• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ادویات کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ، ڈریپ اور فارما کارٹیل گٹھ جوڑ

کراچی(اسد ابن حسن)پاکستان میں ادویات کی قیمتوں میں 15 فیصد اضافے کی وجہ (ڈرگ ریگولری اتھارٹی آف پاکستان ) ڈریپ اور فارما کاٹیل کا گوٹھ جوڑ ہے، ڈریپ کے سی ای او کو مستقل کرنے کے تقریباً دس دن کے اندر ادویات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا، ڈپٹی ڈائریکٹر ڈریپ ڈاکٹر عبید کا کہنا ہے کہ ڈریپ کے سربراہ کی تعیناتی ہر دور میں سیاسی بنیادوں پر کارٹیل کی ایما پر ہوتی رہی ہے، جبکہ سی ای او ڈریپ اختر حسین کا کہنا ہے کہ میری تعیناتی میرٹ پر ہوئی، دوائوں کی قیمتوں میں اضافے کا عوام پر کوئی اثر نہیں پڑیگا،وفاقی وزیر صحت عامر کیانی کا کہنا ہے کہ سی ای او کیلئے اختر حسین مطلوبہ معیار پر پورا اترے اس لئے انہیں کابینہ کی منظوری سے مستقل سی ای او تعینات کیا گیا، پاکستان فارما سیوٹیکل مینوفیکچرنگ ایسو سی ایشن کے چیئرمین زاہد سعید کا کہنا ہے کہ دوائوں کی قیمتوں میں اضافے سے پبلک کو فائدہ پہنچے گا اور انہیں ادویات ملنے لگیں گی ورنہ نہیں ملیں گی۔ تفصیلات کے مطابق ’’ڈریپ‘‘ کے اختر حسین کو فروری 2018ء میں قائم مقام سی ای او تعینات کیا گیا اور قانون کے مطابق اس کی میعاد تین ماہ تھی۔ بعد میں یہ میعاد بڑھتی رہی اور دسمبر کے آخری ہفتے میں کابینہ کی منظوری کے بعد انہیں مستقل کردیا گیا اور اس کے تقریباً دس دن کے اندر ادویات کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا۔ انتہائی باوثوق ذرائع کے مطابق اس کا فائدہ تھوڑا بہت کئی فارماسیوٹیکل کمپنیز کو پہنچے گا مگر سب سے زیادہ کچھ مخصوص لوگوں اور ان کی فیملیز کی ملکیت فارما سیوٹیکل کمپنیز کو پہنچایا گیا۔ دواؤں میں 15فیصد قیمتیں بڑھنے سے (خاص طور پر جان بچانے والی دواؤں) عام آدمی کی دسترس سے باہر ہونے کا خدشہ ہے۔ دواؤں کی قیمتیں بڑھانے کا جواز ڈالر کی قیمت بڑھنااور خام مال مہنگا ہونا دیا گیا ہے، مگر دنیا بھر میں خاص طور پر چین اور بھارت میں وہی خام مال جو پاکستان میں استعمال ہونے کے لیے درآمد کیا جاتا ہے اس کی قیمتیں کم ہورہی ہیں، بنگلہ دیش 97فیصد دوائیں ملک میں ہی تیار کرتا ہے، اس کو ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ وہ دنیا بھر کی دواؤں کے پیٹنٹ یعنی نسخے استعمال کرسکتا ہے۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے یہ سہولت پاکستان کو بھی کئی عشرے سے دے رکھی ہے مگر پاکستان کی ملٹی نیشنل کمپنیز اور ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) کی ملی بھگت سے اس پر عملدرآمد نہیں کیا گیا۔ بھارت، چین اور بنگلہ دیش دواؤں میں استعمال ہونے والا خام مال مقامی طور پر تیار کرتے ہیں مگر پاکستان میں 99فیصد خام مال درآمد کیا جاتا ہے، وہ بھی اوور انوائسنگ کرکے جس پر سالانہ اربوں روپے مختلف جیبوں میں چلے جاتے ہیں۔کمپنیوں کا کارٹل اتنا طاقتور ہے کہ وہ اپنی من چاہی قیمتوں پر خام مال فروخت کرتا ہے جبکہ وہی خام مال دوسرے ممالک میں پاکستان کے مقابلے میں 30فیصد قیمتوں پر فروخت کیا جاتا ہے۔ ڈپٹی ڈائریکٹر ڈریپ ڈاکٹر عبید نے ’’جنگ‘‘ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ فارما سیوٹیکل کمپنیوں اور ڈریپ کے کچھ افسران کے گٹھ جوڑ سے ہر سال سیکڑوں ڈاکٹرز اور ان کی فیملیز کو تمام اخراجات کی ادائیگی کے ساتھ فارن ٹرپس پر بھیجا جاتا ہےاور یہ پیسہ عوام کی جیب سے ادا ہوتا ہے۔ اُنہوں نے اس بات سے بھی اتفاق کیا کہ پاکستان میں خام مال کی درآمد میں ہوشربا طریقے سے اوور انوائسنگ کی جارہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 10ارب میں درآمدہ خام مال تین سو ارب میں فروخت ہوتا ہے۔ 