• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں جو پاکستان کے وسیع علاقے دیکھ چکا ہوں، کوئی میری آنکھوں پر پٹی باندھ کراس علاقے میں لے جائے اور پٹی کھول کر پوچھے بتاؤ یہ کون سا علاقہ ہے تو میں نہیں بتا سکتا۔ یہ تھرپارکر ہے، سب سے الگ، سب سے جدا، نہ کوئی شناخت، نہ پہچان۔صدیوں سے الگ تھلگ تھا، کوئی اس کا پرسانِ حال نہ تھا۔خشک، اجاڑ، بے آب و گیاہ، نہ سبزہ، نہ رونق، بہار بھی نہیں، بس خزاں ہی خزاں۔ریت کے ٹیلے، کچھ نیچے، کچھ اونچے، کچھ زیادہ اونچے۔ان کے چپے چپے پر گڑھے سے، جیسے مویشیوں کے بیٹھنے کے ٹھکانے بنے ہوں۔جھاڑیوں کو اونچ نیچ کی پروا نہیں، وہ ہر جگہ بے دریغ اگی ہوئی لیکن ان میں تو ہریالی نام کو نہیں۔بالکل یوں لگیں جیسے سوکھی پڑی ہوں، جیسے ہوا چلے گی تو ان کے خشک پتّے سوکھے تنکوں کی طرح اُڑکر ہر جانب بکھر جائیں گے۔ ہاں، بیچ بیچ میں ذرا اونچے درخت جن کے سیدھے تنے کی اونچائی پر کچھ پتّے اور بس۔ اونچائی پر یوں کہ نیچے کے پتّے اونٹ کھاگئے، جتنی اونچائی تک اونٹوں کی گردن جاتی ہے اتنی بلندی پر پتّے ناپید۔نیچے سبز پودے بھی ہیں پر وہ جو انسان نے ہریالی کی خاطر لگائے ہیں۔ مگر علاقے میں آزاد گھومنے والے مویشی تو ان کو لمحہ بھر میں چٹ کرجائیں گے۔ ان کو کسی طرح ڈھانپ دیا گیا ہے۔سرکاری گاڑی آکر ان کو سینچ جاتی ہے ورنہ یہ زمین ان کو نہیں سہار سکتی۔مویشی کا تو یہ حال ہے کہ وہ نہ ہوں تو اس ویرانے میں کوئی جاندار شے حرکت کرتی ہوئی نظر نہ آئے۔ گاؤں دیہات ہیں لیکن کہیں جھاڑیوں میں چھپے ہوئے۔اس پر یاد آیا کہ اس علاقے میں گائے، بکریوں اور اونٹوں کے علاو ہ اگر کچھ پیدا ہوتا ہے تو انسان کے بچّے۔ میں نے تھرپارکر میں آئے دن بچوں کے مرنے کی خبریں سنی تھیں۔ وہاں گیا اور ایک مقامی ڈاکٹر سے ملاقات ہوئی تو ان سے میرا ایک ہی سوال تھا۔یہ تھرپارکر میں درجنوں کے حساب سے بچے مرتے رہتے ہیں، کیوں؟ انہوں نے ساری بات واضح کردی۔ کہنے لگے کہ اس علاقے کے باشندے ہماری ہر بات مان لیتے ہیں پر ایک بات نہیں مانتے۔ لاکھ سمجھاتے ہیں کہ بارہ بارہ تیرہ تیرہ بچے پیدا نہ کرو۔ نہیں مانتے، یہ مویشی تو ہیں نہیں کہ دروازہ کھول کر باہر نکال دیا اور چرنے چگنے کے لئے آزاد چھوڑ دیا۔ ان کی نگہداشت نہیں کر سکتے، ماں کا دودھ نہیں پلاتے، بچے مر جاتے ہیں۔عجب اتفاق ہوا۔ اس کے بعد ہی تھرپارکر کی ایک خاتون سے ملاقات ہوئی جو اپنے دودھ پیتے بچے کو ساتھ لائی تھی۔ ہم نے کہا کہ ماشاء اﷲ بچہ صحت مند نظر آرہا ہے۔ آپ کیا کرتی ہیں۔صاف اردو میں بولی ’’چھ مہینے تک اپنے دودھ کے سوا کچھ نہیں پلاتی‘‘۔ میں نے پوچھا کہ آپ کا سب سے بڑا بچہ کتنا بڑا ہے؟۔ بولی:کالج جاتا ہے۔

