• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کوئی مشکل ہی سے یقین کرے گا کہ دریائے سندھ کے پاٹ میں ویران پڑے ہوئے علاقے میں،جسے کچے کا علاقہ کہتے ہیں، جہاں کچھ عرصے پہلے تک ڈاکوؤں، لٹیروں اور اٹھائی گیروں کا راج تھا، آج وہاں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر اسکول تعمیر ہوگئے ہیں جن میں نہ صرف لڑکے بلکہ سینکڑوں لڑکیاں بھی تعلیم پا رہی ہیں۔میں وہاں گیا تو جن عمارتوں کو میں پولیس اسٹیشن سمجھا تھا وہ جدید درس گاہیں تھیں۔ پولیس کا تو ذکر ہی کیا، بے چارے سپاہی اس علاقے میں جاتے ہوئے ڈرتے تھے، اسی ویرانے میں تنہا کھڑی ہوئی ایک ویران عمارت دیکھی جوپولیس نے ڈاکوؤں کو کچلنے کے لئے اپنی چوکی کے طور پر بنائی تھی۔ ڈاکوؤں کو اپنے ہتھیار چلانے اور نشانے بازی کی مشق کرنے کے لئے اچھا ٹھکانا مل گیا اور عمارت پر اتنی گولیاں چلیں کہ پولیس کو سر پر پاؤں رکھ کر بھاگنا پڑا۔میں گیا تو اسی شیر دریا کا یہ نظار ہ بھی کیا جسے دیکھنے کے لئے میںتیس برس پہلے لدّاخ سے اس کے ساتھ ساتھ چلا تھا۔ صو بہ سندھ کے علاقے میں یوں نہیں ہے کہ دریا میں ٹھاٹھیں مارتا ہوا پانی بہہ رہا ہو۔ یہاں تو موسم موسم کا معاملہ ہے۔ کبھی جوش کا عالم ہو توزور آور دریا ابل پڑتا ہے اور کبھی خاموش دھاروں کی طرح اِدھر بہنے لگتا ہے اور کبھی اُدھر۔ باقی علاقے سنسان رہتے ہیں۔ ان میں نہ کوئی بستی ہے نہ آبادی۔ بس دریا کی سوکھی ہوئی تہہ ہے اور وہ بھی خوب زرخیز۔ یہی کچے کا علاقہ ہے۔ میں گیا تو پورے علاقے میں گندم کی نئی فصل پھوٹی تھی۔ تا حد نگاہ بالشت بالشت پودے اُگے ہوئے تھے جیسے سارے بیج ایک ہی دن ڈالے گئے ہوں اور جیسے سارے پودے ایک ہی روز پھوٹے ہوں۔ ان نظاروں کے بیچ اسکولوں کی عمارتیں دیکھ کر جو احساس ہوا اسے کیا نام دوں حیران ہوں۔ راحت یا فرحت ؟مگر راحت بھی عمارتوں سے نہیں بلکہ اپنی اپنی جماعتوں میں سکون سے بیٹھ کر سر جھکائے کتابوں میں دھیان لگائے ہوئے بچوں کو دیکھ کر،اور اس سے بھی زیادہ ان استادوں اور استانیوں کو دیکھ کر جو ان دور دراز علاقوں میں جاکر اپنے فرض انجام دینے کے لئے تیار ہیں ورنہ مجھے بتایا گیا کہ ٹیچرز کی کتنی ہی آسامیاں خالی ہیں مگر کوئی ان علاقوں میں جانے پر آمادہ نہیں۔ مجھے ہر جماعت میں مستعد ایک استاد یا استانی نظر آئی۔ ان کے جذبے کو دل ہی دل میں داد دیتا رہا۔ ایک ٹیچر کو دیکھا جو بچوں کے ساتھ مل کر طرح طرح کے ماڈل بنا رہے تھے، مثال کے طور پر کاریں، بسیں، جہاز اور مشینیں، لیکن ان کی تازہ ترین ایجاد ان کی بنائی ہوئی اے ٹی ایم کیش مشین تھی جس میں سے نوٹ بھی نکل رہے تھے۔ بچے یوں شاد ہورہے تھے جیسے یہ ان ہی کی ایجاد ہے۔ ایک اور خاتون ٹیچر کو دیکھا جنہوں نے حیران کردیا۔ ان کی جماعت میں سب لڑکیاں تھیں جو تین قطاروں میں بیٹھی تھیں اور یقین کیجئے کہ ایک قطار ریاضی پڑھ رہی تھی، دوسری انگریزی اور تیسری قطار کی لڑکیاں اسلامی تاریخ کے عنوان کے تحت اس وقت امام حسن ؓکی زندگی کے حالات پڑھ رہی تھیں۔ ٹیچر نے اپنے بلیک بورڈ (تختہ سیاہ) کو تین حصوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔ ٹیچرنے عملے کی کمی کا کیا خوب حل نکالا، جو بھی نکالا، مجھے ششدرکر گیا۔

