• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ کے مسائل اور اُن کا حل

قضا اعمال کے احکام

(گزشتہ سے پیوستہ )

اسلام کے فرائض میں سے پانچواں فرض، حج ہے۔یہ اہم بدنی اور مالی عبادت ہے اور اسے اس قدر اہمیت حاصل ہے کہ اسلام کےپانچ ارکان میں سے یہ ایک اہم اور بنیادی رکن ہے۔قرآنِ کریم نے اسے صاحبِ استطاعت پر فرض قراردیا ہے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے کہ جسے حج سے کوئی سخت بات یاجابر حاکم اور روکنے والا مرض نہ ہواور اس کے باوجودوہ حج نہ کرے تو اس کی مرضی ہے کہ وہ یہودی ہوکر مرے یا چاہے تو عیسائی ہوکر مرے۔آج کل مختلف حیلوں بہانوں سے اس فریضے میں تاخیر کی جاتی ہے، مثلاًابھی عمر پڑی ہے ،کرلیں گے یا حج بڑھاپے کی عبادت ہے یا کاروبار کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں ہے یا بچیاں جوان ہیں یا حج کے بعد آکر پھر یہی زندگی گزارنی ہے وغیرہ۔جس حدیث کا ماقبل ذکر ہوا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اتنی بڑی عبادت ہے کہ جان بوجھ کرترک کرنے سے سلب ایمان کا خطرہ ہے۔اللہ پاک ہم سب کی حفاظت فرمائے۔حج اس شخص پر فرض ہے جس کے پاس مکۂ مکرمہ آنے جانے اور وہاں ٹھہرنے کا خرچ ہو اور اس دوران اہل وعیال کے گزارے کے لیے بھی اس کے پاس بندوبست ہو۔اگر عورت ہے اور اس کاشوہر اور یا محرم اپنے خرچ سے ساتھ جانے کے لیے تیار نہ ہو،تو شوہر یا محرم کا خرچہ بھی ہو، تو عورت پر حج فرض ہے۔اس تفصیل کے مطابق جس پر حج فرض ہو، اسے پہلی فرصت میں اس فریضے سے سبکدوش ہونا چاہیے۔اگر والدین کے ذمے فرض حج رہ گیا ہو تو سعادت منداولاد کو ان کی طرف سے بھی حج بدل کرناچاہیے۔بسااوقات اولاد کو والدین سے میراث میں لاکھوں کروڑوں مل جاتے ہیں اور ان کی میراث کی بدولت وہ عیش وعشرت کی زندگی گزارتے ہیں ،مگر انہیں یہ دھیان نہیں آتا کہ والدین کی طرف سے حج بدل کرلیں، تاکہ وہ عذاب سےمحفوظ ہوجائیں۔حج بدل کی جو شرطیں ہیں، وہ زیادہ ہیں اور بوقت ضرورت مستند اہل علم سے معلوم کی جاسکتی ہیں ،تاہم تین بنیادی شرطیں یہ ہیں کہ فوت ہونے والے شخص پر حج واجب ہو اور اس نے وصیت کی ہو اور ترکے میں اتنا مال چھوڑا ہو ،جس سے ضروری حقوق اداکرنے کے بعد حج کیا جاسکے۔اگر والدین نے وصیت نہ بھی کی ہو اور اولاد ان کی طرف سے حج بدل کرلیں یا کرالیں تو رحمت حق سے امید قوی ہے کہ قبول فرمالیں گے۔

حج کے علاوہ بعض کام اور جملے ایسے ہیں کہ ان کی وجہ سے حق تعالیٰ کی طرف سے جرمانہ عائد ہوتا ہے،جسے کفّارہ کہاجاتا ہے ۔کفّارہ کی ادائیگی بھی واجب ہے اور اگر زندگی میں ادا نہ کیا ہو،تو اس کی وصیت واجب ہے ،مثلاً کسی نے قسم کھا ئی کہ فلاں کام نہیں کروں گا اورپھر وہ کام کرلیا تو اس پر واجب ہے کہ بطور کفّارہ دس مساکین کو صبح وشام پیٹ بھر کرکھانا کھلائے یا دس فطرانے اداکرے،اگر اس کی طاقت نہ ہوتو تین دن لگاتار روزے رکھے۔اگر بیوی کے قریب نہ آنے کی قسم کھائی اور پھر چار ماہ سے قبل بیوی سے صحبت کرلی تو اسی طرح کفّارہ کی ادائیگی واجب ہے۔اگر رمضان کے فرض روزے کو جان بوجھ کرتوڑ دیا، مثلاً کھاپی لیا یا زوجہ سے صحبت کرلی تو مسلسل ساٹھ روزے رکھنا واجب ہے۔اگر بیماری یا کمزوری اس حد تک ہے کہ روزے رکھنا ممکن ہی نہیں ہے تو ساٹھ غریبوں کو صبح وشام پیٹ بھر کر کھانا کھلانا واجب ہے۔اگرکسی سے اس طرح روزہ ٹوٹا ہو اور پھر اس نے خود کفّارہ ادانہ کیا ہواور اس کا انتقال ہوگیا ہو تو اس کی طرف سے کفّارہ اداکرلینا چاہیے اور اگر اس نے وصیت کی ہو تو پھر تہائی مال میں سے اداکرنا واجب ہے۔

قربانی بھی واجب ہے۔اگر کسی کے ذمے واجب قربانی رہ گئی ہے، تو اس کی قضا واجب ہے۔قربانی کی قضا قربانی کے ایّام میں قربانی کرکے نہیں ہوتی بلکہ یا تو قربانی کا جانور یا اس کی رقم مستحق زکوٰۃ کو صدقہ کرنا ہوتی ہے۔اگر کسی کاقرضہ ہے تو اس کی ادائیگی بھی واجب ہے، مثلاً کسی سے ادھار لیا ہے یا کرایہ مکان باقی ہے یا مال خرید ا ہے اور قیمت ادانہیں کی ہے تو ادائیگی واجب ہے۔ادائیگی اصل مالک کو کی جائے گی ، اگر وہ حیات نہیں ہے تو اس کے وارثوں کو کی جائے گی ، اگر تلاشِ بسیار کے باوجود وارثوں کا بھی علم نہ ہو تو اس کی طرف سے اتنی رقم راہِ خدا میں صدقہ کردی جائے گی۔قرض کی ادائیگی اتنی ضروری ہے کہ کسی کے انتقال کے بعد اس کی تجہیز وتکفین کاضروری خرچہ نکالنے کے بعد لو گوں کے قرضے اداکیے جائیں گے ، اس کے بعد اگر کوئی جائز وصیت کی ہو، تو پوری کی جائے گی اور وصیت کے بعد مال ورثاء میں تقسیم کیا جائے گا۔غرض بندوں کی قرضے اداکرنے سے پہلے وصیت پوری کرنا اور مال تقسیم کرنا درست نہیں ہے۔اگر میت پر خدائی قرضہ ہو، مثلاً زکوٰۃ ،فطرہ،قربانی وغیرہ میں سے کچھ باقی رہ گیا ہو اور اس نے وصیت کی ہو تو اس کے تہائی مال میں سے خدائی قرضے اداکیے جائیں گے،اگر وصیت نہ کی ہو تو وارثوں پر ادائیگی لازم نہیں ہے، تاہم کوئی عاقل وبالغ اپنی طرف سے اد اکردے تو بہت اچھا ہے۔(مستفاد از رسالہ فدیہ،قضا اورکفارے:تالیف مفتی جمیل احمد تھانوی ؒ ،کفایت المفتی،امدادالفتاویٰ )

تازہ ترین