میں نے ماشاء اﷲ کہا۔ اَور کچھ نہیں پوچھا۔

آپ نے جادوگروں کے قصے سنے ہوں گے۔ میں نے بھی ایک شخصیت کی داستان سنی جو ایسی ہے کہ آپ کو سنائے بنا دل نہ مانے گا۔ سنئے، ہرا یک کی طرح شاید ویرانوں کے بھی مقدّر ہوتے ہیں۔ تھرپارکر تو اتنا اجڑا ہوا تھا کہ چند دیہات کے سوا کوئی وہا ں آباد ہی نہ تھا۔مگر جیسے ایک صحرا کو مجنوں نے بسایا تھا، ویسے ہی نئے زمانے کا ایک مجنوں تھرپارکر کے علاقے میں جا پہنچا۔ یہ بشیر احمد انصاری تھے جو سندھ کول اتھارٹی کے سربراہ تھے اور شاید مٹی کو سونگھ کر ہی جان لیتے تھے کہ اس کے نیچے خزانہ دفن ہے۔ ان کے سر میں دھن سمائی ہوئی تھی کہ تھرپارکر کی خاک میں کچھ نہ کچھ پوشیدہ ہے۔شاید کوئی اور متفق نہ تھا، انہوں نے 1992میں اپنے خرچ سے تھرپارکر کی زمین میں کھدائی شروع کرادی۔گہرائی سے نکلنے والی مٹی گواہی دے رہی تھی کہ یہاں کوئلے کے ذخیرے دفن ہیں۔ انصاری صاحب کو اتنا یقین ہوا کہ انہوں نے اپریل2002ء میں وہاں آٹھ فٹ قطر کے کنویں کی کھدائی شروع کردی۔ کنواں کھدتا گیا اور صاف لگتا تھا کہ کوئلے کی پرت قریب ہے۔تھرپارکر کے باشندوںکی آنکھوں میں امید کے چراغ روشن ہونے لگے۔ لیکن ان کے مزدور ایک سو اکیس میٹر کی گہرائی تک پہنچے تھے کہ ایک روز زیر زمین پانی کا ذخیرہ پھٹ پڑا۔کنویں کا نچلا حصہ بیٹھ گیا۔ اس کا انہیں اتنا صدمہ ہوا کہ 27اپریل 2004ء کو حرکت قلب بند ہوئی اور وہ چل بسے۔کچھ بھی ہو، کوئلے کے بے حد بڑے ذخیرے کی اتنی شہادتیں مل چکی تھیں کہ پاکستان نے دنیا میں کوئلے کے سولہویں سب سے بڑے ذخیرے کو نکالنے کا فیصلہ کرلیا۔ کہتے ہیں کہ ایک اندازے کے مطابق تھرپارکر کے علاقے اسلام کوٹ میں کھودی جانے والی کان میں ایک کھرب پچھتّر ارب ٹن کوئلہ موجود ہے جس سے تین سو سال تک ایک لاکھ میگا واٹ بجلی پید ا ہو سکتی ہے۔ میں وہاں گیا، پختہ، عمدہ صاف ستھری سیدھی سڑک پر سفر کرتا ہوا اسلام کوٹ تک پہنچا، وہاں ایک دوسری ہی دنیا آباد تھی۔ ایک جانب کان کھُد رہی تھی، دوسری جانب وہی حکومت سندھ اورایک پاکستانی ادارہ چینی ماہرین کے ساتھ مل کر پہاڑ جیسا بجلی گھر کھڑا کررہے تھے۔منظر یہ تھا کہ کام ہورہا تھا، کام ہی کام۔ انہوں نے رات کو دن بنا رکھا تھا۔ بے شمار لوگوں کو روزگار ملا ہوا تھا، چینی ماہرین پاکستانیوں کے ساتھ مل کر کام کررہے تھے۔ جو لوگ چینی زبان سیکھ گئے تھے وہ دونوں کارکنوں کی بات چیت کروا رہے تھے۔میں آگے چلا تو ایک خوش نما پارک نظر آیا جس پر لکھا تھا’انصاری پارک‘۔میں پارک کے اندر گیا تو ایک بڑے سے فریم میں اتنی ہی بڑی تصویرلگی تھی۔ قریب جاکر دیکھا۔ وہ بشیر احمد انصاری مرحوم تھے۔اور قریب گیا۔ ان کے ہونٹوں پر خفیف سی مسکراہٹ تھی۔فاتحانہ سی۔کیوں نہ ہوتی۔ میں نے سوچا۔

یہ داستان تمام نہیں ہوئی۔ ابھی کہتا رہوں گا۔

تازہ ترین