ایک جگہ اسکول کی پردہ دارگاڑی دیکھی جو لڑکیوں کو لاتی لے جاتی ہے اور جسے ایک ٹریکٹر کھینچتا ہے۔یہ گاڑی ان لوگوں نے خود ہی بنالی ہے۔ یہ ساری درس گاہیں دیکھتے دیکھتے ہم کافی دور نکل گئے۔آخر ایک اسکول پر پہنچے جو اگرچہ اونچائی پر بنایا گیا تھا لیکن دریا وہاں اپنا زور دکھاتا ہوگا چنانچہ بنانے والے نے ایک ڈیڑھ میٹر اونچی بنیادیں بنا کر ان کے اوپر اسکول کی پکی اور مضبوط عمارت اٹھائی تھی۔ اس نے طے کیا ہوگا کہ کتنی ہی طغیا نی آئے، بچوں کی تعلیم میں خلل نہیں پڑنے دوںگا۔سچ ہے، دنیا میں کمال کے لوگوں کی کمی نہیں۔

مگر ایک کمال کے شخص سے ملنا ابھی باقی تھا۔ دوپہر ہوگئی تھی اور اگرچہ ہرجگہ چائے او رکافی سے تواضع کی گئی مگر وہ جو بات سجے ہوئے دسترخوا ن میں ہوتی ہے وہ کہاں۔ گاڑی میں میرے میزبان آپس میں باتیں کر رہے تھے جن میں دریائی مچھلی کا ذکر تھا۔ بہت ہی اونچی نیچی بالکل ہی کچی اور کہیں کہیں زیر آب سڑکوں پر جھٹکے کھلاتی ہماری کار ایک شان دار مدرسے کے سامنے رکی۔ مدرسے کے صدر دروازے پر اس سے بھی شان دار ایک بزرگ کھڑے تھے، اچھا تن و توش، سفید برّاق نورانی ڈاڑھی اور چہرے پر مسلسل بشاشت۔ پشت پر درس گاہ کی عمدہ عمار ت جس کی پیشانی پر لکھا تھا:نظر محمد انڈھڑ مڈل اسکول۔ کسی نے تعارف کرایا اور نظر محمد انڈھڑ صاحب نے آگے بڑھ کر ہم سب کا خیرمقدم کیا۔ ایک ایک کو گلے سے لگایا او راپنا اسکول دکھایا جس کی زمین اور عمارت خود انہوں ہی نے عطیہ کی تھی۔ بس انہیں اردو کم ہی آتی تھی اس لئے ہم ان سے علاقے کی کہانیاں نہ سن سکے۔ (اپنے نام کے یہ ہجے شاید انہوں نے خود ہی کئے تھے)۔اسکول کے معائنے کے بعد ارشاد ہوا کہ اوطاق میں چلئے۔سامنے ہی ہے، پیدل چل سکتے ہیں۔ اگلے ہی موڑ پر اوطاق آگیا،اہالیانِ سندھ کا مہمان خانہ۔جیسے کسی حویلی کا برآمدہ ہو، چھ بڑے بڑے در۔ اندر مونڈھے اور بہت سے پلنگ لگے ہوئے۔کچھ میزیں آراستہ۔ ذرا دیر بعد اندر کہیں سے کھانے کے لوازمات آنے شروع ہوئے۔ ہر شخص ایک ایک قاب لا رہا تھا۔ دیکھتے دیکھتے ضیافت شروع ہوگئی۔ ہم دریا کے پاٹ میں بیٹھے تھے اس لئے بھنی ہوئی اورتلی ہوئی دریائی مچھلی ہمارے سامنے چن دی گئی۔ کچھ ہم نے کھائی، کچھ ہمارے قدموں میں گھومنے والی بلّیوں نے نوش کی، وہیں بیٹھے بیٹھے ہاتھ دھلے اور وہیں تولئے فراہم ہو گئے۔ نظر محمد انڈھڑ صاحب بے حد مسرور تھے۔ ان کی آدھی باتیں سمجھ میں آئیں، آدھی ہم نے باقی لوگوں کے لئے چھوڑ دیں کیونکہ علاقے کے سارے ہی سرکردہ لوگ کھانے میں شریک ہو چکے تھے۔ اس روز اوطاق اور اس میں لگنے والی کچہری کا بڑا ہی لطف آیا اور یاد بھی نہ رہا کہ کبھی اس علاقے میں ڈاکوؤں کا راج تھا۔

تازہ ترین