• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک انگریزی روزنامہ میں شائع ہونے والے اپنے ایک بیان میں عاصمہ جہانگیر نے الزام لگایا ہے کہ سندھ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں کچھ جج صاحبان کے قریبی عزیروں کو نوکریاں دی گئیں۔ گزشتہ ہفتہ عاصمہ کے ایک حمایتی اور عدلیہ بحالی کے ”ہیرو“ نے بھی کچھ ایسی ہی بات ایک ٹی وی شو کے بعد مجھ سمیت وہاں موجود کچھ دوسرے افراد سے کی۔ اس ”ہیرو“ کا اصرار تھا کہ لاہور ہائی کورٹ میں بھی ایک جج صاحب کے قریبی عزیز کی تعیناتی کی گئی ہے۔ویسے تو عاصمہ اور اس ”ہیرو“ کو موجودہ عدلیہ میں شاید ہی کوئی اچھی چیزنظر آتی ہو مگران تازہ الزامات میں اگر کوئی صداقت ہے تو چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری اور متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان کو ان معاملات کا فوری نوٹس لینا چاہیے۔اگر یہ سب جھوٹ ہے تو اس بارے میں سپریم کورٹ کے رجسٹرار صاحب کی طرف سے تردید آنی چاہیے۔ اپنے بیان میں عاصمہ کا کہنا ہے کہ وہ وزیراعظم پرویز اشرف صاحب کی طرف سے اپنے داماد کو ورلڈ بینک میں اعلیٰ عہدے پر تعینات کرنے کے فیصلہ کے خلاف ہیں، بے شک یہ تعیناتی میرٹ پر کی گئی ہو۔ خاتون سے تمام تر اختلافات کے باوجود میں بھی یہ سمجھتا ہوں کہ اگر وزیر اعظم صاحب نے اپنے داماد کی ورلڈ بینک میں تعیناتی کر کے غلطی کی تو اسی کلیے کے تحت یہ بھی
مناسب نہیں کہ جج حضرات کے کسی قریبی عزیزکو عدلیہ میں انتظامی عہدے پر بھرتی کیا جائے۔ ماضی کی عدلیہ کے دور میں بہت کچھ اور بہت بُرا بھی ہوتا رہا مگر عوام موجودہ عدلیہ سے کسی ایسے اقدام کی توقع نہیں رکھتے ۔ اور جب معاملہ ججوں کا ہو تو ویسے بھی میرٹ اور شفافیت کے اصولوں پر سختی سے عمل کیا جانا چاہیے۔
پبلک اکاونٹس کمیٹی کی جانب سے اس کے سامنے رجسٹرار سپریم کورٹ کے پیش نہ ہونے پر ریفرنس اسپیکر قومی اسمبلی کو بھجوا دیا گیا۔ کچھ شرارتی لوگوں کی خواہش تھی کہ اس موقع کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے عدلیہ اور پارلیمنٹ میں ایک سنگین لڑائی کروا دی جائے جس کے لیے یہ تجویز دی گئی کہ کمیٹی ریفرنس کی بجائے رجسٹرار سپریم کورٹ کے وارنٹ گرفتاری جاری کرے۔ مگر اس شرارت کو پبلک اکاونٹس کمیٹی نے بھانپتے ہوئے وہ فیصلہ کیا جس سے بہتر حل کے نکلنے کی توقع ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اسپیکر صاحبہ کیا کرتی ہیں مگر بہتر ہو گا کہ دانشمندی کے ساتھ بات چیت کے ذریعے اس مسئلہ کا ایسا حل نکالا جائے جو عدلیہ کی آزادی اور خودمختاری کو بھی برقرار رکھے اور جس کے نتیجے میں جج صاحبان کے کنڈکٹ کو زیر بحث لائے بغیر عدلیہ کے لیے مختص بجٹ اخراجات کا پبلک اکاونٹ کمیٹی جائزہ بھی لے سکے۔ یقیناً اپنی بحالی سے اب تک موجودہ اعلیٰ عدلیہ نے وہ کچھ کیا جس کا ماضی میں کوئی تصوربھی نہیں کر سکتاتھا ۔عدلیہ کو اس مقام پر پہنچانے کے لیے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کلیدی کردار ادا کیا۔ چیف جسٹس کی مزید ایک سال سروس باقی ہے اور وہ دسمبر 2013 میں ریٹائر ہو جاہیں گے۔ اب تک بہت کچھ کرنے کے باوجود چیف جسٹس صاحب کو ابھی اور کچھ چیلنجز کا سامنا ہیجنمیں سب سے بنیادی چیلنج نچلی عدالتوں میں انصاف کی جلد فراہمی کا وہ خواب ہے جس کے شرمندہ تعبیر ہونے پر عام پاکستانی سکون کا سانس لے گا۔ اس سلسلے میں اعلیٰ عدلیہ کی پالیسی ساز کمیٹی نے سال 2009 میں ایک تفصیلی پالیسی بھی جاری کی مگر عام لوگ نچلی عدالتوں سے ابھی بھی خوش نہیں اور انصاف کی فراہمی میںآ ج بھی اُن کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ کسی عام فرد کے لیے ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ تک پہنچنا اب ویسے ممکن ہی نہیں رہا کیوں کہ عدلیہ بحالی کے بعد وکلاء ”ہیروز“ نے اپنی فیسوں کو بڑھا کر لاکھوں اور کروڑوں روپے تک پہنچا دیا ۔ لاکھوں اور کروڑوں کی فیس نے کچھ بڑے ”ہیروز“ کو ارب پتیوں اور ملک کی دولت لوٹنے والوں کے گھروں کی لونڈی بنا دیا۔ وہ جو غریب اور انصاف کا نعرہ لگاتے تھے، آج غریب کے سب سے بڑے دشمن بن چکے ہیں۔ اگر چیف جسٹس کی طرف سے سوموٹو نوٹس نہ لیے جائیں تو ایک بڑی تعداد میں مظلوموں کی کوئی آہ سننے والا ہی یہاں نہ ہو۔ یہ بار اور بنچ کی ذمہ داری ہے کہ وہ مقدمات کی فیسوں کے معاملات میں کوئی ایسا حل نکالیں کہ غریب اور متوسط طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد بھی بآسانی وکلاء کی خدمات حاصل کر سکیں ۔
تازہ ترین