میں آ گئے، کوئی وزیر بنا اور کوئی مشیر۔ کارخانے بھی چلتے رہے اور سنیما بھی ۔ حاجی عدیل رگڑے کھاتے رہے اور ہمیشہ دوڑ میں پیچھے ہی رہے۔ یہاں تک کہ 2008ء کے انتخابات میں اس پارٹی کو حکومت بنانے کا موقع ملا۔ اس سے پہلے کے سالوں میں بلور خاندان اورPPP میں قمر عباس کے جرم اور غلام بلور کے بیٹے کے قتل پر سخت تلخی رہی، ادھر آفتاب شیرپاؤ بھیPPP کو چھوڑ گئے۔ یاد رہے ان کے بھائی حیات شیرپاؤ جو میرے بڑے قریبی دوست تھے، کے قتل میں اسفند یار ولی اور نثار خان جیل بھی جا چکے تھے۔ سو PPP اور ANP میں کوئی زیادہ قربت نہیں تھی مگر خود اسفندیار ولی اور بلور خاندان میں بھی ایک تناؤ اور کچھاؤ ہر وقت رہتا تھا۔ اب 2008ء کے انتخابات ہوئے اور ایک اہم موڑ آیا، جب بلور خاندان کو وزیراعلیٰ بنا کرANP ان کی خدمات اور قربانیوں اور انویسٹمنٹ کا انعام دے سکتی تھی مگر یہ ہو نہ سکا اور اس سانحہ میں ، میں بھی ایک چھوٹا سا ڈاکیہ بن گیا۔
یہ کہانی مارچ 2008ء کی ہے اس وقت زرداری صاحب سے میری اور دوسرے دوستوں کی اکثر ملاقات ہوتی تھی۔ اسلام آبادF-7 کے بختاور ہاؤس میں۔ ایک رات میں، ہمارے دوست نصرت جاوید اور زرداری بیٹھے صوبہ سرحد کی سیاسی صورتحال پر بحث کر رہے تھے کیونکہ ابھی وہاں وزیراعلیٰ نامزد نہیں ہوا تھا مگرANP کو یہ نام دینا تھا۔ ایک دو دن میں مجھے اگلی صبح پشاور جانا تھا دفتری کام سے، جب میں نے یہ ذکر کیا کہ میں پشاور جا رہا ہوں تو زرداری بولے کہ میرا ایک کام کرو اور تم دونوں یعنی میں اور نصرت جاوید میرا ایک پیغام اسفندیار ولی کو دے دو کیونکہ وقت نہیں ہے اور پیغام خفیہ ہے۔ انہوں نے کہا اسفند یار سے اتنا کہنا کہ کسی بلور کو وزیراعلیٰ نہ بنائے کیونکہ بلور خاندان اور پی پی پی میں بہت نفرتیں ہیں قمر عباس اور غلام بلور کے بیٹے کی وجہ سے۔ میں اگلے دن پشاور گیا اور راستے میںANP کے دفتر پہنچا تو وہاں اسی موضوع پر اہم اجلاس جاری تھا۔ اسفند یار کو ایک کونے میں بلا کر میں نے انہیں زرداری کا پیغام دیا اور ایک منٹ بعد وہاں سے روانہ ہو گیا۔ جو خوشی میں نے ان کے چہرے پر دیکھی وہ اب بھی یاد ہے۔ بعد میں معلوم ہوا بہت گمبھیر مسئلہ تھا اور کوئی بلور شاید وزیراعلیٰ بن ہی جاتا مگر اسفند یار نے زرداری کے کندھے پر بندوق رکھ کر یہ گولی بلور خاندان پر چلا دی اور اعظم ہوتی کے بیٹے کو وزیراعلیٰ بنا دیا۔ بلور اسی تنخواہ پر کام کرنے پر مجبور ہو گئے مگر بشیر بلور کو سینئر وزیر بنا دیا گیا۔ اس خاندان نے جس طرح چارسدہ کی خدمت کی ہے اور قربانیاں دی ہیں، وہ ایک مثال ہے مگر ان کو صلہ یہ ملا کہ ایک بھائی کا بیٹا گولی کا شکار ہوا اور دوسرا بھائی خودکش حملہ آور کا۔ اب یہ قربانی کے بکرے اور کتنی تپسیا کرینگے۔ بشیر کی شہادت کے بعد اب بھی اگرANP کی قیادت پشاوری لیڈروں کے ہاتھ نہ آئی تو پھرANP صرف چارسدہ کی پارٹی رہ جائیگی۔ میری تمام دعائیں بشیر کے بیٹوں اور بلور خاندان کیساتھ ہیں۔
تازہ ترین