25روپے کے میٹریل سے تیار ادویات یہاں 300روپے میں فروخت ہوتی ہیں جبکہ بھارت، چین اور بنگلہ دیش میں 40سے 50روپے میں فروخت ہوتی ہیں کیونکہ وہاں ڈرگ ریگولیٹری کے قوانین بہت سخت ہیں۔ قوانین کے حوالے سے اُنہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں ہر دور میں ڈریپ کے سربراہ کی تعیناتی سیاسی بنیادوں پر کارٹیل کی ایما پر ہوتی رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہاں کی فارما سیوٹیکل انڈسٹری من مانی کرتی ہے جس کی تازہ مثال حالیہ 15فیصد دواؤں کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔ سپریم کورٹ میں دواؤں کی قیمتوں کو بڑھانے کے لیے دو مختلف پٹیشنز پر چیف جسٹس کی سربراہی میں 13اگست اور 14نومبر کو حکومت کو یہ تاکید کی گئی کہ ڈریپ کا مستقل سی ای او فوراً تعینات کیا جائے کیونکہ شیخ اختر حسین کافی عرصے سے بطور قائم مقام تعینات تھے۔ اس حوالے سے سی ای او ڈریپ شیخ اختر حسین نے سوالات کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ان کے خلاف نیب میں کبھی کوئی انکوائری چلی نہ چل رہی ہے۔ ان کی تعیناتی ضابطوں اور قوانین کے مطابق ہوئی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ڈاکٹرز اور ان کی فیملیز کیلئے فارن ٹرپس فارما کمپنیز کی بزنس اسٹریٹجی ہوتی ہے اور ڈریپ کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ دوائوں کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ تمام فارما کمپنیز کو اس سے فائدہ پہنچے گا اور غریب عوام پر اس کا کوئی ’’خاص اثر‘‘ نہیں پڑے گا اور اس اضافے سے کسی خاص طبقے کو فائدہ نہیں پہنچے گا۔ وفاقی وزیر صحت عامر کیانی نے ’’جنگ‘‘ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ شیخ اختر حسین کی تعیناتی کابینہ کی منظوری کے بعد کی۔ ان کے خلاف نیب نے بے بنیاد الزامات لگائے تھے اور جس پر نیب نے دو مرتبہ سپریم کورٹ میں معافی مانگی۔ عدالت کے حکم پر اُنہوں نے محکمہ کے تین افسران کو شارٹ لسٹ کیا۔ شیخ اختر حسین مطلوبہ معیار پر پورا اُترے اور کابینہ کی منظوری کے بعد ان کو مستقل سی ای او تعینات کیا گیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ دواؤں کی قیمتوں میں اضافہ ناگزیر تھا کیونکہ ڈالر کی قیمت بڑھ گئی تھی اور جیسے ہی ڈالر نیچے آئے گا، قیمتیں کم کردی جائیں گی۔ان کاکہنا تھا کہ پاکستان سو فیصد خام مال درآمد کرتا ہے ، ادویات کی قیمتیں بڑھانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ پاکستان فارما سیوٹیکل مینوفیکچرنگ ایسوسی ایشن کے چیئرمین زاہد حمید نے ’’جنگ‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دواؤں کی قیمتوں میں اضافہ برقرار رہنے کے ہی امکانات ہیں۔ پاکستان میں ادویات میں استعمال ہونے والا خام مال 95فیصد درآمد ہوتا ہے اور وہ پورا استعمال ہوجاتا ہے، کہیں فروخت نہیں کیا جاتا۔ حالیہ اضافے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس سے کسی مخصوص طبقے کو نہیں بلکہ ’’پبلک‘‘ کو فائدہ پہنچے گا اور ادویات ملنے لگیں گی ورنہ نہیں ملیں گی۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر قیصر سجاد نے ’’جنگ‘‘ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پی ایم اے نے تجویز دی تھی کہ قیمتیں بڑھانے کی بجائے خام مال کی درآمد پر ٹیکسز میں کمی کردی جائے۔حکومت کو ہر اسپتال میں جان بچانے والی دوائیں بالکل مفت فراہم کرنی چاہئیں۔ اُنہوں نے ملک میں ہی خام مال تیار کرنے کی ضرورت پر زور دیا جس کے بعد دوائیں بے انتہا ارزاں قیمت پر دستیاب ہوسکتی ہیں۔
تازہ ترین